پی ایس ایل کا فیصلہ کن میلہ پاکستان میں سجانے کی تیاریاں

میاں اصغر سلیمی  اتوار 11 مارچ 2018
شائقین کا جوش وخروش عروج پر، اسلام آباد یونائیٹڈ کی کارکردگی کی دھوم۔ فوٹو: فائل

شائقین کا جوش وخروش عروج پر، اسلام آباد یونائیٹڈ کی کارکردگی کی دھوم۔ فوٹو: فائل

پی ایس ایل فائنل مقابلے کے لئے تیاریاں بھی زورو شور پر ہیں۔

فرئیڈرک ولیم وکٹر ایلبرٹ دوئم 1888ء سے1918ء تک جرمنی کا قیصر یعنی بادشاہ تھا۔پہلی جنگ عظیم سے کچھ عرصہ پہلے کا واقعہ ہے ، قیصر ولیم ایک سرکاری دورے پر سوئٹزر لینڈ گیا، وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ سوئٹزر لینڈ اگرچہ چھوٹا سا ملک ہے مگر اس کی فوج بہت منظم ہے۔اس نے ملاقات کے دوران سوئٹزر لینڈ کے ایک فوجی سے مزاحیہ انداز میں کہا کہ جرمنی کی عظیم فوج جس کی تعداد تمہاری فوج سے دوگنی ہو، اگر وہ تمہارے ملک پر حملہ کر دے تو تم کیا کرو گے۔

فوجی نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا، ’’سر‘‘ ہمیں بس ایک کی بجائے دو فائر کرنا پڑیں گے۔‘‘ سوئس فوجی کا یہ چھوٹا سا جملہ ایک بہت بڑی حقیقت کا اعلان ہے کہ حالات آپ کے موافق نہ بھی ہوں تو سخت محنت اور بھر پور حکمت عملی سے اسے اپنے حق میں کیا جا سکتا ہے، زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، پاکستان میں انٹرنیشنل کھیلوں کی بحالی کو ہی دیکھ لیں۔

پاکستان میں دہشت گردی نے جہاں ہزاروں گھر برباد کئے وہاں کھیل کے میدانوں کو بھی ویران کر دیا۔کرکٹ ورلڈکپ، مختلف کھیلوںکے خلاف ہوم سیریز ، ہاکی چیمپئنز ٹرافی، سیف گیمز سمیت متعدد ایونٹس پاک سرزمین کے سٹیڈیمز کی رونقیں بڑھاتے، امن اور کھیلوں سے پیار کرنے والے پاکستانیوں کا جوش وخروش دیدنی ہوتا۔ شائقین ملکی کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ مہمان پلیئرز کی بھی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے اور دنیا بھر کے مبصرین سے مہذب کراؤڈ کا خطاب پاتے۔

نائن الیون کے بعد دہشت گردی کا ایسا دور آیاکہ یہ سب رونقیں گم ہو گئیں۔ ہم اپنے ہوم ایونٹس بھی غیر ملکوں کی میزبانی میں کروانے پر مجبورہوتے گئے۔ ہر سال امید باندھی، اس بار امن و امان کی صورتحال بہتر ہوگی اور ہم سپورٹس ہیروز کو اپنے درمیان متحرک پائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا۔ سری لنکن کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آ ہی گئی تو سکیورٹی میں غفلت نے مایوسیاں بکھیر دیں۔

آئی لینڈرز 3 مارچ2009 کو لاہور ٹیسٹ کے تیسرے دن کا میچ کھیلنے کے لیے مقامی فائیو سٹار ہوٹل سے قذافی سٹیڈیم آ رہے تھے کہ لبرٹی چوک پر پہلے سے موجود12دہشت گردوں نے اچانک بس پرحملہ کردیا، اس کی وجہ سے 6 پولیس آفیسرز سمیت 8 شہری جاں بحق ہوئے جبکہ سری لنکن ٹیم کے 6کرکٹرز مہیلا جے وردھنے(کپتان)، کمارا سنگا کارا (نائب کپتان) ، سمارا ویرا، تھانگا، اجنتھامینڈس اور سورنگا لکمل کے ساتھ 2 آفیشلز اور ایک امپائر بھی زخمی ہوا۔

دہشت گردوں نے بس کو اغوا کرنے کی منصوبہ بندی کررکھی تھی تاہم ڈرائیورمہر محمد خلیل نے جرأت اوربہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمال مہارت سے مہمان کھلاڑیوں کوبحفاظت سٹیڈیم تک پہنچا دیا، اس سانحہ کے بعد لاہورٹیسٹ کو ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا، بعد ازاں فوجی ہیلی کاپٹرکے ذریعے مہمان ٹیم کو قذافی سٹیڈیم سے ہی علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ لے جایا گیا جہاں سے کھلاڑی سری لنکا کے لیے روانہ ہوئے۔

پاکستانی گراؤنڈز کو آباد نہ دیکھنے والی خفیہ طاقتوں کو سانحہ لاہور کی شکل میں ایک بہتر موقع میسر آگیا اورانھوں نے اس معاملے کوبڑھاچڑھاکرپیش کیا، نتیجے کے طورپرغیرملکی ٹیموں نے پاکستان میں آ کرکھیلنے سے صاف انکارکردیا اورتو اور افغانستان، بنگلہ دیش کی ٹیمیں بھی پاک سر زمین پر کھیلنے سے انکاری ہوگئیں۔ نیوٹرل مقام پر ہوم سیریز کھیلنے کا ایک نیا دور شروع ہوا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کو متحدہ عرب امارات اور انگلینڈ میں ہوم سیریز کھیلنا پڑیں جہاں نت نئے تنازعات نے جنم لیا۔اس وقت کے چیئرمین کرکٹ بورڈ اعجاز بٹ نے واقعے کی ذمہ داری قبول کر کے مستعفی ہونے سے تو انکار کر دیا لیکن بعد میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لیے عالمی پلیٹ فارم پر خاصا کام کیا، ان کی کوششوں کی وجہ سے آئی سی سی الیون پاکستان میں آنے کیلیے تیار بھی ہو گئی لیکن قومی کرکٹ ٹیم کے دورہ انگلینڈ کے دوران سپاٹ فکسنگ کا سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد اس منصوبے کو حتمی شکل نہ دی جا سکی۔

بعدازاں آنے والے بورڈ حکام نے ملکی گراؤنڈز آباد کرنے کیلئے سنجیدہ بنیادوں پر کام ضرور کیا اور دنیا بھر کی متعدد ٹیموں کو دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی، ایک مرحلے پر بنگلہ دیشی ٹیم پاکستان آنے پر تیار بھی ہو گئی، دورے سے قبل سکیورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے مصطفی کمال دوسرے عہدیداروں اور سکیورٹی وفدکے ساتھ پاکستان آئے، پی سی بی نے انھیں نہ صرف مکمل سکیورٹی کی یقین دہانی کرائی بلکہ قذافی سٹیڈیم لاہور میں ڈریس ریہرسل کے طور پر فوجی ہیلی کاپٹرز بھی گراؤنڈز میں اتارے گئے، بنگلہ دیش بورڈ کے سربراہ ٹیم بھجوانے پر آمادہ تو ہو گئے لیکن انھوں نے دورے کو آئی سی سی کی اجازت سے مشروط بھی کر دیا۔

پی سی بی کے ارباب اختیار کی ان تمام کوششوں کے باوجود ملکی میدان انٹرنیشنل مقابلوں سے سجائے نہ جا سکے۔ چیئرمین شہریار خان کے دور میں نجم سیٹھی نے پی ایس ایل کے انعقاد کا مشکل بیڑہ اٹھایا، انہیں کی شب وروز محنت کی وجہ سے شائقین کرکٹ نہ پی ایس ایل کے دلچسپ میچز دبئی اور شارجہ میں دیکھ رہے ہیں بلکہ پرستار چند دن بعد لیگ کے پلے آف اور فائنل میچز لاہور اور کراچی میں بھی دیکھیں گے۔ سانحہ لبرٹی کے بعد قذافی سٹیڈیم میں تو زمبابوے، کینیا اور ورلڈ الیون کی ٹیمیں ایکشن میں دکھائی دے چکیں، پی ایس ایل کے دوسرے ایڈیشن کا فائنل بھی ہو چکا تاہم نیشنل سٹیڈیم کراچی کو لمبے عرصے کے بعد کرکٹ میلہ کی میزبانی کرنے کا موقع مل رہا ہے۔

گو نیشنل سٹیڈیم کراچی کو ورلڈ کپ1987 اور عالمی کپ 1996 کے6میچز کی میزبانی کرنے کا اعزاز حاصل ہے، اسی گراؤنڈ میں پاکستانی ٹیم سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ میں 765 رنز کا پہاڑ کھڑا کرنے اور آسٹریلیا کو 80 کے سب سے کم سکور پر پویلین کی راہ دکھانے سمیت متعدد ریکارڈز بنانے کا اعزاز بھی رکھتی ہے تاہم 2002میں نیشنل سٹیڈیم کے قریب بم دھماکہ ہوا جس کی وجہ سے نیوزی لینڈ کی ٹیم دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس چلی گئی۔

اس واقعہ کے بعد 21 جنوری 2009 میں سری لنکا کے خلاف آخری بار انٹرنیشنل میچ کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا تاہم ایک عشرہ تک اس گراؤنڈ میں دوبارہ کرکٹ سرگرمیاں بحال نہ ہو سکیں، اب ڈیرھ ارب کی خطیر رقم سے سٹیڈیم کی تزئین وآرائش کا کام جاری ہے۔پی ایس ایل فائنل مقابلے کے لئے تیاریاں بھی زورو شور پر ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی سربراہی میں بھی اعلی سطحی میٹنگ بھی ہو چکی ہے جس میں فائنل مقابلے کے موقع پر 300 گاڑیوں پر مشتمل شٹل سروس چلانے کی منظوری دے دی گئی ہے۔

علاوہ ازیں انتظامیہ کی طرف سے شہریوں کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کرنے، پودوں اور درختوں سے سرسبز و شاداب بنانے اور شہر کو خوبصورت لگنے کے لئے بہترین لائٹنگ کا بندوبست کرنے، فلڈ لائٹٹس لگانے اور پورے شہر میں فیسٹیول اور جشن کا سماں پیدا کرنے کے لئے ابھی سے اقدامات شروع کر دیئے گئے ہیں، شہریوں میں بھی لیگ کاٹائٹل مقابلہ دیکھنے کے لئے بہت زیادہ جوش وخروش پایا جاتا ہے اور انہوں نے ٹکٹوں کے حصول کیلئے ابھی سے دوڑ دھوپ شروع کر دی ہے۔

پاکستان سپر لیگ کے اب تک کے مقابلوں کا جائزہ لیا جائے تو روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ کی ٹیم اسلام آباد یونائیٹڈ پوائنٹس ٹیبل پر 10 پوائنٹس کے ساتھ سر فہرست ہے،ملتان سلطان 9پوائنٹس کے ساتھ دوسرے اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز8 پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ کراچی کنگز کے 7 پوائنٹس ہیں اور وہ پوائنٹس ٹیبل پر چوتھے نمبر پر ہے، پشاور زلمی 6 پوائنٹس کے ساتھ پانچویں اور لاہور قلندرز کی 2 پوائنٹس کے ساتھ چھٹی پوزیشن ہے۔ مسلسل 6 شکستوں کے بعد لاہور قلندرز کی ملتان سلطانز کے خلاف پہلی کامیابی کے نتیجے میں ٹورنامنٹ انتہائی دلچسپ صورتحال اختیار کر گیا ہے اور سب لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا اب بھی لاہور قلندرز کے اگلے مرحلے میں جانے کے امکانات موجود ہیں؟

شائقین کرکٹ بالخصوص لاہور قلندرز کے مداحوں کیلئے خوشخبری ہے کہ لاہور قلندرز کے اگلے مرحلے میں جانے کے امکانات موجود ہیں اور ٹیم اب بھی ٹورنامنٹ سے مکمل طور پر آؤٹ نہیں ہوئی۔ پی ایس ایل کے ایلیمنٹری مرحلے میں جانے کیلئے لاہور قلندرز کو اپنے اگلے تمام میچز بڑے مارجن سے جیتنے ہوں گے اور دوسری ٹیموں کے میچز میں اپنے حق میں نتیجے کیلئے دعائیں کرنا ہوں گی۔پوائنٹس ٹیبل پر لاہور قلندرز 2 پوائنٹس کے ساتھ آخری پوزیشن پر ہے۔ لیگ میں فتح اسلام آباد یونائیٹڈ کی ہو، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز یا کسی اور ٹیم کی بھی ہو، مجموعی طور پر یہ کامیابی پاکستان اور ملکی کرکٹ کی ہوگی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔