جام ساقی

سعید پرویز  پير 12 مارچ 2018

سچ کی راہوں پر چلنے والوں کے لیے عقوبت خانے ہوتے ہیں، جیلیں ہوتی ہیں یا زیر زمین انھیں پناہ ملتی ہے۔ حکومتوں کے خلاف سچ کا علم بلند کرنے والوں پر عقوبت خانوں میں بدترین تشدد کیا جاتا ہے اور کبھی کبھی سچ مر کر امر ہوجاتا ہے۔ کہانیاں دور دور تک پھیل جاتی ہیں۔ جیلوں میں بھی حکمرانوں کی عنایت، نوازشات جاری رہتی ہیں۔

جیلوں کے ڈاکٹر حکومتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے غلط دوائیں، غلط انجکشن دے دے کر سچ کو مفلوج کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ حکومتوں کا فرمان ہوتا ہے ’’یہ ناقابل اصلاح ہے، اسے آہستہ آہستہ مرنے کے لیے موت کے راستے پر ڈال دو‘‘۔ یہ شاہی فرمان صرف ان سچ بولنے والوں کے لیے ہوتا ہے جو اپنی موت کا پروانہ اپنے ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں۔

جام ساقی بھی گنتی کے انھی چند لوگوں میں شامل تھا، جو سر کٹا لیتے ہیں، جھکاتے نہیں۔ حکمرانوں نے اسے بھی ’’غدار‘‘ کا خطاب دیا۔ خان عبدالغفار خان، جی ایم سید، عبدالصمد اچکزئی، دادا امیر حیدر، میر غوث بخش بزنجو، گل خان نصیر، خیر بخش مری، اکبر خان بگٹی، اجمل خٹک، پروفیسر مظفر احمد (سابق مشرقی پاکستان) استاد دامن، نذیر عباسی، حسن ناصر، عطااﷲ مینگل، ارباب سکندر خلیل، حیدر بخش جتوئی، عاصمہ جہانگیر، معراج محمد خان، نثار عثمانی اور حبیب جالب۔ اس فہرست اگر کوئی نام رہ گیا ہو تو اسے شامل سمجھا جائے، مگر معیار کا دھیان رکھا جائے۔

جام ساقی تھر کے گاؤں چھاچھرو میں پیدا ہوا، یہ ایک غریب گھرانہ تھا۔ تھر کی بھوک پیاس جام کو ورثے میں ملی تھی۔ یہ آگ اس کا وجود تھا۔ اسی آگ نے اسے بھڑکائے رکھا۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیا الحق۔ یہ حکمران جام کے حصے میں آئے۔ اس نے اپنا حصہ چوم کر اٹھایا اور وقت نے دیکھا کہ وہ اپنے حصے کا صحیح حق دار ثابت ہوا۔ تھر کے گاؤں چھاچھرو کا جام ان ادوار میں عوامی جدوجہد پر چھایا رہا اور سچ کے رستے پر چلتے ہوئے ہمت و استقلال، جرأت و بہادری کے نئے چراغ روشن کر گیا۔

سید مراد علی شاہ وزیراعلیٰ سندھ بنے تو جام ساقی نے صوبائی مشیر کا حلف اٹھالیا۔ میں کسی وزیر، سفیر، امیر کبیر کے پاس نہیں جاتا مگر میں صوبائی مشیر حکومت سندھ کے دفتر گیا۔ سندھ اسمبلی کے سامنے بنی ہوئی سرکاری دفاتر کی بیرکوں میں ہی جام صاحب کا دفتر تھا۔

صوبائی مشیر کے کمرے سے لے کر وزیر موصوف تک کچھ بھی وزیروں، مشیروں جیسا نہیں تھا۔ وہی موٹے شیشوں والی وزنی عینک، وہی عام سا قمیض شلوار، نہ کوئی دربان، میں سیکریٹری مشیر کے کمرے کی طرف بڑھا، اس کا دروازہ بھی کھلا ہی تھا، اس نے مجھے دور سے اشارہ دے دیا کہ اندر چلے جائیں۔ میں جام ساقی سے ملا، میں نے ان سے بس یہ پوچھا شوگر، بلڈ پریشر، صحت کیسی ہے۔ اﷲ کا احسان ہے، شکر ہے کہ میرا ریکارڈ آج بھی قائم ہے۔ اس دن بھی میرے سامنے صوبائی مشیر نہیں ’’سَچا اور سُچا‘‘ جام ساقی بیٹھا تھا۔

اب ایک واقعہ۔ بی بی بے نظیر بھٹو، وزیراعظم پاکستان بنیں، جام ساقی لاہور گئے ہوئے تھے۔ لاہور کے جمہوریت پسند لڑکے لڑکیوں اور دیگر احباب نیایک ہوٹل میں جام کے اعزاز میں ایک عصرانے کا اہتمام کیا۔ صدارت ملک معراج خالد کررہے تھے۔ جالب بھی موجود تھے۔ ان سے کہا گیا کہ ’’وہ بھی کچھ کہیں‘‘ جالب صاحب نے ویٹر سے کہا ’’دو تین کاغذ لاؤ‘‘ ویٹر رسید بک کے استعمال شدہ کاغذ لے آیا۔ جالب صاحب نے فی البدیہہ نظم کہی۔ ملاحظہ کیجیے

کڑے

نا جا امریکا نال کڑے
اے گل نہ دیویں ٹال کڑے

اینے قتل آزادیاں دا کیتا
اینے ایس دھرتی دا لہو پیتا

اینے کٹوایا بنگال کڑے
نا جا امریکا نال کڑے

سانوں روس نے نال لڑوندا اے
ایویں لوکاں نوں مرویندا اے

مینوں تیرا بڑا خیال کڑے
نا جا امریکا نال کڑے

٭٭٭

گل ٹھیک ای کیندا ساقی وی
کنے چلا نہ جاوے باقی وی

کر راکھی، ملک سنبھال کڑے
نا جا امریکا نال کڑے

یہ نظم سن کر پیپلزپارٹی کے جیالوں نے حبیب جالب کے خلاف نعرہ بازی شروع کردی، مقابلے میں امریکا مخالف نوجوانوں نے بھی نعرے لگانا شروع کردیے۔ ’’امریکا کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے، جو بکنے کو تیار ہے، غدار ہے غدار ہے‘‘۔ جیالے واک آؤٹ کر گئے، ملک معراج خالد انھیں روکتے رہ گئے۔

جیالوں نے بے نظیر کے کان بھرے ’’بی بی! آپ کو جالب نے کڑے کہا ہے، یہ آپ کی توہین ہے‘‘۔ بے نظیر کو شاید جیالوں کی بات پر یقین نہیں آرہا تھا۔ بی بی نے اعتزاز احسن کو بلایا اور کڑے کا مطلب پوچھا، تو اعتزاز احسن نے بتایاکہ پنجابی زبان میں بیٹی کو لاڈ پیار میں کڑے کہا جاتا ہے۔ اس وضاحت کے بعد بی بی نے جالب صاحب کے خلاف ’’جیالوں‘‘ کے رویے پر معذرت کی۔

مجھے بھی اعزاز حاصل ہے کہ جام ساقی میرے گھر آئے اور چند گھنٹے میرے بستر پر آرام کیا۔ زاہدہ حنا کا اعزاز میں پڑھ چکا، ایک طویل مارچ میں جو ریتی سے شروع ہوکر کراچی میں اختتام پذیر ہوا، جام صاحب کے ساتھ اس لانگ مارچ میں، میں بھی شریک تھا۔ کراچی میں جام صاحب کا استقبال زبردست کیا گیا۔ مجھے یاد ہے زاہدہ حنا بھی موجود تھیں۔ ایک ٹھیلے پرتمام مقدس مذہبی کتابوں کے ساتھ دیوانِ غالب بھی موجود تھا، جسے جام صاحب دھکیل رہے تھے۔ جالب کا شعر نذر جام:

سچ کی راہوں میں جو مرگئے ہیں

فاصلے مختصر کر گئے ہیں

سو ’’اور کچھ دیر کہ ٹوٹا درِ زنداں یارو‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔