ڈریکولا

راؤ منظر حیات  پير 12 مارچ 2018
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

وی لاڈ سوئم پندرھویں صدی میں رومانیہ کے ایک خطے ویلاشیاکابادشاہ رہاہے۔دنیا میں اب تک جتنے بھی حکمران، بادشاہ یا شہنشاہ آئے ہیں، وی لاڈ مظالم کی بدولت ان سب میں نمایاں حیثیت کامالک ہے۔شائد اس کا مقابلہ کوئی بھی نہیں کرسکتا۔

ظلم،جبراورتکلیف پہنچا کر دوستوںاوردشمنوں کو مارنے کے نایاب طریقوں کا موجد۔ایسے ایسے ہولناک مظالم جن کا تصورتک نہیں کیا جاسکتاہے۔ اس کا پورا نام وی لاڈ ڈریکولا تھا۔یہ وہی کردارتھا جو صدیوں بعد ناولوں کی زینت بنا اور اس پراَن گنت فلمیں بنیں۔کاونٹ ڈریکولاکا اصل کردار وی لاڈ ہی تھا اورآج تک ہے۔

مطلق العنان حاکم کے طورپراس نے جوکیا،وہ ایک طرف، اسیری  میں بھی وی لاڈ ظالم رہا۔قید میں ایک گندہ ساکمرہ اورچھوٹی سی کھڑکی۔ ولاڈ سارا دن چوہے پکڑتاتھا۔ چوہا پکڑکر کمرے میں موجودلکڑی کے ایک چھوٹے سے تختے پررکھ دیتا۔ اس کی دم پرکیل ٹھونک ڈالتا تھا۔ چوہا تکلیف سے آوازیں نکالتا تھا۔ وی لاڈ چوہے کوتڑپتادیکھ کر اس پررحم کرتا۔

اس کا رحم تھاکہ اس کے جسم کوکئی حصوں میں تقسیم کردیتا تھا۔ قیدکے دوران یہ اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ خیرہمارے ملک میں مقتدرطبقے کی اولین خواہش بھی ولاڈجیسی ہے۔ مگر تاریخ کا سبق ہے،کسی کودوام نہیں۔ولاڈ بھی غلط تھا اور ہمارا مقتدرطبقہ بھی غلط ثابت ہوا ہے اورہوگا۔

ولاڈ نے حکومت سنبھالنے کے بعد قیدیوں کی فہرست بنوائی۔یہ تقریباًپندرہ ہزارافراد تھے۔اس کے علاوہ پوری سلطنت میں پانچ ہزارمرداورعورتیں ایسی تھیں جوباغیانہ خیالات کے مالک تھے۔قیدیوں میں اکثریت تُرکوں کی تھی۔ولاڈ نے بیس ہزارمرد و زن کوایک میدان میں جمع کیا۔اپنے فوجیوں اورجلادوں کوحکم دیاکہ ان تمام لوگوں کی جلداُکھاڑدیں۔

تصورکیجیے۔بائیس ہزارلوگوں کی جلد سفاکی سے بدن سے جداکردی گئی۔ پھر لکڑی کی چوبیں منگوئی گئیں۔ان لوگوں کے سرسے لے کرپاؤں تک لکڑی کی کیل ٹھوک کرکھڑاکردیا جاتا تھا۔ بدقسمت لوگ آہستہ آہستہ اَزحد تکلیف سے مرتے تھے۔ان اذیت بھری آوازوں کے عین درمیان ولاڈشاہی میزلگواتاتھااوربڑے مزے سے کھانا کھاتا تھا۔جام لنڈھاتا تھا۔خوش ہوتا تھا۔

مرتے ہوئے لوگوں کی آوازیں سننااس کے لیے تفریح کاباعث تھا۔یہ سب کچھ اس قدرہولناک تھاکہ ایک بارتُرک سلطان،ولاڈکے دارالحکومت پرحملہ کرنے کے لیے شہرکے نزدیک آیاتواس کی افواج لکڑی کی کیلوں پرجلدکے بغیربرہنہ لاشیں دیکھ کراس درجہ خوف ذدہ ہوگئیں کہ حملہ کرنے سے انکارکردیا۔

ولاڈکے مظالم کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ہروقت لوگوں کو اذیت دینے کے نت نئے طریقے سوچتا رہتا تھا۔ دربار کے عین درمیان ایک بہت بڑی دیگ بنوائی ہوئی تھی۔اس پر لکڑی کے ڈھکن اس طرح کے تھے کہ انسانی سرگرفت میں آجائے۔ولاڈ لوگوں کودیگ میں اس طرح کھڑاکرتاتھاکہ ان کے سر لکڑی کے ڈھکن میں آجاتے تھے اوروہ دیگ میں کھڑے ہوجاتے تھے۔جب چالیس پچاس لوگ اس طرح کھڑے ہوجاتے تھے،توولاڈ پانی بھرواکردیگ کے نیچے الاؤ جلادیتاتھا۔

لوگ گھنٹوں کھولتے ہوئے پانی میں کھڑے رہتے تھے۔مگرجل نہیںپاتے تھے۔ دھاڑیں مارتے تھے۔ معافیاں مانگتے تھے۔یہی چیخیں ولاڈکے لیے روح کی غذا تھیں۔گمان تھاکہ ظلم اورجبرکی وجہ سے کوئی بھی اس کے سامنے سراُٹھانے کی جرات نہیں کرے گا۔مگروہ غلط ثابت ہوا۔اس کے خلاف کامیاب بغاوت ہوئی۔ولاڈاوراس کے ولی عہدکو باغیوں نے زندہ دفن کردیا۔آج تک کسی کو علم نہیں کہ ولاڈکس جگہ پرزندہ درگورکیاگیاتھا۔

آپ سوچ رہے ہوںگے کہ ولاڈکے متعلق چند حقائق لکھ کراپنااورآپکاوقت کیوں ضایع کیا۔مگر طالبعلم کی دانست میں سیکڑوں برس پہلے ڈریکولا اور ہمارے مقتدر طبقے میں ہرچیزیکساں ہے۔ اطوار بدل گئے ہیں۔ مگر خیالات، طرزِحکومت،مراعات،ناانصافی اورجبرکا کلچر سوفیصدوہی ہے۔فرق صرف اورصرف ناموں کا ہے۔شائدلباس کا بھی۔اگرسنجیدگی سے دیکھاجائے تو کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔

کسی مخصوص رہنما، سیاستدان، سیاسی گروہ،کاروباری شخص یامذہبی رہنما کا ذکر نہیں کر  رہا۔لیکن مجموعی طورپر ہر ایک کاذکر کررہا ہوں۔ کیونکہ آج انسانی جلد اُتارنے کے طریقے مختلف ہیں مگرمقصد صرف ایک ہے،اقتدارپر قبضہ اور دولت میں اضافہ۔ سب سے پہلے ستربرس کی طرزِ حکمرانی اور حکمرانوں کے عمومی رویوں پرغور کیجیے۔

قیام پاکستان سے لے کرآج تک رویوں میں کسی بھی قسم کی جوہری تبدیلی نہیں آئی۔ خوفناک طرزکی یکسانیت ہے۔ خوفناک لفظ اس کیفیت کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ سب سے پہلے رہنے سہنے کے طوراطوار پرنظرڈالیے۔ فوجی حاکموں سے لے کرجمہوری بادشاہوں تک انتہائی پُرتعیش، قیمتی اوروسیع گھربلکہ محلات، ان کے پاس موجود ہیں۔ درست ہے کہ چند استثنا بھی ہیں۔

تھوڑے لوگ ہیں جنہوں نے حکومت میں رہتے ہوئے قدرے سادگی کا ملاحظہ کیا۔پچانوے فیصدحکمران بالکل ایک ہی رویہ کے مالک ہیں۔ رعایا سے ازحدمختلف۔ پُرسکون اور محفوظ طریقے سے رہنے والی منفردمخلوق۔ لباس ہی کو لے لیجیے۔ہمارے ایک وزیراعظم جوخوش پوشی کے لیے مشہورتھے۔کروڑوں روپے کے اٹالین سوٹ جمع کرنے کے شوقین تھے۔

عوام تو دور کی بات، خواص  کے بھی علم میں نہیں کہ اٹلی کے مہنگے ترین سوٹ پندرہ لاکھ سے پنتالیس لاکھ تک کے ہیں۔یقین نہ فرمائیے۔ انٹرنیٹ کھول کردنیاکے مہنگے ترین مردانہ سوٹوں کی قیمت معلوم کیجیے۔ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔موصوف کے پاس درجنوں ایسے قیمتی لباس تھے۔ خواتین رہنماؤں کی طرف آئیے۔غریب عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی مقتدر خواتین، ہزاروں ڈالر کے بیگ استعمال فرماتی ہیں۔

دھوپ سے بچنے والاچشمہ ہی لاکھوں روپے کاہوتا ہے۔ لباس اورجوتے بھی اَزحد  بیش قیمت ہوتے ہیں۔ لندن، فرانس اور امریکا کی برانڈڈگھڑیوں کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ اگر عوام کومعلوم ہوتوشائدانھیں یقین ہی نہ آئے۔ چالیس پچاس لاکھ سے لے کرایک کروڑ روپے کی گھڑی عام ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ اگران لوگوں نے ذاتی پیسوں سے یہ اشیاء خریدی ہوں توشائد درگزر ہوجائے۔مگریہ سب کچھ سرکاری پیسے کی چوری سے خریدا گیا ہے۔جب آپ پوچھیں توانتہائی بودے قسم کے جواب سامنے آتے ہیں۔

ستربرس سے بیرونی اورملک کے اندرسفرکرنے کے طریقوںپرنظرڈالیے۔ ہروزیراعلیٰ،وزیراعظم،صدر،فوجی حکمران،گورنرنے متعددجیٹ طیارے رکھے ہوئے ہیں۔ مہنگے ترین جہازوہ اوراہل خانہ اس طرح استعمال کرتے ہیں جیسے کوئی سائیکل استعمال کرتا ہے۔کسی بھی سرکاری جہازکے پائلٹ کواعتمادمیں لے کرتفصیلات پوچھیے۔ہوش ٹھکانے آجائیںگے۔ حکمران تو دور کی بات،ان کے ملازمین بھی سرکاری جہازاستعمال کرتے ہیں۔

اخراجات غریب عوام کی جیب برداشت کرتی ہے۔اگرکوئی مزدور،طالبعلم، گھریلو خاتون،چرواہا یاکسان فون کے لیے کارڈ خریدتا ہے تو سوروپے کے کارڈ میں سے تیس روپے کاٹ لیے جاتے ہیں۔ کس لیے،صاف ظاہرہے کہ بے رحمانہ طرزِزندگی اورسرکاری اخراجات پورے کرنے کے لیے۔بات کوتلخ نہیں کرنا چاہتا۔ کبھی کسی حکمران نے بیرونی دورے کے بعدقوم کوبتایاہے کہ امریکا یالندن کس ہوٹل میں قیام پذیررہا ہے۔

وفد پر کتنے کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔بیرون ملک سرکاری دوروں میں مقتدرطبقہ لاکھوں روپے یومیہ کرایے والے ہوٹل میں ٹھہرتے ہیں۔دوہزارپاؤنڈ سے لے کراس سے اوپرتک کا کرایہ کوئی اورنہیں دیتا۔بلکہ میں اورآپ دیتے ہیں۔ ایک لیٹرپیٹرول پرچالیس روپے ٹیکس اسی وجہ سے کاٹاجاتاہے۔ کیامہاتیرمحمدکی طرح ہمارے حکمران یہ نہیں کرسکتے کہ بیرون ملک سرکاری دوروں میں اپنے کسی دوست یاعزیزکے گھر ٹھہرجائیں۔

آگے بڑھیے۔ سرکاری گاڑیاں دیکھیے۔ مرسیڈیز،بی ایم ڈبلیو،بینٹلے اورمہینگی ترین گاڑیوں سے نیچے سفرکرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ان گاڑیوں کی قیمت عرض نہیں کروںگا۔خودمعلوم کرلیجیے، اوصان خطا ہوجائیں گے۔پھران کوبلٹ پروف کرایاجاتاہے۔یعنی دوکروڑکی قیمت چارپانچ یا دس کروڑ تک پہنچ جاتی ہے۔دس سے بارہ کلو میٹرکاسفربھی سرکاری ہیلی کاپٹر پر کیا جاتا ہے۔اس کے خرچے بھی ہم لوگ اداکررہے ہیں۔

ولاڈ ڈریکولا ایک ظالم بادشاہ تھا۔مگرکم ازکم موت کے کاروبار میں ازحد ایماندار تھا۔ مگر ہمارا حکمران طبقہ تواس سفاکی سے بیس کروڑلوگوں کی جلد اُتار رہاہے کہ انھیں معلوم ہی نہیں ہورہا۔ ان کے جسموں میں لکڑی کی چوب کے بجائے، مہنگائی، ناانصافی،بے رحم کرپشن، دو نمبری اورقرضوں کی اَن دیکھی کیل گاڑ دی گئی ہے۔

طریقہ واردات بدل گیاہے۔ مگر مقصد وہی ہے۔لوگوں کاخون چوسو، جھوٹ بولو، بیوقوف بناؤاور سرکاری سرمایے پرخاندان سمیت عیش کرو۔ میرا خیال ہے کہ یہ طبقہ یا گروہ، ولاڈ سے ہزارگنا ظالم ہے۔اگر یہ اس وقت ہوتے تو ولاڈ ان کا شاگرد بن جاتا۔مگریہ بھول چکے ہیں کہ قدرت نے زندہ درگور ہونے جیسا انجام ایک ہی رکھا ہے۔ مگرانجام کی کس کوفکرہے!نہ ڈریکولاکوتھی اورنہ ہی انھیں ہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔