تارے لرز رہے ہیں سویرا قریب ہے  

سعد اللہ جان برق  پير 12 مارچ 2018
barq@email.com

[email protected]

اب تو ہمیں پکے وٹے یقین ہو گیا ہے کہ پاکستان کے دن سنور جائیں گے روز گوشت پکے گا روز پلاؤ پکائیں گے اور حلوہ ڈکاریں گے کیونکہ سنا ہے وہ چور پکڑا کیا جس نے اس ملک کا ناش مارا ہوا تھا جو تقریباً سب کچھ چرا لیتا تھا حتیٰ کہ دریاؤں کا پانی‘صحراؤں کی ریت اور پرہتوں کی ہوا بھی اس نے چرا کر بیچ ڈالی تھی۔

تفصیلات ابھی آرہی ہیں لیکن اب تک بھی جو کچھ سامنے آچکا ہے وہ بھی کم نہیں کیونکہ بات ابھی چوری تک چل رہی ہے ہو سکتا ہے آگے لیاقت علی خان‘محترمہ بینظیر کی شہادت اور دشمن کے ساتھ والی جنگوں اور مارشل لاؤں میں بھی اس ہاتھ دکھائی دے جائے، عین ممکن ہے کہ پاکستان کا آدھا کاٹ کر بیچنا بھی اس پر ثابت ہو جائے اور سیلابوں زلزلوں میں بھی اس چور کا ہاتھ رہا ہو۔

ابھی تو زیب تفتیش ہے دیکھتے ہیں تفتیش میں اور کیا کیا سامنے آتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں تفتیش کے ماہر آتے اس لیے ہیں کہ کسی مقتول سے اپنے قتل کا اعتراف بھی کروا لیں اور لٹنے والا خود ہی اپنے گھر پر ڈاکہ ڈالنے  کا اقبال جرم کرے، کہتے ہیں ایک مرتبہ کسی جگہ کھدائی میں کوئی پنجرہ ملا یا شاید مجسمہ ہو جس کی عمر کا اندازہ نہیں لگ رہا تھا آثار قدیمہ والے اسے تفتیش کنندہ گان کے پاس لائے وہ اسے کمرہ تفتیش میں لے گئے دو منٹ بعد وہ ڈھانچہ یا مجسمہ چیختے ہوئے باہر نکلا اور زور زور سے اپنی تاریخ پیدائش دہراتا ہوا بھاگ گیا۔

تفتیش کنندگان کو خدا نے ایسی بصیرت عطاء کی ہے کہ اگر کسی راہ چلتے ہوئے کو بھی پکڑ کر زیر تفتیش لائیں تو وہ ان جرائم کیسوں کا  اعتراف بھی کر لیتا ہے جو اس نے اپنی پیدائش سے بھی کئی سال پہلے کیے ہوتے ہیں چونکہ تفتیش کبھی ختم نہیں ہوتی آپ نے اخباروں میں یہ تواکثر پڑھا ہو گا کہ تفتیش جاری ہے لیکن یہ کبھی نہیں سنا ہو گا کہ تفتیش ختم ہو گئی یا مکمل ہو گئی اور جو چیز ہمیشہ جاری رہتی ہے اس میں کچھ نہ کچھ تو ہاتھ آہی جاتا ہے، مطلب یہ کہ ابھی ایسا بہت کچھ باقی ہے جس کا اس چور سے تعلق ہو سکتا ہے اس لیے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

ہو سکتا ہے کہ اس چور کے کارنامے اس سے بھی دگنے ہوں جواب تک سامنے آئے ہیں، بلکہ ہمارا تو خیال ہے کہ ہمارے ساتھ ایک دو ایسے کیس ہوئے ہیں کہ شاید ان میں بھی اس چور کا ہاتھ ہو، ایک مرتبہ جب اسکول میں تھے تو پنسل کو پنسل کٹر میں ڈال کر گھمانے لگے ہیں پتہ بھی نہیں چلا اور وہ پنسل غائب ہو گئی ابھی ابھی کچھ ہی دن پہلے اچانک ہمارا دماغ چوری ہو گیا جس کا پتہ ابھی تک نہیں چلا ہے اور ہم مانگے تانگے یا اخباروں اور چینلوں کے دماغوں پر گزارہ کر رہے ہیں حالانکہ ان کے بھی دماغ چوری ہوئے ہیں صرف منہ سے کام لے رہے ہیں۔

بہر حال ان سارے معاملات سے ہمارا کوئی اپنا لینا دینا نہیں کیونکہ یہ رموز مملکت ہیں اور صرف ’’خسرواں‘‘ ہی جانتے ہیں بھلا ہم گوشہ نشین اس میں کیا کر سکیں گے …لیکن خوشی کا مقام تو ہے کہ اب چور کے پکڑے جانے پر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور ’’بہشتی‘‘ ہو جائیں وہ بہشتی نہیں جسے فارسی میں ’’سقہ‘‘ کہتے ہیں بلکہ وہ بہشتی کہ ہے

بہشت آں جا کہ آزارے نہ باشد
کسے را با کسے کارے نہ باشد

اور یہ امید ہمیں اس لیے ہے کہ ایک مرتبہ پہلے بھی ہمارے ساتھ ایسا ہو چکا ہے یہ وہ زمانہ تھا جب انگریز ہمارے ملک کو ’’لوٹ‘‘ رہے تھے اپنے ملک کی ساری آمدنی اور دولتیں جہازوں میں بھر بھر کرے لے جا رہے تھے اور ہمارے لیے کچھ بھی نہیں کر رہے تھے نہ سڑکیں نہ پل نہ  ریلوے لائن نہ تعمیرات کچھ بھی تو نہیں کر رہے تھے کیونکہ ہمارے زرخیز‘جوہر خیز گوہر خیز ملک کا سب کچھ وہ لے جاتے تھے اس وقت کچھ ہمدردوں کو خیال آیا کہ ان سفید چوروں ڈاکوؤں اور لٹیروں کو بھگانا چاہیے تاکہ ہم اپنے ’’سب کچھ‘‘ کے خود مالک ہو جائیں لوگوں نے لبیک کہا قربانیاں دی گئیں اور چوروں غاصبوں کو بھگا دیا گیا پھر آپ نے دیکھا کہ اس ملک کے کیسے وارے نیارے ہوگئے وہ بے پناہ دولت جو وہ لوٹ رہے تھے اب اپنے ہاتھ میں آگئی اور ملک دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا پورا ملک جنت زار بن گیا بازار بن گیا اور گل و گلزار بن گیا رعایا خوشحال ہو گئی شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پینے لگے لوگ سونا اچھال اچھال کر کھیلنے کودنے لگے بلکہ اس سے بھی جب فالتو ہو گیا تو ہم نے دوسروں کو قرضے دینا شروع کیے اور تقریباً ساری دنیا مقروض ہو گئی۔

یہاں تک کہ حکومت کے لیے کوئی کرنے کا کام باقی نہیں رہا ہے تو اس نے فارغ بیٹھنے کے بجائے دکانداری شروع کی بجلی تیل کوئلہ پانی ہوا دھوپ وغیرہ بیچنے لگی‘  سڑکیں‘ پل اور نہ جانے کیا کیا بنا کر فروخت کرنے لگی، لوگ اتنے خوشحال تھے کہ منہ مانگی بلکہ بندوق مانگی قیمت دینے لگے وہ انگریزوں کا چرایا ہوا سرمایہ جو ملک میں بچ گیا تھا ۔لیکن پھر نہ جانے کیا ہو گیا خداہم سے ناراض ہو گیا یا ہم خدا کو بھول گئے کہ ہماری گٹھڑی میں ’’لاگا چور‘‘ سب کچھ چرانے لگا پہلے تو اس نے آدھے ملک کو بیچ کر آدمیوں سمیت بیچ ڈالا پھر جو بھی چیز جہاں بھی نظر آئی چراتا چلا گیا یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ اس نے دن کا چین اور رات کا آرام بھی چرا لیا ۔اداروں کا تقدس بھی چرا لیا۔

ایمانوں اور ضمیروں کو بھی چرا لیا مطلب کہ سب کچھ چرا لیا۔لیکن آخر کب تک۔۔ملک میں ابھی درمند‘خرد مند عقل مند ہوش مند لوگ موجود تھے جو ایماندار دیانت دار‘عبادت گزار اور خدمتگار بھی تھے سب نے ایکا کرکے چور کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور اب اسے کیفر کردار تک پہنچایا جا رہا ہے امکان تو یہ ہے کہ اسے ملک بدر بھی کیا جائے کیونکہ باقی سب ’’بدر‘‘ تو کیا چکا ہے لیکن ہماری اگر کوئی مانے تو اسے دنیا بدر کر دیا جائے کوئی درجن پھر پھانسی اور چھ سات سو سال قید با مشقت کے ساتھ اس کے کپڑے لتے تک بھی اتروائے جائیں تو زیادہ انصاف ہو گا۔

خیر یہ تو ہو جائے گا کیونکہ ہمیں ماہرین تفتیش اور عدل و انصاف پر پورا بھروسہ ہے کیونکہ اس ملک میں انصاف کا بول ہمیشہ بالا رہا ہے لیکن ہمیں بہت زیادہ خوشی آنے والے سنہری دور کی ہے کہ چور تو پکڑا جا چکا ہے اور ملک کو محفوظ بنایا جا چکا ہے اور جو کچھ یہ لوگ چوری کر رہے تھے اب چوری نہیں ہو گا اور ملک کا نصیبہ ہو جائے گا ۔اس لیے ایک مرتبہ پھر ہم اس باغ بہشت‘ میں ہوں گے جیسے کہ انگریزوں کے بھگانے پر ہوئے تھے اس وقت انگریز چور تھے جو ہمارا سب کچھ چراتے تھے اور اب یہ چورہیں جو سب کچھ چراتے تھے اب وہ سب کچھ پھر ’’ہمارا‘‘ ہو جائے گا تو اندازہ کیجیے کہ ہمیں کیا کیا نصیب ہو جائے گا ۔ہر روز عید اور ہر رات شب برات ہو جائے گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔