سرزمین عرب پر مندر کی تعمیر

نسیم انجم  اتوار 11 مارچ 2018
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

تبلیغ اسلام سے لے کر طلوع اسلام تک اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کفار نے طرح طرح سے اذیتیں پہنچائیں، آپؐ کے جسم اطہر پر کوڑا کرکٹ پھینکا گیا، آپؐ کی راہ میں کانٹے بچھائے گئے۔

دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں پر جورو ستم ڈھائے گئے، اہل ایمان کو سخت دھوپ میں تپتے سنگریزوں پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھے جاتے، تاکہ ہل نہ سکیں، دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا دیتے اس وقت تک جنبش نہ کرنے دیتے جب تک زخموں کی رطوبت سے آگ بجھ نہ جاتی، رسی باندھ کر گھسیٹتے، پانی میں غوطہ دیتے، مردوں کے ساتھ ساتھ مسلم خواتین کو بھی نہ بخشتے۔ لیکن یہ سفاکی کسی ایک بھی اہل ایمان کو اپنے مذہب توحید سے الگ نہ کرسکی۔ ان حالات میں اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺ  نے ارض حبشہ جانے کی اجازت دے دی۔

مشرکین نے ان کا بندرگاہ تک پیچھا کیا لیکن مسلمان روانہ ہوچکے تھے، ایسی صورت میں حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو ورغلانے کی کوشش کی لیکن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس کی وجہ حضرت جعفرؓ کی صدق و صداقت میں ڈوبی مختصر تقریر تھی، انھوں نے فرمایا کہ ’’ہم لوگ جاہل تھے، بتوں کو پوجتے، مردار کھاتے تھے، بدکاری اور قطع رحمی میں آگے تھے، طاقتور کمزور سے جینے کا حق چھین لیتا تھا، ان حالات میں اللہ رب العزت نے ایک پیغمبر بھیجا جن کی صداقت، امانت، پاک بازی اور حسب نسب سے سب واقف ہیں، اس نے ہمیں خدائے واحد کی طرف بلایا، بت پرستی سے نجات دلائی اور اللہ کی وحدانیت کا سبق پڑھایا، سچ بولنے، امانت داری، صلہ رحمی، نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کی تعلیم دی، خون ریزی اور عفیفہ عورتوں پر تہمت لگانے کو منع فرمایا اور پھر ہم پیغمبر خدا پر ایمان لے آئے، بت پرستی چھوڑ دی، حرام حلال کے فرق کو پہچاننے لگے، یہی وہ نیک اعمال تھے جن کی بنا پر مشرکین ہمارے دشمن ہوگئے۔

یہ باتیں سن کر نجاشی نے کلام پاک سنانے کے لیے کہا تو حضرت جعفرؓ  نے کھیعص کا ابتدائی حصہ سنایا، اسے سن کر نجاشی اور درباریوں پر رقت طاری ہوگئی، اس نے کہا خدا کی قسم یہ کلام اور حضرت عیسیٰ کا کلام ایک ہی راہ کے دو پرتو ہیں۔ جب کفار نے اپنے معاملات بگڑتے دیکھے تو انھوں نے اہل ایمان کو قابو میں کرنے کے لیے دوسری چالیں چلنا شروع کردیں لیکن ہر بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اس کی وجہ مسلمانوں کے دلوں میں ایمان کی روشنی مزید دمک رہی تھی۔ جس قدر قریش ظلم و ستم ڈھاتے، اسلام کی طاقت کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی۔

مسلمانوں کی یہ کامیابی دیکھ کر مکہ کے کفار دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں کو ہر طرح سے ورغلانے کی کوشش کرتے، ستم ڈھاتے کہ کسی بھی طرح مسلمان دین حق سے منہ موڑ لیں۔ غزوہ بدر، غزوہ احد، قریش کی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھے۔ بدر کی عظیم کامیابی کے بعد قریش انتقام کی آگ میں جھلس رہے تھے، اپنی اسی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے انھوں نے جنگ احد کے لیے راہ ہموار کی۔

احد کے بعد بہت سے غزوات ہوئے جس کے کئی اسباب تھے، ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عرب کا ہر قبیلہ بت پرست تھا اور اسلام اس کے خاتمے کے لیے آیا تھا۔ زیادہ تر قبیلے لوٹ مار پر یقین رکھتے تھے اور وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر اسلام غالب آگیا تو ان کا ذریعہ معاش ختم ہوجائے گا۔

فتح مکہ کے وقت رسول پاک ﷺ نے خانہ کعبہ کو جو دنیا کا واحد توحید کا مرکز تھا بتوں کی آلائش سے پاک کیا، اس وقت خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت نصب تھے، آنحضرت ﷺ  نے انھیں لکڑی سے گرانا شروع کیا۔ خاص خانہ کعبہ کے اندر جتنے بت تھے سب کے سب وہاں سے نکال دیے گئے، حضرت عمرؓ نے دیواروں پر لگی ہوئی تصویریں مٹا دیں، حضرت محمد ﷺ ، حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت طلحہؓ کے ہمراہ اندر داخل ہوئے اور نفل شکرانہ ادا کیے اور نماز کے بعد تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا، جس کے مخاطب نہ صرف عرب بلکہ پورا عالم تھا ’’ایک خدا کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا، اس نے اپنے عاجز بندے کی مدد کی اور تمام جتھوں کو تنہا توڑ دیا، آج تمام مفاخر اور انتقامات و خون بہائے قدیم سب میرے قدموں کے نیچے ہیں، اے قوم قریش! اب جاہلیت کا غرور اور نسب کا افتخار خدا نے مٹا دیا، تمام انسان آدم کی نسل سے ہیں اور آدم مٹی سے بنے تھے۔‘‘

مذہب اسلام کی سربلندی کے لیے نبی پاکؐ نے قریش مکہ کے ہاتھوں تکلیفیں اٹھائیں، قدم قدم پر اذیتیں برداشت کیں، جنگوں میں حصہ لیا، بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آج ہم نے تمہارے دین کو مکمل کردیا، اسی فتح کے حوالے سے سورۃ النصر نازل ہوئی، جب اللہ تعالیٰ کی مدد آ پہنچی اور مکہ فتح ہوگیا اور لوگوں کے گروہ در گروہ دین میں داخل ہوتے چلے گئے۔

اسلامی تعلیمات اور معاشرتی پس منظر میں یہ بات ان لوگوں کے لیے یقیناً دکھ کا باعث ہے جو اہل ایمان ہیں کہ جس سرزمین عرب سے اسلام طلوع ہوا اور بتوں کی پوجا کرنے والے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، اسی خطے میں آج پھر مندر کی تعمیر ہوئی اور باقاعدہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اس کا افتتاح کرنے کی دعوت دی، ابوظہبی کی حکومت نے بھارتی وزیراعظم کو خوش آمدید کہا ۔ ان کا یہ عمل امت مسلمہ کے لیے شدید ترین ذہنی صدمے کا باعث بنا، گویا انھیں اس دور میں بھی جب مسلمان ایک بڑی قوت کے ساتھ سامنے ہیں، بھارت کو خوش کرنے کی ضرورت پیش آگئی۔

مسلمان جو ماضی میں طاقت، عزت کا استعارہ بن کر سامنے آئے تھے اور تقریباً پوری دنیا کو فتح اپنے کردار کی بدولت کرلیا تھا، آج اخلاق و کردار کی بات کریں تو یہی لوگ اسلام سے قبل جہالت کے اسی دور میں پہنچ چکے ہیں، تعیشات زندگی کو اپنا نصب العین بنا بیٹھے ہیں۔

امت مسلمہ کا اتحاد پارہ پارہ ہوچکا ہے، غریب ملکوں پر امریکا کی یلغار اور اس کے نتیجے میں تباہی، مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے اور حکمران ہیں اسی پاک سرزمین پر ہندوؤں کا معبد خانہ تعمیر کروا کے تحفتاً پیش کر رہے ہیں، جس مقدس زمین سے بتوں کو نکال کر پاش پاش کردیا گیا تھا۔ اور یہ وہ ملک بھارت ہے جو مسلمانوں پر درندگی اور بربریت کا مظاہرہ 70 سال سے کشمیر میں کر رہا ہے، گجرات کی دردناک داستان دنیا کے سامنے ہے، لیکن اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل خاموش تماشائی بنی رہیں۔

غیروں سے کیا شکایت، یہاں تو یہ حال ہے کہ ’’گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ مسلم حکمران سوتے رہے، اپنی دنیا میں مگن رہے، فلسطین اور بیت المقدس پر اسرائیلی قابض ہوگئے۔ آج فلسطینی اپنے ہی ملک میں بے یارومددگار ہیں۔ عرب ریاستیں غیر مسلموں کا پورا پورا ساتھ دیتی رہیں اور ملک عرب تو ویسے بھی اب لبرل ہوتا جا رہا ہے، ویلنٹائن ڈے کی بھی اجازت مل گئی، سینما حال بھی تعمیر کیے جا رہے ہیں اور بھی ایسے اثرات عرب بھائیوں نے قبول کیے ہیں جو مغرب سے آئے ہیں۔

تعیشات زندگی جوکہ سراب زیست کا نام ہے، اسی میں گم ہیں، انھیں اپنے مسلمان بھائیوں کے تڑپتے جسم خون میں ڈوبے نظر نہیں آرہے ہیں؟ کس قدر بے حسی ہے؟ سفاکی کا اندھیرا بڑھتا جا رہا ہے، اس ظلم کی اندھیر نگری میں درندے ناچ رہے ہیں، دشمن خوش ہے اور وہ یہی چاہتا تھا، جو مسلم حکمرانوں نے خواب غفلت کی نیند سوکر، کر دکھایا، وہ اسلامی تعلیمات، اخوت، بھائی چارہ، مہاجر و انصار کے رشتے، ایثار و قربانی کو بھلا بیٹھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔