بزرگوں کا ادب و احترام کیوں ضروری ہے؟

عطاء الرحمٰن نوری  جمعرات 4 اپريل 2013
اسلام نے بوڑھوں کو در در کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ نہیں دیا بلکہ ان کی تعظیم کو اللہ کی تعظیم قرار دیا۔  فوٹو: فائل

اسلام نے بوڑھوں کو در در کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ نہیں دیا بلکہ ان کی تعظیم کو اللہ کی تعظیم قرار دیا۔ فوٹو: فائل

اسلامی تعلیمات مکمل طور پرادب ہی پر مبنی ہیں اور ادب ہی کی تعلیم و تلقین کرتی ہیں۔

اس کارخانہ قدرت میں جس جس کو جو جو نعمتیں ملیں ادب ہی کی بنا پر ملی ہیں اور جو ادب سے محروم ہے حقیقتاً ایسا شخص ہر نعمت سے محروم ہے۔ شاید اسی لیے کسی دانش ور نے کہا تھا کہ: ’’ با ادب با نصیب اور بے ادب بے نصیب‘‘ غرض یہ کہ ادب ہی ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو ممتاز بناتی ہے۔ جس طرح ریت کے ذروں میں موتی اپنی چمک اور اہمیت نہیں کھوتا اسی طرح مؤدب شخص انسانوں کے جم غفیر میں اپنی شناخت کو قائم و دائم رکھتا ہے۔ اسلامی تاریخ کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ادب ہی کی بنا پر حضرت جبرئیل علیہ السلام ’’سیدالملائکہ‘‘ بنے اور بے ادبی کی وجہ سے معلم الملائکہ ’’شیطان‘‘ بنا۔ اس طرح کی کئی روایتیں اسلامی تاریخ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

نبی اکرمؐ کے فرامین کی روشنی میں ادب، تعظیم، عزت اور شفقت کے فضائل پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تاکہ تمحیدی کلمات کی اہمیت مزید واضح ہو۔ حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلامؐ نے ارشاد فرمایا: ’’میری امت میںسے نہیں جو مسلمانوں کے بڑے کی تعظیم اور چھوٹے پر رحم نہ کرے اور عالم کا حق نہ پہچانے۔‘‘ (فتاوی رضویہ) حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کیا اور بڑوں کی تعظیم نہیں کی وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ حضرت ابو رافع بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا: ’’بوڑھے کی فضیلت اپنے گھر میں ایسی ہے جیسے اللہ کے نبی کی فضیلت امت میں۔‘‘

ان احادیث مبارکہ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام میں بزرگوں کے مقام و مرتبے کی کتنی اہمیت ہے۔ پیغمبر اسلام نے بزرگوں کی اہمیت کو یہاں تک بیان کیا کہ شیخ کی فضیلت اپنے کنبے میں ایسی ہے جیسے پیغمبر کی قوم میں۔‘‘ (جامع الاحادیث 93/3 )

اللہ کے پیارے محبوبؐ ایک اور مقام پر ضعیف کی افضلیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ’’بوڑھے مرد مسلم کی تعظیم اللہ کی عظمت وجلالت ہی کا اظہار ہے۔‘‘ (ابوداؤد و بیہقی) مزید فرمایا: ’’تین لوگوں کو ہلکا نہ جانے گا مگر منافق۔ ایک وہ جسے اسلام میں بڑھاپا آیا، عالم دین اور عادل بادشاہ اسلام۔‘‘ (طبرانی)

اسلام کتنا پاکیزہ دین ہے۔ بوڑھوں کو در در کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ نہیں دیا بلکہ ان کی تعظیم کو اللہ کی تعظیم قرار دیا۔ مگر افسوس صدافسوس! آج بوڑھے ماں باپ کے ساتھ بچے جو کچھ کر تے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں۔ آج کے بچے والدین کو بات بات پر ڈانٹنے، جھڑکنے اور بلند آواز سے بات کرنے میں ذرہ برابر بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ ماں باپ کسی چیز کے متعلق دو سے تین مرتبہ پوچھ لیں تو بھنویں تن جاتی ہیں مگر یہی بچہ بچپن میں والدین سے جب ہکلاتے ہوئے کسی چیز کو بار بار پوچھتا تو والدین خوشی خوشی بتاتے۔ ماں باپ کے آگے صرف دو وقت کی روٹی رکھ دینا ہی سب کچھ نہیں ہے بلکہ موت کی آخری ہچکی تک ان کا ادب بجا لانا انتہائی ضروری ہے۔ مگر آج مسجد و مدرسوں کی چوکھٹ پر، گلی محلوں میں بھیک مانگتے والدین ہر روز دیکھے جا سکتے ہیں۔ کوئی پیٹ بھرنے کے لیے ایک وقت کا کھانا دے دیتا ہے توکوئی جھڑک دیتا ہے۔

لوگو! اسلام میں ایک عام ضعیف کی عزت وعظمت اتنی بلند و بالاہے تو والدین کا مقام و مرتبہ کس قدر بلند ہوگا۔ ’’تعلیم الاخلاق‘‘ میں ہے: ’’ایک شخص نے اپنی ماں کو کندھے پر اُٹھا کر سات حج کرائے۔ ساتویں حج پر خیال آیا کہ شاید میں نے ماں کا حق ادا کر دیا۔ رات کو خواب میں دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا کہ: ’’جب تو بچہ تھا اور سردی سخت تھی۔ تو ماں کے پاس سو رہا تھا۔ تو نے پاخانہ کردیا۔ تیری ماں نے بستر اٹھا کر دھویا۔ غریبی کی وجہ سے دوسرا بستر نہ تھا۔ تیری ماں اسی گیلے بستر پر کڑکتی سردی میں لیٹ گئی اور تجھ کو رات بھر اپنے سینے پر لٹائے رکھا۔ تو کہتا ہے حق ادا ہو گیا۔ اے نادان! ابھی تواس ایک رات کا بھی حق ادا نہیں کر سکا۔‘‘ (برکات شریعت)

لوگوں غور کریں کہ ہم معمولی معمولی خدمت سے خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں جب کہ سات حج کرانے پر بھی ایک رات کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ مذکورہ بالا احادیث مبارکہ کی روشنی میں ہم پر یہ واضح ہوتا ہے کہ ہم ہر ضعیف و معمر شخص کی تعظیم وتکریم کریں۔ والدین کی تا وصال خدمات بخوبی انجام دی جائے اور حسب مراتب لوگوں کے ساتھ شفقت، محبت اور عزت سے پیش آئیں۔ حدیث مبارکہ میں وارد ہے، نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ لوگوں کی حسب مراتب عزت کرو۔‘‘ (صحیح مسلم،ابوداؤد)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔