پانی تنازعہ، سندھ کی بدحالی کا باعث (دوسرا اور آخری حصہ)

عبدالرحمان منگریو  پير 12 مارچ 2018

چونکہ اس معاہدے کو سندھ نے سیاسی طور پر تو پہلے ہی مسترد کردیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سندھ کے پانی کے ماہرین نے اس معاہدے کے ذریعے سندھ کو پہنچنے والے تاریخی نقصان کی نشاندہی کی جن میں بتایا گیا کہ :( 1)دریائے سندھ پر کسی بھی منصوبے کی صورت میں اعتراض کا واحد حق جو صرف سندھ کو حاصل تھا اب کسی بھی منصوبے کی تعمیر یا پانی کی تقسیم کو چاروں صوبوں کی رضامندی سے مشروط کردیا گیا۔ (2) سندھ کا مالکانہ حق ختم کرکے پنجاب سے بھی کم حصہ سندھ کا مقرر کیا گیا ہے ۔ (3) دریائے سندھ کے پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کی رائلٹی پر صرف کے پی کے کا حق تسلیم کیا گیا ہے جب کہ دریائے سندھ پر سندھ کے مالکانہ حقوق کی بناء پر اسے بھی رائلٹی میں شامل رکھنا چاہیے تھا۔

لیکن ساتھ ہی آبی ماہرین نے اس معاہدے کے کچھ فوائد بھی بتائے جیسے : (۱) اس معاہدے کی کلاز 7میں انڈس ڈیلٹا کے تحفظ کے لیے دریا ئے سندھ سے سمندر کی جانب کوٹڑی بیراج سے نیچے پانی چھوڑنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ، اس سلسلے میں اسٹیڈیز کرانے کا بھی فیصلہ ہوا ۔ اور جب تک اسٹیڈیز کرائی جائے تب تک کوٹڑی ڈاؤن اسٹریم میں 10ایم ایف پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے جانے کا بھی فیصلہ ہوا اور ساتھ یہ بھی طے پایا کہ جب تک یہ اسٹیڈیز نہیں ہوتیں اور ان کی روشنی میں یہ فیصلہ نہیں ہوتا کہ کوٹڑی بیراج کے نیچے کتنی مقدار میں پانی چھوڑا جائے تب تک دریائے سندھ پر کوئی مزید اسٹرکچر تعمیر نہیں کیا جاسکتا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بات آبی معاہدے کے کلاز 7کی خلاف ورزی ہوگی ۔ (2) اس معاہدے میںکم از کم سندھ کے ایک دیرینہ مطالبے کو قومی سطح پر تسلیم کیا گیا کہ اس معاہدے کے تحت پہلی بار منگلا ڈیم کے پانی پر صوبہ سندھ کا استحقاق بھی تسلیم کیا گیا۔

ان باتوں کی بناء پر سندھ نے نہ چاہتے ہوئے بھی 1990کے آبی معاہدے کو تسلیم کرلیا ۔ لیکن پھر اس معاہدے کے باوجودآج تک منگلا ڈیم سے سندھ کو اس کے حصے کا پانی نہیں دیا گیا بلکہ گریٹر تھل کینال کے نام پر سندھ کے حصے کا پانی پنجاب کی زمین سیراب کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔

گریٹر تھل کینال آئین ، ملکی قوانین ، رولز آف بزنس اور پانی کے معاہدے 1991ء کے صریح خلاف ہے ۔

1991ء کے آبی معاہدے کی کلاز 14(اے) میں کہا گیا ہے کہ ہر سسٹم کے لیے ہر 10روز کے لیے پانی مخصوص کیا جائے گااور اسی طرح کلاز 14(بی ) میں کہا گیا ہے کہ 1977ء سے 1982ء تک جو سسٹم موجود تھے ، ان کے لیے مخصوص کیے گئے پانی کے اعداد شمار کی روشنی میں مجوزہ ’’ ٹین ڈیلیز(10 dailies) ‘‘ تیار کی جائیں گی ۔جب 1977ء سے 1982ء کے عرصے کے دوران گریٹر تھل کینال کا کوئی وجود ہی نہیں تھا تو 1991ء کے دوران تیار کی جانے والی ’’ ٹین ڈیلیز ‘‘ میں کس طرح گریٹر تھل کینال کو شامل کرکے اس کے لیے پانی مخصوص کیا جاسکتا ہے ؟

آبی معاہدے 1991ء کی کلاز 3میں کہا گیا ہے کہ ’’ این ڈبلیو ایف پی (کے پی کے) اور بلوچستان کے وہ پروجیکٹ جو زیر تکمیل ہیں ، ان کو “Existing uses” قرار دیتے ہوئے ان کے لیے پانی کا کوٹہ مخصوص کیا جاتا ہے ‘‘۔ جب کہ آبی معاہدے 1991ء کی کلاز 12میں کہا گیا ہے کہ ’’ ایل بی او ڈی کی ضروریات حصے داری کے منظور شدہ فارمولا کے تحت سیلابی پانی سے پوری کی جائیں گی ‘‘ ۔ اورآبی معاہدے 1991ء کی کلاز 7 میں انڈس ڈیلٹا کے تحفظ کے لیے دریائے سندھ سے سمندر کی جانب کوٹڑی بیراج سے نیچے پانی چھوڑنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ، اس سلسلے میں اسٹڈیز کرانے کا بھی فیصلہ ہوا ۔ اور جب تک یہ اسٹڈیز نہیں ہوتیں اور ان کی روشنی میں یہ فیصلہ نہیں ہوتا کہ کوٹڑی بیراج کے نیچے کتنی مقدار میں پانی چھوڑا جائے تب تک دریائے سندھ پر کوئی مزید اسٹرکچر تعمیر نہیں کیا جاسکتا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بات آبی معاہدے کے کلاز 7کی خلاف ورزی ہوگی ۔

چشمہ -جہلم لنک کینال ایک لنک اور فلڈ کینال ہے جو صرف اضافی پانی (یعنی جب دریاؤں میں چڑھاؤ ہو اور صوبوں کی ضرورت پوری ہورہی ہوں )کی صورت میں جہلم اور چناب دریاؤں کے زیریں علاقوں کو پانی فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے، حالانکہ اُن کی تعمیر پر ہی سندھ نے اعتراض کیا تھا لیکن دیگر اعتراضات کی طرح یہاں بھی سندھ کے خلاف فیصلہ کرکے زبردستی یہ کینال تعمیر کیے گئے ۔ پھرماضی میں سندھ اور پنجاب میں ایسے دو معاہدے ہوچکے ہیں جن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ چشمہ جہلم لنک کو حکومت ِ سندھ سے پیشگی اجازت کے بغیر نہیں چلایا جائے گا اور جیسے ہی حکومت ِ سندھ مطالبہ کرے گی اس لنک کو فوری طور پر بند کردیا جائے گا۔ لیکن پنجاب ان معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کئی برس سے جشمہ جہلم لنک کو سارا سال آپریٹ کرتا رہا ہے ۔ پھر مسلسل انھیں اضافی پانی کی عدم دستیابی میں بھی چلا کر پنجاب سندھ کے حصے سے پانی کٹوتی کرتا رہتا ہے۔

حال میں ہی ایک مرتبہ پھر چشمہ جہلم لنک کینال کو تب کھول دیا گیا ہے جب پیشگی اطلاع کے بغیر اچانک منگلا ڈیم کے خالی ہونے پر ارسا اجلاس بلایا گیا ۔جب کہ سندھ میں اس وقت پہلے ہی سے شدید کمی ہے اوپر سے سندھ کے حصے میں مزیدکمی کردی گئی ہے اور اسے بیراجوں پر کینالوں کی بندش کے لیے بھی شیڈول تیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ ارسا کے اجلاس میں سندھ کی حق تلفی کرتے ہوئے یہ فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر کیا گیا ہے یعنی قانونی و معاہداتی طور پر اجازت کا حق تو صرف سندھ کو حاصل ہے لیکن فیصلہ چاروں صوبوں اور وفاق کے نمایندوں کی رائے دہی کی بنیاد پر کیا گیا ہے جو کہ سراسر بدنیتی اور سندھ کے ساتھ ظلم ہے۔

اس پر1991ء کے آبی معاہدے پر عمل کرنے اور چشمہ جہلم لنک کو بند کرانے کے لیے قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس بلانے کے لیے سندھ کے نمایندوں نے آواز اٹھائی اور جب اسٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا تو اجلاس میں ارسا چیئرمین نے 1991ء کے آبی معاہدے پر عمل سے نہ صرف انکار کیا بلکہ چشمہ جہلم لنک کینال بند کرانے پر بھی اپنی بے بسی کا اظہار کیا ۔ اس نے کوٹڑی ڈاؤن اسٹریم میں پانی نہیں چھوڑے جانے کا اعتراف بھی کیا اور ساتھ ہی سندھ کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا اگر نئے ڈیم بنائے جائیں تو مسئلہ حل ہوجائے گا۔

پانی ہی زندگی ہے لیکن سندھ کوزندگی سے محروم کرنے کی کوششیں قیام پاکستان سے قبل سے جاری ہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ قیام پاکستان سے قبل انگریز لیکن قیام پاکستان کے بعد پانی کے معاملات میں تو پنجاب ہی ’ کُل مختار ‘ بنا ہو اہے ۔ پنجاب کے آگے تو ارسا بھی بے اختیار اور صرف استعمال کا آلہ بنا ہوا ہے ، پنجاب اسے استعمال کرتے ہوئے کسی بھی وعدے اور معاہدے پر عمل کرنے کا خود کو پابند نہیں سمجھتا ، یہاں تک کہ وہ 1991ء کے آبی معاہدے پر بھی عمل کرنے کو تیار نہیں ۔

اس ساری صورتحال کی بناء پر سندھ کی زراعت تباہ ہوچکی ہے ، اس وقت کپاس اور چاول لگانے کے لیے سندھ کو پانی کی ضرورت ہے جوکہ اسے میسر نہیں ہوگا کیونکہ موجودہ پانی تو پینے کی ضروریات کو ہی مشکل سے پورا کرے گا ۔ کوٹڑی ڈاؤن اسٹریم میں پانی پچھلے 27سالوں سے نہیں چھوڑا گیا جس کی وجہ سے وہاں کے 30لاکھ لوگ بوند بوند کو ترس گئے ہیں جب کہ وہاں پر زیر زمین پانی اس قدر کھارا ہے کہ انسان تو دور جانوروں کے استعمال کے قابل بھی نہیں ہے ۔ پھر اس پر ظلم یہ کہ سمندر میں میٹھا پانی نہ جانے کی وجہ سے سمندر ٹھٹہ کے ساحلی علاقے کی 27لاکھ ایکڑ زرعی زمین تباہ کرچکا ہے ۔ یہ ساری صورتحال اور پنجاب -سندھ پانی تنازعہ سندھ کے خوشحالی سے بدحالی تک کے سفرکا باعث ہیں ۔پھر بھی سندھ کی حالت پر پاکستان کے لوگوں کو ترس نہیں آتا ۔

پہلے ملک کے مختلف قانونی ، آئینی پلیٹ فارمز پرکے پی کے اور بلوچستان صوبوں کی جانب سے سندھ کے موقف کی حمایت کی جاتی تھی لیکن پھر پنجاب نے وفاق کے ساتھ مل کر انھیں زیر کرنے کے لیے انھیں پانی کمی میں حصہ داری سے مستثنیٰ قرار دیا اور ساتھ ہی کے پی کے کو رائیلٹی کی شرح میں اضافہ اور بلوچستان کو سندھ سے (پانی کی عدم دستیابی کے باوجود ) مکمل حصہ وصول کرنے کا لالی پوپ دیا ہے ۔ یوں سندھ کے ساتھ ایسا سلوک روارکھا جارہا ہے جو شاید قابض انگریز کے دور میں بھی روا نہ رکھا گیا تھا۔

ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ ملک ایک مرتبہ دولخت ہوچکا ہے لیکن اب تک ہمارے سازشی رویے ختم نہیں ہوئے۔ لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ رویے ہی تو ہوتے ہیں جو ملکی سانحوں کا سبب بنتے ہیں اور یہ ملک اب کسی دوسرے سانحے کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے دھونس اور داداگیری و سازشی روش بند ہونی چاہیے اور وفاق اپنا غیرجانبدارانہ کردار اختیار کرکے چشمہ جہلم لنک کینال کو فوری طور پر بند کرائے اورآیندہ بھی صرف سندھ کی پیشگی اجازت سے کھولنے کی پابندی کو یقینی بنائے اور واپڈا و ارسا کے کردار کو وفاقی حیثیت سے کام کرنے کا پابند بنانے کے لیے قانونی و آئینی اقدامات کیے جائیں اور سب سے بڑھ کر 1991ء کے آبی معاہدے پرمکمل طور پر عمل کروایا جائے ساتھ ہی کوٹڑی ڈاؤن اسٹریم کے لیے مطلوبہ پانی کی اسٹیڈیز جلدسے جلد کروائی جائے اور جب تک یہ اسٹیڈیز مکمل ہوں تب تک کوئی بھی ڈیم نہ بنایا جائے ۔ اور دریائے سندھ کی تقسیم آب کو دریائے نیل کے تقسیمی فارمولا کے تحت کیا جائے کیونکہ دریائے نیل اوردریائے سندھ کی صورتحال تقریباً ایک ہی ہے اور ویسے بھی وہ تقسیم کا فارمولا مثالی ہے جو نہ صرف ہمیں ملکی سطح پر صوبوں کے درمیان بلکہ بھارت کے ساتھ بھی مذاکرات اور تقسیم کے معاملات میں معاون ہوگا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔