ملک اور عوام

ایم قادر خان  پير 12 مارچ 2018

دنیا میں روز جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ سارے معصوم جن کو کچھ نہیں معلوم، رفتہ رفتہ وہ بڑے ہوتے ہیں پہلے والدین کی تربیت پھر اسکول میں اساتذہ کی تربیت بچہ حاصل کرتا ہے۔ کوئی والدین یا استاد غلط راہ نہیں بتائے گا۔ لیکن اگر معاشرے میں اس کو غلط دوست مل گئے جو بری راہ پر گامزن ہیں تو ایک نہ ایک دن وہ بھی وہی کچھ کرنے لگتا ہے جن کے ساتھ اس کی دوستی ہے۔ اس میں والدین یا اساتذہ کا کوئی قصور نہیں اور نہ ہی رب تبارک و تعالیٰ یہ چاہتا ہے۔

یہ راہ مستقیم کو چھوڑ دے لیکن بری صحبت اس پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اکثریت ثابت قدمی سے زندگی گزار دیتی ہے لیکن چند ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس غربت افلاس سے بغاوت کرکے اس ڈگر پر آجاتے ہیں جہاں ان کو آسائش، دھن دولت بہت کچھ ملتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ وہ جو حاصل کرتا ہے کوئی نیک راہ نہیں ہوتی ۔

بات یہ ہے یا مجبوری کہہ دیں جب سے ہوش سنبھالا ہے غریب آدمی کو غریب دیکھا۔ اگر کوئی بہت زیادہ مالدار بنا تو اس کی قسمت اب اس نے کیا کام کیے جس کی وجہ سے وہ مالدار ہوگیا۔ ہم نے تو بچپن سے یہی سنا قناعت کرنا لازمی ہے جو ملے وہی بہت ہے اس پر صبر شکر کرکے زندگی گزاریں۔ بڑوں نے کہا نیچے دیکھ کر چلو اوپر دیکھ کر چلو گے تو ٹھوکر کھا کر گر جاؤ گے۔ جو کہا بالکل صحیح کہا، چونکہ پہلے تو پیدل چلنا زیادہ ہوتا تھا اگر نیچے نہیں دیکھا کوئی پتھر پیر سے ٹکرا گیا تو دھڑام سے نیچے۔ اسی لیے وہ ہمیں کہتے تھے میاں ہمیشہ نیچے دیکھ کر چلو۔

ایک بات اور جو ہمیشہ سنی لالچ، طمع، حرص سے بچو، یاد رکھنا لالچ کبھی پوری نہیں ہوتی ایک شے حاصل کرلی اس کے بعد دوسری ، دوسری کے بعد تیسری ختم ہونے کا نام نہیں لیتی اور یہی بگاڑ ہے۔ کیا خوب باتیں ہمارے بڑوں نے کہیں جس نے عمل کیا وہ کبھی نہیں بگڑا لیکن جس نے شاید یہ سوچا ہو ارے رہنے دو ان کی باتوں کو انھوں نے اپنے وقت کے مطابق یہ باتیں کیں اب وقت دوسرا ہے حالات بدل چکے ہیں تبدیلی آگئی ہے ہر جانب ترقی ہو رہی ہے ہم کیوں پیچھے رہیں اور بس قناعت کرتے رہیں، ایسے لوگ ہوس، لالچ، طمع کا شکار ہوجاتے ہیں۔

اس ضمن میں کیا عرض کروں ویسے بھی اب پرانی باتوں کو دقیانوسی باتیں کہتے ہیں لیکن اتنا ضرور ہے ان باتوں میں ابھی بھی اثر اور وزن ہے۔ جیسے بڑوں نے کہا ہمیشہ اپنے سے کم تر کو دیکھو یعنی اس شخص کو دیکھو جو تم سے کم تر زندگی گزار رہا ہے پھر تم کو احساس ہوگا میں صحیح ہوں دنیا میں تو ایسے لوگ بھی ہیں جو مجھ سے کم ہیں۔ بات بالکل سچ اور حقائق پر ہے۔ یہاں اطمینان حاصل ہوتا ہے اور کسی غلط راہ سے بچ جاتا ہے۔ جو جائز طریقے ہیں ان کو استعمال کریں۔ محنت کریں ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دیں یقینا ضمیر مطمئن رہے گا نہ ملال ہوگا بلکہ روحانی مسرت حاصل ہوگی۔

غربت کوئی بری نہیں لیکن افسوسناک بات ہے ہم سے چھوٹے یا ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک ہم سے آگے ہیں وہاں وہ غربت نہیں جو ہمارے ہاں ہے۔ جب کبھی اس پر غور کرتے ہیں تو بڑا قلق ہوتا ہے ہم 70 سالوں میں پیچھے ہوتے جا رہے ہیں آگے بڑھنے کے بجائے غربت بڑھ رہی ہے۔ تقریباً 90 فیصد غربت 80 فیصد غریب ایسے ہیں جو خط غربت سے نیچے پہنچ چکے ہیں۔ 18 فیصد درمیانہ آسودہ طبقہ ہے بقیہ 2 فیصد ایسے لوگ ہیں جو امیر ترین ان کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ ان کی آنے والی کم ازکم دس نسلیں بیٹھ کر کھائیں تب بھی زر ختم نہ ہوگا۔

کسی نے یہ نہ سوچا کہ ہم غربت ختم کریں یہ کام کوئی اتنا بڑا نہیں کہ ہمارے ملک کے بڑے اس کو کر نہ سکیں شاید وہ چاہتے نہ ہوں۔ کسی کے دل کی بات کیا کہی جائے ہاں یہ ضرور ہے آج اگر وہ چاہیں تو بنیادی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں کہ ہمارے ملک میں کچھ نہ ہو سب کچھ ہے بس کرنے والے کی ضرورت ہے۔ کرنے والے نہ کریں تو کیا کیا جاسکتا ہے۔ کف افسوس ملنے سے کچھ نہیں ہوتا ہم کو چاہیے عوام کے دشمنوں سے جان چھڑائیں اللہ تعالیٰ ایسا انسان پہنچادے جو اس ملک کی عوام کو بنیادی ضروریات فراہم کرسکے۔

قائد اعظم محمد علی جناح یا خان لیاقت علی خان پیدا ہوسکتے ہیں اور نہ ہی ان جیسا کوئی انسان پیدا ہو، مشکل بات ہے ان 70 سالوں میں کوئی ایسا شخص نہ آیا جو ان دو قائدین کی چند صفات پر اس ملک میں کام کرتا عوام کے لیے سوچتا عوام کے لیے وہ کچھ کرتا جو دیگر ملکوں نے کیا اور کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔

جس قدر ملک اچھا ہے اسی قدر عوام اچھی ہے یا پھر یہ سمجھیں عوام سادہ اور نیک ہے جو چالبازوں کی چالاکی سمجھ نہ سکے اس کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں۔ آنے والا شخص اپنے اغراض و مقاصد پورے کرلیتا ہے لیکن یہ سادہ لوح عوام اسی جگہ رہتے ہیں بلکہ پہلے سے بھی نیچے آجاتے ہیں۔ باغبان بن کر آتے ہیں چمن کے سارے پھول توڑ کر چمن  برباد کردیتے ہیں۔ لیکن یہ سادہ لوح عوام پھر ان لوگوں کے ہاتھوں بے وقوف بنتی ہے۔

میں تو یہ دیکھتا رہا ہوں اور اب شاید ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ ہاں تبدیلی اس وقت آسکتی ہے جب عوام ایک پلیٹ بریانی، سری پائے یا چند سکوں کو ٹھکرا دیں۔ غریب عوام کی سوچ یہ ہے کہ اگر آج جو مل رہا ہے وہی بہت ہے آنا انھوں نے ہے اس لیے آتے ہوئے کو نہ چھوڑو۔ ساری بات یہی ہے جو ان چالاک، عیار، مکار لوگوں نے سمجھ لی ہے کس علاقے کے لوگوں کو کس طرح قابو کیا جائے گا وہی طریقہ استعمال کرتے ہیں اور کامیاب ہوجاتے ہیں۔

میں کئی ممالک گیا سب کچھ دیکھا ان کی معیشت دیکھی سیاسی حالات دیکھے میں نے چند لوگوں سے ان کے ملک کے بارے میں پوچھا بڑی پیاری باتیں کیں جو ان تمام ممالک میں ایک ملی جس سے انھوں نے کامیابی و ترقی حاصل کی عوام خوشحال ہوئی۔

مجھ کو بتایا ہم نے نیچے سے کام شروع کیا یہ دیکھا ہماری عوام کی بنیادی ضروریات کیا ہیں پہلا کام تو یہ کیا تعلیم بالکل عام لازمی کی مفت تعلیم کوئی معاوضہ نہیں، دوسرا کام ان کا طرز رہائش درست کیا ان کو اچھی حالت میں رہائش دی، کھانے پینے کی اشیا سستی کیں، بلکہ استعمال کی تمام اشیا عام کردیں اس قدر سستی کیں جو ہر شخص خرید سکے۔

بچے تعلیم حاصل کرتے رہے، بڑے ہوئے آگے تعلیم حاصل کی اس طرح تیس سال میں ہم اس قابل ہوگئے کہ ہمارے ملک میں اکثریت سے زیادہ تعلیم یافتہ ہوچکے تھے اور ان کی تمام بنیادی ضروریات پوری ہوچکی تھیں۔ ان کو حب الوطنی کا جو درس دیا وہ درس انھوں نے دوسروں کو دیا دوسروں نے تیسروں کو دیا سلسلہ اس طرح چل پڑا اور ہماری عوام خوشحال ہوتی چلی گئی۔

معیشت مستحکم ہوئی غربت کو ہم نے اس طرح ختم کیا جس کا وجود مٹا دیا۔ آپ یہاں کسی بھی شخص سے پوچھیں وہ نہیں جانتا غربت کیا ہے کہے گا ہم بہت خوشحال ہیں ہمارا ملک غریب ہے نہ عوام غریب ہے۔ البتہ دوسرے ملک غریب ہیں جن کی ہم مدد کرتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں وہ ابھی تک غریب ہیں۔ شاید ان کے ملک چلانے والے عوام کو خوشحال کرنا نہ چاہتے ہوں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو سارے ترقی یافتہ خوشحال ممالک کے لوگوں نے کہیں۔

مجھے یہ سن کر بڑا احساس ہوا کس طرح انھوں نے خوشحالی حاصل کی کیا ہم اس طرح خوشحالی نہیں حاصل کرسکتے۔ کوئی بڑی بات نہیں صرف کام کرنے کی ضرورت ہے کاش اللہ تعالیٰ کسی کو بھیج دے جو عوام کے لیے ایسے کام کرے تمام بنیادی ضروریات پوری ہوجائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔