The Shape of Water

اقبال خورشید  ہفتہ 10 مارچ 2018

کچھ دیرکے لیے۔۔۔ فقط کچھ دیرکے لیے اِس بے ہنگم شور سے، اِس غل غپاڑے سے، بھانت بھانت کی بولیوں سے دُورچلے چلتے ہیں۔

کچھ دیر کے لیے، سینیٹ انتخابات میں ہونے والی شرمناک خریدوفروخت کو بھول جائیں۔ مغلظات پر مبنی سیاست سے پرے، نہال ہاشمی کی اداکاری اور عدت کے دنوں کا حساب کتاب رکھتی تحقیقی صحافت سے اُدھر، فن کی دنیا کی سمت چلتے ہیں۔ ایک سوہنے دن میں داخل ہوتے ہیں۔فروری 2016ء کی ایک صبح میں۔

جب میں گھر سے روانہ ہوا، تب تک شرمین عبید چنائے کے دوسراآسکر جیتنے کی خبر موصول ہو چکی تھی، مگر یہ وہ خبر نہیں تھی، جس کا میں منتظر تھا۔ مجھے کسی اور واقعے کا انتظار تھا۔ دفتر پہنچ کر، جب میں دھڑکتے دل کے ساتھ، امیدوں اندیشوں کے ساتھ کمپیوٹر اسکرین آن کرتا ہوں، بی بی سی کی ویب سائٹ پر جاتا ہوں، تب یکدم میرا دل اس مسرت سے ہمکنار ہوتا ہے، جس کے سحر سے میں اب تک لاعلم تھا۔

آج سے قبل فروری کی کوئی دوپہر اتنی خوش گوار نہیں تھی، جتنی وہ تھی، جب میں نے اس شخص کو، جو میرے ذہن سے کمل ہاسن اور شاہ رخ خان کی یادیں محورکر دیتا ہے، آسکر ٹرافی ہاتھ میں تھامے دیکھا۔ لیونارڈو ڈی کیپریو، 2015ء کے بہترین اداکار کا آسکر، فلم The Revenant کے لیے جیت چکا تھا۔ وہ لیونارڈو نہیں، جسے دنیا Titanic کی وجہ سے جانتی ہے۔ قطعی نہیں۔ بلکہ وہ جو The Aviator، Blood Diamond اور The Wolf of Wall Street جیسی فلموں کے وسیلے پہلے بھی آسکرکے لیے نامزد ہو چکا تھا،  Martin Scorsese جسے باکمال ہدایت کار کی فلم Shutter Islandکا لیونارڈرو، وہ فلم، جس کا میں گرویدہ ہوں، جس کی جانب میں وقفے سے وقفے سے پلٹا ہوں۔ فلم، جسے میں مارکیز کے کسی ناول کی طرح چاہتا ہوں۔

وہ لیونارڈو، جو ہماری نسل کا بہترین اداکار ہے، جو The Great Gatsby، J. Edgar، اور Inception جیسی فلموں سے ہمیں گرویدہ بناتا ہے، اس دوپہر آسکر کی ٹرافی تھامے کھڑا تھا اور وہی بات کر رہا تھا، جو وہ تسلسل سے کرتا آیاہے’’ماحولیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے، اوریہ رونما ہو رہی ہے!‘‘ اور پھر وہ دل میں گھر کر جانے والا جملہ:. Let us not take this planet for granted. I do not take tonight for granted.

اس حسین لمحے کو بازیافت کرنا، کچھ دیر کے لیے مجھے ان دشنام طرازیوں سے، ان بڑھکوں سے، اس سیاسی انتشار سے دور لے جاتا ہے، جس نے ہمارے آج کو داغ دار بنا دیا ہے۔ ایم کیو ایم کی بیزار کن شکست و ریخت، پیپلزپارٹی کی افسوس ناک جوڑ توڑ، ن لیگ کی اداروں پر شتر بے مہار تنقید اور اداروں کی اپنے حدود کی خلاف ورزی۔ اس انتشار سے دُوری ہی بھلی۔

اس برس بہترین فلم کا آسکر جیتنے والی فلم The Shape of Water دیکھنے بیٹھا، تو خواہش یہی تھی کہ اس کھوکھلی دنیا سے کچھ فاصلہ اختیار کیا جائے۔ پانی میں اترا جائے، اس پانی کی ساخت کو پرکھا جائے۔

یہ فلم معروف میکسیکن ہدایت کار Guillermo del Toro کی کاوش ہے، جس نے باصلاحیت اداکارہ Sally Hawkinsکے اردگرد ایک فینٹسی ڈراما تشکیل دیا ہے۔ یہ 1960ء کی دہائی ہے، جہاں ایک گونگی، یتیم لڑکی، جس کی گردن پر زخم کے پراسرار نشان ہیں، اپنے اپارٹمنٹ میں تنہا رہتی ہے۔ وہ ایک خفیہ حکومتی لیبارٹری میں صفائی ستھرائی کا یکسانیت سے پُر فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ اس کی زندگی سیدھی سادی اور بے معنی ہے، مگر پھر۔۔۔ ایک روز وہاں، اس لیبارٹری میں ایک عجیب وغریب مخلوق کو لایا جاتا ہے۔ انسانوں جیسی مچھلی نما آبی مخلوق، جسے جنوبی امریکا کے گہرے پانیوں سے پکڑا گیا ہے۔

مخلوق جس کی وہاں پرستش کی جاتی تھی۔ اوروں کے برعکس، جو اُس سے دور رہتے ہیں، اس گونگی، تنہا لڑکی کی اُس مخلوق سے دوستی ہو جاتی ہے، جو جلد اتنی گہری انسیت میں تبدیل ہو جاتی ہے کہ وہ بے حیثیت لڑکی سسٹم کے خلاف جا کر اُسے آزاد کروانے کی کوشش کرتی ہے اور اسی کوشش سے وہ جذبہ جنم لیتا ہے، جو ازل سے انسان کو گرویدہ بنائے ہوئے ہے، یعنی محبت۔ اور محبت سے جڑے وہ لطیف مناظر، جنھیں ہم برسوں سے دیکھتے آئے ہیں، مگر وہ آج بھی تازہ معلوم ہوتے ہیں۔

میں توقع کر رہا تھا کہ اس برس بہترین فلم کا ایوارڈ Dunkirk کو ملے گا۔ کرسٹفر نولن کی Dunkirk کو، جسے کچھ ناقدین اس بے بدل ہدایت کار کی بہترین فلم گردانتے ہیں، مگر یہ ایوارڈThe Shape of Water کے حصے میں آیا۔ ایک فینٹسی فلم کے حصے میں، بلکہ مجھے کہنے دیجیے: میجک رئیل ازم کے حصے میں۔

فلم، جہاں ایک اساطیری مخلوق کی موجودگی کو بنا کسی اچنبھے کے قبول کر لیا جاتا ہے، جہاں ایک لڑکی کے اس کی محبت میں گرفتار ہونے پر ہمیں قطعی حیرت نہیں ہوتی، اور یہاں تک کہ آخر میں اس لڑکی کے زمین کو ترک، آبی زندگی اختیار کرنے پر بھی ہم نہیں چونکتے۔ اس فلم میں حیرتیں زندگی کا حصہ ہیں۔ اور ہدایت کار کی یہی کامیابی تھی کہ اس نے بظاہر ایک محیر العقول واقعے کو، غیرفطری صورت حال کو اس خوبی سے منظر کیا کہ وہ ہمیں قابل یقین اور قابل قبول ہی نہیں دل آویز بھی لگنے لگی۔

ہر اچھی فلم کی طرح اس فلم میں بہت کچھ ایسا ہے، جو بیان نہیں کیا گیا، جو ناظر کو قیاس آرائی پر اکساتا تھا، وہ مرکزی کردار کے ماضی سے متعلق کہانیاںگھڑنے لگتا ہے۔ کہیں یہ تنہا یتیم لڑکی، جو کم سنی میں سمندر کنارے ملی تھی، خود بھی آبی مخلوق تو نہیں؟ کہیں اس کے زخموں کے نشانات گلپھڑے تو نہیں؟ کیا یہی وجہ ہے کہ وہ آبی مخلوق کے عشق میں مبتلا ہو جاتی ہے؟ کیا یہی وجہ ہے کہ فلم کے ایک دل کش منظر میں ہم اُسے سہولت سے زیر آب سانس لیتے ہوئے دیکھتے ہیں؟

کیا یہ Dunkirk سے بہتر فلم ہے؟ کیا اِسی فلم کو آسکر ملنا چاہیے تھا؟ میں یہ نہیں کہوں گا، لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ یہ ایک خوبصورت کاوش ہے، تحیر کو لطیف پیرائے میں، محبت میں گوندھ کر پیش کرنے والی کاوش،جسے ایک بار بہ ہرحال دیکھنا چاہیے۔

اور یوں بھی جہاں جھوٹے وعدوںکی گونج ہو، کھوکھلے دعوؤں کی دھمک ہو، جہاں ایک دوسرے پر کیچڑا اچھالنے کا نام سیاست اور اس کیچڑ کو سیاہی بنانے کا نام صحافت ہو، جہاں مذہب کاروبار بن جائے اورکاروبار مذہب، وہاں سے کچھ لمحوں کے لیے دُور ہوجانا ہی بہتر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔