حبیب جالب کی یادوں کی بجھی راکھ

شاہد سردار  اتوار 11 مارچ 2018

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ قومی ہیرو قوم کی شناخت اور حوالہ ہوتے ہیں۔ دنیا ان کے قد و قامت، افکار اور عمل میں اقوام اور افراد کی شبیہ تلاش کرکے ان کے بارے میں اپنی رائے قائم کرتی ہے۔ اس لیے قومی شخصیات کے نظریات و افکار کا پرچار کرکے ممالک اپنی حکمت عملی وضع کرتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دنیا ہمیں ہمارے رہنماؤں، فنکاروں، ادیبوں اور شاعروں کے آئینے میں دیکھتی ہے۔

غربت کی کوکھ سے جنم لینے والے عظیم انقلابی و عوامی شاعر حبیب جالب جن کی 25 ویں برسی کل یعنی 12 مارچ کو منائی جائے گی ایسے عہد ساز شاعر تھے جن کی مثال دور دور تک تلاش نہیں کی جاسکتی۔ انھوں نے نامساعد حالات میں بھی عوام کے لیے آواز اٹھائی اور ان کی نمایندگی کا حق ادا کردیا۔ ان کی آنکھ نے جو دیکھا اور دل نے جو محسوس کیا اس کو من و عن اپنے اشعار میں ڈھال دیا اور نتائج کی پرواہ کیے بغیر انھوں نے ہر دور کے جابر اور آمر حکمران کے سامنے کلمہ حق بیان کیا۔

حبیب جالب نے اپنی زندگی میں ادب کے لیے بے شمار کام کیا، ان کی نظموں کے پانچ مجموعے برگ آوارہ، سر مقتل، عہد ستم، ذکر بہتے خون کا اور گوشہ میں قفس کے شایع ہوئے اور شعر و ادب کی دنیا میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔

حبیب جالب اور ان جیسے شعرا کے کارہائے اپنی جگہ لیکن فرصت میں بیٹھیں تو ان کے کام کے ساتھ ساتھ ان کے وہ احسانات بھی یاد آتے ہیں جو انھوں نے آنے والی نسل کی تربیت اور تحریک کے حوالے سے کیے۔ حبیب جالب جیسے ناقابل فراموش لوگ اور ان کا تخلیق کردہ اعلیٰ ادب تو ہمارے درمیان موجود ہے مگر اب وہ خود ہم میں نہیں ہیں۔ حبیب جالب جیسے صاحب سخن لوگ اپنے کردار کی استقامت اور اقدار کی حفاظت کے زندہ استعارے ہوتے ہیں اور انھی دو باتوں کی اس وقت ہمارے معاشرے کو شاید سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

ایک بار عید الفطر کے دن حبیب جالب نے پاکستان کے ایک مشہور صحافی کو فون کیا اور کہا کہ ’’بیٹا! مجھے 500 روپے کی ضرورت ہے تم 100 روپے کے پانچ نوٹ لے آؤ۔‘‘ وہ صحافی ان کے گھر پہنچے اور انھیں سو کے پانچ نوٹ پیش کردیے۔ حبیب جالب نے اپنی بیٹیوں کو بلاکر انھیں عیدی تقسیم کردی۔ اسی دوران چوہدری شجاعت حسین کے سیکریٹری وہاں آگئے اور حبیب جالب کو ایک موٹا سا لفافہ دیتے ہوئے کہا ’’اس میں ایک لاکھ روپیہ ہے اور یہ عیدی آپ کے بچوں کو چوہدری صاحب نے بھجوائی ہے۔‘‘

حبیب جالب نے بڑی عزت کے ساتھ چوہدری ظہور الٰہی کے بیٹوں کو دعائیں دیں اور ان کا ایک لاکھ روپیہ شکریے کے ساتھ واپس کردیا۔ چند دنوں کے بعد حبیب جالب نے مذکورہ صحافی کو بھی 500 روپے واپس کردیے۔ اس واقعے سے بھی ان کی وضعداری ثابت اور ظاہر ہوتی ہے۔

حبیب جالب نے مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستگی اختیار کی مگر ان کے لیڈروں کے ساتھ غیر منطقی اور غیر اصولی تعاون اور ان کی نظریاتی قلابازیوں کے باعث ان سے ناتا توڑ لیا۔ عوام نے انھیں ’’عوامی شاعر‘‘ کے جس لقب سے سرفراز کیا اسے حبیب جالب نے اپنے لیے سب سے بڑا اعزاز سمجھا ۔ان کی ساری زندگی ظلم، جبر اور ناانصافی کے خلاف جنگ لڑتے گزری۔ ہماری یہ پرانی روایت ہے کہ جب بھی ہم سے کوئی شخص جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام دشمنوں کو للکارتا ہے تو ہم اس شخص کو داد تو بہت دیتے ہیں لیکن عملی طور پر اس کا ساتھ دینے سے ہچکچاتے ہیں۔

چنانچہ زبان قلم سے عوام دشمنوں کے خلاف جنگ لڑنے والے بہت سے مجاہد حوصلہ ہار دیتے ہیں اور حالات سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں لیکن کچھ ’’سر پھرے‘‘ مجاہد ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی جگہ ٹک کر اپنی جنگ مسلسل جاری رکھتے ہیں اور آخر کار لڑتے لڑتے شہید ہوجاتے ہیں۔ جالب بھی انھی میں سے ایک تھے۔ حبیب جالب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کے نظریات کی ڈوری کسی دوسرے ملک سے کھنچتی یا ہلتی نہیں تھی بلکہ ان کے افکار و نظریات نے ہماری پاک سرزمین کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔

حبیب جالب نے نامساعد حالات میں بھی کبھی اپنی فہم اپنی دانش کو فروخت نہیں کیا اور یہ ان کی ذات کا بہت بڑا وصف تھا۔ وہ گل و بلبل اور ہجر و وصال کی شاعری کرکے بے حد محفوظ اور آسان زندگی گزار سکتے تھے جس سے وہ اور ان کے اہل خانہ کم ازکم پولیس کے چھاپوں، تنگ دستی و بدحالی اور قید و بند کی اذیتوں اور طویل مقدموں کے عذابوں سے بچ جاتے، ان کی اولادوں کا مستقبل بھی روشن ہوتا لیکن حبیب جالب نے آسان زندگی کو چھوڑ کر اپنے ساتھ اپنے اہل خانہ کو بھی خطرات میں ڈال دیا۔

حبیب جالب کی یہ قربانی ان کروڑوں خاموش انسانوں کے لیے سودمند ثابت ہوئی جو بار بار کی آمریت سے کچلے جاتے تھے۔ حبیب جالب کا شعر لاکھوں کے جلسے میں سنا جاتا اور عام آدمی کے ذہن پر انمٹ نقوش کی طرح چھپ جاتا تھا۔ جہاں ان کی آواز اور شاعری لاکھوں دلوں کو گرماتی وہیں جمہوریت کے دشمن عناصر اور آمروں کے لیے پیام مرگ بھی ثابت ہوتی رہی۔

ان کی مشہور زمانہ نظم ’’دستور‘‘ کلاسیک کے مرتبے پر ہمیشہ فائز رہے گی جس میں ان کی ذات کا کھرا پن اور بے پایاں دانش کو باآسانی دیکھا جاسکتا ہے، انھوں نے اپنی ضرورتوں کو کبھی اپنی دانش پر غالب نہ آنے دیا۔ شعر و ادب میں دلچسپی رکھنے والے شاید اس بات سے واقف ہوں کہ آغا شورش کاشمیری اور حبیب جالب میں شدید نظریاتی اختلاف تھا لیکن جب کسی نظریاتی مخالف پر مشکل آن پڑتی تو نظریاتی اختلافات بھلا دیے جاتے تھے۔

ایک دفعہ لاہور کے لکشمی چوک میں ایک پولیس والے نے حبیب جالب کی بے عزتی کردی تو آغا صاحب اپنا کام چھوڑ کر لکشمی چوک آئے اور پولیس والے کی پٹائی کرتے ہوئے کہا کہ ’’تم نہیں جانتے یہ حبیب جالب ہے۔‘‘ یہ کہا اور تھانے جاکر دھرنا دے دیا یہ کہہ کر کہ ’’جس شہر کی پولیس حبیب جالب کی بے عزتی کرے وہ شہر رہنے کے قابل نہیں اس لیے مجھے جیل بھیج دو۔‘‘ پولیس والے معافیاں مانگنے لگے لیکن آغا شورش نہ مانے بعدازاں اس دھرنے نے ایک ہجوم کی شکل اختیار کرلی۔ گورنر نے مداخلت کی لیکن آغا صاحب نہ مانے کہ جس شہر میں جالب کی بے عزتی ہو میں وہاں نہیں رہوں گا۔ بات اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچی تو انھوں نے بھی آغا صاحب اور جالب سے معذرت کی جس پر آغا صاحب دھرنے سے اٹھے۔ اس واقعے کے بعد حبیب جالب ہر کسی کو کہتے پھرتے تھے ’’شورش نے میری عزت بچالی ابھی اس شہر میں رہا جاسکتا ہے۔‘‘

حبیب جالب کی یادوں کی بجھی راکھ کو اگر ہم اسی طرح ہوا دیتے رہے تو پچھتاوؤں اور تقلید کے باب کھلتے جائیں گے، بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ جالب شاعری اور ظرف کے حوالے سے ہمارے عہدکا اعتبار تھے افسوس ایسا اعتبار اور ظرف شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملے، وہ اپنی استقامت، جرأت اظہار اور ’’عوامی شاعر‘‘ کے لافانی اعزاز کے ساتھ اس بھربھری مٹی کا رزق بن گئے جو روز اول سے اس کام پر مامور اور مجبور ہے کہ یہی حکم ربی اور تقاضائے مشیت ہے۔ ہم زادگان خاک کو سوائے صبر کے اور کسی چیز کی اجازت نہیں اور اس کی توفیق بھی اس مالک کل کی رضا پر موقوف ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔