محنت کش خواتین کی مشکلات

ایم اسلم کھوکھر  پير 12 مارچ 2018

باوجود اس کے کہ خواتین کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ صنف نازک ہوتی ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ انسانی جدوجہد کی تاریخ میں خواتین نے اپنی بساط سے بڑھ کر ہی حصہ لیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ و امریکا میں 19 ویں صدی میں شروع ہونے والی محنت کشوں کی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد ہو، جوکہ کم سے کم ایک سو پچاس برس پر محیط ہے یا پھر بھارت و دنیا بھر کی سامراج مخالف آزادی کی تحریکیں ہوں، یا روس میں زار شاہی جبر کے خلاف 1917 کے انقلاب کی تحریک ہو، خواتین نے جدوجہد کرنے والے مردوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کی ہے۔

یہ ضرور ہے کہ ماسوائے روسی انقلاب میں خواتین کی جدوجہد کو تسلیم کرنے کے مردوں کی تحریر کردہ تاریخ میں خواتین کی جدوجہد کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ مگر ہمیں حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ خواتین ہوں یا مرد، دونوں باصلاحیت ہونے میں مساوی مقام رکھتے ہیں۔ البتہ ماضی ہو یا حال، ہر دور میں یہ سچائی تسلیم کی گئی ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پس پردہ کسی خاتون کا ہاتھ ہوتا ہے۔

ہم فقط دو مثالیں پیش کریںگے یہ حقیقت ہے کہ کامیاب مرد کے پس پردہ کسی خاتون کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اول ہم ذکر کریںگے 1818 میں پیدا ہونے والے عظیم فلسفی کارل مارکس کا۔ اگر کارل مارکس کا ساتھ اس کی بیوی جینی نہ دیتی تو کیا یہ ممکن تھا کہ کارل مارکس ایک انسان دوست فلسفہ ایجاد کر پاتا، جس فلسفے کی بنیاد اس حقیقت پر مبنی ہے کہ خوراک، پوشاک و رہائش ہر انسان کی اولین ضروریات میں سے ہیں۔ کارل مارکس کے لیے ممکن ہی نہ تھا کہ اپنی بیوی جینی کی معاونت کے بغیر وہ اس قدر عظیم فلسفی کہلاسکتا۔ جب کہ دوسری مثال ہم دیںگے اپنے ملک پاکستان کی ایک عظیم خاتون محترمہ بلقیس ایدھی صاحبہ کی، جن کی معاونت سے محترم عبدالستار ایدھی مرحوم دنیا کا خدمت انسانی کا سب سے بڑا فلاحی ادارہ ایدھی فاؤنڈیشن قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ بلقیس ایدھی نے مشکل کی ہر گھڑی میں عبدالستار ایدھی کا ساتھ دیا۔

اسی باعث عبدالستار ایدھی تادم آخر خدمت انسانی میں مصروف عمل رہے، وہ بھی بے لوث جذبے کے تحت۔ بات ایدھی صاحب کی وفات پر ختم نہیں ہوئی بلکہ کئی برس سے بلقیس ایدھی اپنے صاحبزادے فیصل کی ایدھی فاؤنڈیشن کے امور چلانے میں رہنمائی فرما رہی ہیں۔ بلقیس ایدھی ایک خاتون ہیں، اب بھی اگر کسی کو خواتین کی صلاحیتوں پر شک ہے تو وہ اپنی غلط فہمی دور کرے۔

البتہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بات کریں تو کیفیت یہ سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں خواتین سخت ترین مشقت کے کام کرنے کے باوجود جبر کا شکار ہیں۔ حالانکہ خواتین عمارات کی تعمیر کے ساتھ ساتھ بھٹہ مزدوری یعنی خشت سازی و کھیتی باڑی جیسے کام کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

اگر خشت سازی کے پیشے سے منسلک خواتین کو ملنے والی اجرت کا ذکر کیا جائے تو یہ اجرت انتہائی قلیل ہوتی ہے۔ ان محنت کش خواتین کو اتنی قلیل اجرت اس لیے حاصل ہوتی ہے کہ مرد محنت کش کی طرح یہ بھٹہ مزدور خواتین بھی بھٹہ مالکان کے مقروض ہوتی ہیں۔

آغاز میں قرضہ قلیل ہوتا ہے مگر قلیل اجرت حاصل ہونے کے باعث یہ محنت کش خواتین جیسے جیسے مسائل کا شکار ہوتی ہیں اپنے خاندان کے ساتھ مزید قرضے کا بوجھ ان خواتین کو برداشت کرنا پڑتا ہے، جب کہ ایک کثیر تعداد جوکہ فقط صوبہ سندھ میں پچاس لاکھ بیان کی جاتی ہے خواتین کی ہے، جوکہ گھر مزدور کہلاتی ہیں، یہ وہ خواتین ہیں جو اگرچہ کام تو فیکٹری کا کرتی ہیں، یعنی فیکٹریوں سے مال لاکر اپنے گھروں میں کام کرتی ہیں مگر ان کا استحصال اس طرح کیا جاتا ہے کہ ان خواتین کو حاصل ہونے والی اجرت سے یہ خواتین بمشکل اپنی پان چھالیہ کا خرچہ ہی پورا کر پاتی ہیں۔ ان گھر مزدور خواتین و فیکٹری مزدوروں کے مساوی تسلیم کرنے قانون کا مسودہ نومبر 2016 میں تیار کرلیا گیا تھا، البتہ یہ قانونی مسودہ تاحال سندھ اسمبلی سے منظوری کا منتظر ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قانونی مسودے کو سندھ اسمبلی سے پاس کیا جائے تاکہ گھر مزدور خواتین کو وہ حقوق حاصل ہوسکیں جوکہ صنعتی مزدوروں کو حاصل ہیں۔ ضرورت تو اس امر کی بھی ہے کہ سندھ انڈسٹری ریلیشن ایکٹ (SIRA 2013) پر مکمل عمل درآمد کیا جائے تاکہ سندھ بھر کی ہاری خواتین جوکہ کل ہاریوں کا 40 فیصد حصہ ہیں انھیں مکمل حقوق حاصل ہوسکیں۔

اگر 8 مارچ کے حوالے سے ذکر کیا جائے، جو خواتین کے حقوق کے حوالے سے دنیا بھر میں 1911 سے منایا جاتا ہے، تو پاکستان میں یہ دن پہلی مرتبہ 1948 ممتاز ترقی پسند خاتون رہنما کامریڈ طاہرہ علی خان کی قیادت میں منایا گیا، اس وقت سے آج تک دنیا بھر کی طرح پاکستان میں 8 مارچ کو خواتین کے حقوق کا یوم کے طور پر منایا جاتا ہے مگر اکثریت میں خواتین ہنوز نہ صرف حقوق سے محروم ہیں بلکہ تمام قسم کے جبر و استحصال کا شکار بھی ہیں۔

اس جبر و استحصال، جو خواتین سے روا رکھا گیا ہے کے اشکال یہ ہیں، خواتین جوکہ محنت کش ہیں مرد محنت کشوں کے مساوی اجرت حاصل نہیں کرپاتیں، گویا قلیل اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ دوئم محنت کش خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے اور ذہنی و جسمانی تشدد کا سلسلہ فیکٹریوں سے لے کر کھیتوں و کھلیانوں تک میں جاری ہے۔

حرف آخر یہ کہ سندھ حکومت گھر مزدوروں کے قانون کو سندھ اسمبلی سے منظور کروائے اور پاکستان عالمی ادارہ محنت (ILO) کے ہوم ورک کنونشن 177 کی توثیق کرے ملک سے جاگیرداری و قبائلی نظام کا خاتمہ کیا جائے، تمام خواتین دشمن رسومات امتیازی قوانین کا خاتمہ کیا جائے، یکساں کام و یکساں اجرت کے اصول کو رائج کیا جائے۔ دوران زچگی و زچگی کے بعد کی چھٹیوں میں اضافہ کیا جائے، خواتین کو آبادی کے تناسب سے تمام منتخب اداروں میں نمایندگی دی جائے۔

اس مضمون کی تیاری کے دوران یہ الم ناک خبر سماعتوں سے ٹکرائی کہ کامریڈ جام ساقی کا انتقال ہوگیا ہے میں کامریڈ جام ساقی کے تمام لواحقین کے ساتھ ساتھ ان کے چاہنے والوں سے دلی تعزیت کا اظہار کرتاہوں، بلاشبہ کامریڈ جام ساقی کی وفات ایک عظیم المیہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔