سیاست کی ایک اور بساط

عبدالقادر حسن  اتوار 11 مارچ 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

سیاست کی شطرنج بچھا دی گئی، گھوڑے اور پیادے اپنی اپنی جگہوں پر اس انتظار میں کھڑے ہیں کہ شطرنج کے بادشاہ کھلاڑی اپنے وزیروں کے ساتھ اپنی اپنی پوزیشنیں سنبھال لیں اور پھر کھیل شروع ہو جائے۔

سیاست کے کئی رنگوں میں رنگی یہ شطرنج سینیٹ کے الیکشن کیلیے کچھ عرصہ قبل ہی بچھا دی گئی تھی اور کھلاڑیوں نے اپنے پیادوں کے ذریعے چند مہروں کو حرکت دے کر اور اس بازی کو جیتنے کی پوزیشن میں لاکر اسے آیندہ سیاسی کھیل تک ایسے ہی بچھے رہنے دیا اور جیسے ہی دوبارہ سیاسی کھیل کا آغاز ہوا سیاسی کھلاڑی ایک بار پھر اپنی بچھائی گئی شطرنجی بازی کے ارد گرد بیٹھ گئے اور مہروں کو حرکت دینی شروع کر دی تا کہ اس بازی کو جلد از جلد جیت کر لپیٹ دیا جائے۔

ہمارے سیاسی کھلاڑی ان شطرنجی بازیوں کے عادی ہیں اور اس بات کی مکمل جان پہچان رکھتے ہیں کہ سیاست کی شطرنج پر کب اپنے مہروں کو آگے بڑھانا ہے اور کون سی چال چلنی ہے جس سے اس بازی کو جیت میں تبدیل کر دیا جائے۔

ان سیاسی کھلاڑیوں نے اس بار بھی سینیٹ الیکشن کے انعقاد سے پہلے تو شکوک و شبہات کا اظہار کیا لیکن جب یہ بات کنفرم ہو گئی کہ الیکشن ہونے جا رہے ہیں تو ان کے انعقاد سے قبل ہی شطرنجی چال چلتے ہوئے پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین جناب آصف علی زرداری نے اپنی سیاسی بصیرت کو استعمال کرتے ہوئے اپنی پارٹی کی سینیٹ میں آیندہ کی یقینی اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کیلیے اور ملک کے اعلیٰ ترین ایوان میں اپنا وجود برقرار رکھنے کیلیے جوڑ توڑ کی سیاست کا آغاز کر دیا اور سیاسی حریفوں خاص طور پر مسلم لیگ نواز کو سینیٹ میں عددی اکثریت کے باوجود اپنے سیاسی داؤ پیچ لگا کر مشکل میں مبتلاء کر دیا ہے۔ گو کہ سینیٹ کی دونوں بڑی جماعتیں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کو اپنا چیئر مین منتخب کرنے کے لیے دوسری جماعتوں کے ووٹ درکار ہیں اور اس میں اہم ترین کردار تحریک انصاف کا ہے جس کے ووٹ تیسرے نمبر پر دوسری جماعتوں سے زیادہ تعداد میں ہیں اور یہ ووٹ جس پارٹی کی حمایت میں چلے جائیں گے وہ باآسانی اپنا چیئر مین منتخب کرا لے گی۔

اس وقت تک صورتحال کچھ اس طرح کی بن رہی ہے کہ تحریک انصاف نے اپنی عوامی سیاست میں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے اور تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان دونوں پارٹیوں کے بارے میں جس طرح کی گفتگو کرتے ہیں اور ان کو جن القابات سے نوازتے ہیں اس کے بعد تحریک انصاف کے لیے یہ بھی یہ ایک مشکل فیصلہ ہو گا کہ وہ سینیٹ میں کون سی حکمت عملی اپنائے جس سے اس کی عزت بھی رہ جائے یعنی سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی بچی رہے۔

ایک بات تو بڑی واضح ہے کہ تحریک انصاف اور نواز لیگ کا آپس میں اتحاد ناممکنات میں ہے دوسری طرف پیپلز پارٹی کے جناب آصف زرداری کے بارے میں جس طرح کے بیانات تحریک انصاف کے رہنماء داغتے رہتے ہیں ان کو مدنظر رکھا جائے تو تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کا اتحاد ایک غیر فطری بات ہو گی۔

تحریک انصاف خود اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ باقی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر اپنا امیداوار کامیاب کرا لیے۔ دوسرے صوبوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی تحریک انصاف کے ممبران نے سینیٹ انتخابات میں اپنی پارٹی سے بغاوت کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے دو سینیٹر منتخب کرا دیئے۔ اسی طرح دوسرے صوبوں میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی رہی اور تمام پارٹیوں کے سربراہان اس ایک بات پر متفق ہیں کہ حالیہ سینیٹ انتخابات میں بدترین ہارس ٹریڈنگ ہوئی اور تمام جماعتوں نے اس کی تحقیقات کا اعلان بھی کیا ہے لیکن تحقیقات کی یہ بیل کسی منڈھے چڑھنے کی امید کم ہی ہے۔

میاں نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے سینیٹ کے سابقہ چیئر مین رضا ربانی کی حمایت کی بات کر کے آصف زرداری کو گھیرنے کی ایک اور کوشش کی اور یہ تک کہا کہ وہ لندنی میثاق جمہوریت پر ابھی بھی کاربند ہیں لیکن آصف زرداری نے دو لفظی شکریہ کہہ کر ان کی پیشکش کو دھتکار دیا۔ نواز شریف کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ ان کی پارٹی سینیٹ میں سب سے بڑی پارٹی ہے اس لیے ان کے اکثریتی مینڈیٹ کا احترام کیا جائے یعنی ان کو یہ حق ہے کہ وہ اپنا چیئرمین لانے کے لیے کوشش کریں۔

مینڈیٹ کا احترام اپنی جگہ لیکن اب جب کہ نواز لیگ سیاسی میدان میں اَن دیکھی مشکلات کی شکار ہے تو سیاسی شکاری اپنے اپنے جال لگائے اس کو پھنسا نے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور وہ کسی مینڈیٹ کا احترام کرنے کے لیے بھی تیار نظر نہیں آتے چاہے وہ آصف زرداری ہوں یا عمران خان۔ عمران خان کی پارٹی نے تو واضح طور پر یہ کہہ دیا ہے کہ ان کی یہ کوشش ہو گی کہ نواز لیگ سینیٹ میں کامیاب نہ ہو لیکن اس کے لیے انھیں کڑوی گولی نگلنی پڑے گی اور پیپلز پارٹی کے ساتھ تعاون کرنا پڑے گا جس کا آغاز ہو چکا ہے۔

تحریک انصاف کی قیادت درپردہ پیپلز پارٹی سے رابطے میں ہے۔ اگر اس میں کوئی ہچ آڑے آ رہی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ چیئر مین تحریک انصاف اس بات پر بضد ہیں کہ سینیٹ کا چیئر مین بلوچستان سے ہو جس کیلیے انھوں وزیر اعلیٰ بلوچستان سے ملاقات کر کے اپنے سینیٹ کے ووٹ ان کی جھولی میں ڈال دیئے ہیں جب کہ تحریک انصاف کی دوسرے درجے کی قیادت اس بات پر متفق ہے کہ نواز شریف کو سیاست سے آؤٹ کرنے کیلیے اس موقع پر پیپلز پارٹی کا ساتھ دینا چاہیئے لیکن عمران خان اس مخمصے کا شکار ہیں کہ وہ چند ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات میں اپنے ووٹرز کو پیپلز پارٹی کی حمایت کی کیا توجیہہ دیں گے یہی وہ بات ہے جو  پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے اتحاد میں رکاوٹ ہے۔

اس رکاوٹ کو دور کرنے کیلیے دونوں جانب سے سیاسی حل نکالنے کی کوششیں جاری ہیں، آسان حل بلوچستان سے چیئرمین  سینیٹ کا انتخاب ہے جس پر عمران خان متفق ہیں اس فیصلے سے نواز لیگ بھی سینیٹ سے آؤٹ ہو جائے گی لیکن کیا یہ پیپلز پارٹی کے لیے سود مند ہو گا، اس لیے ابھی تک پیپلز پارٹی نے اپنے چیئر مین کے امیدوار کا اعلان نہیں کیا۔ دوسری طرف نواز شریف بھی اپنی عددی برتری کے لیے کوشش کر رہے ہیں اور ان کی پارٹی کا یہ دعویٰ سامنے آ رہا ہے کہ ان کے پاس اکثریت ہے لیکن نواز شریف نے ابھی اپنے پتے شو نہیں کیے۔

بڑے زور کا مقابلہ جاری ہے، بڑی آزمائش عمران خان کے حصے میں آئی ہے، ان کو سیاسی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایک کر کے اپنے سیاسی مخالفین کو پچھاڑنا پڑے گا، چاروں طرف محاذ کھو ل لینے سے فائدے کی بجائے نقصان ہی ہوتا ہے اور اس موقع پر وہ نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ان کا اصل مقابلہ نواز لیگ سے ہے انھیں اس پر سیاسی توجہ دینی ہوگی اور سیاسی شطرنج پر نہایت احتیاط سے اپنے گھوڑے اور پیادے سب کو آگے بڑھانا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔