ترقی اور ترقیاتی کام

ظہیر اختر بیدری  پير 12 مارچ 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پاکستان جمہوریت کے حوالے سے ایک طویل دوری امتحان سے گزر رہا ہے۔ جمہوریت کے نام پر عوامی دولت کی بے بہا لوٹ مار کے کارندے چونکہ اقتدار میں بھی رہتے ہیں اور جمہوریت کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے بے پناہ دولت خرچ کرنے کی پوزیشن میں بھی رہتے ہیں، لہٰذا 70 سال گزرنے کے باوجود جمہوریت کے یہ نام نہاد سرپرست آج بھی جمہوریت کو قابو میں رکھنے کی پوزیشن میں ہیں۔ ماضی میں چھانگا مانگا اس مافیائی جمہوریت کے مرکز رہا ہے، جہاں جمہوریت کے گھوڑے خریدے اور بیچے جاتے تھے۔

چونکہ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں، بلکہ مستقل بیماری ہے، لہٰذا آئے دن اس کے تماشے دیکھے جاتے ہیں، ابھی سینیٹ کے انتخاب کے دوران میڈیا میں جمہوریت کی خرید و فروخت کی جو داستانیں آتی رہیں، جمہوریت کے عاشقین کی نظروں سے بھی گزری ہوں گی، لیکن ان عادی مجرمین نے ان خبروں کا کوئی نوٹس اس لیے نہیں لیا ہوگا کہ ان کی زندگی کا دارومدار ہی اس جمہوریت پر ہے۔ جو لوگ اس قابل فروخت جمہوریت کی مخالفت کرتے ہیں اشرافیہ انھیں جمہوریت مخالف بلکہ جمہوریت دشمن کے القاب سے بھی نوازتی رہتی ہے۔

جو لوگ، جو سیاست دان اس قابل فروخت جمہوریت کو سمجھتے ہوئے بھی اس کی حمایت کرتے ہیں وہ کسی نہ کسی حوالے سے اس جمہوریت کے حصہ دار ہوتے ہیں۔ آج کل سیاست دانوں کی جمہوریت پرستی کی جو داستانیں ملک بھر میں گونج رہی ہیں اس سے سارے ملک میں ایک سیاسی ارتعاش تو پیدا ہورہا ہے لیکن اس ارتعاش سے جمہوریت میں بہتری کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے بلکہ سینیٹ کے انتخابات کے دوران جو نتائج دیکھے گئے ہیں ان سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ ’’موجودہ جمہوریت‘‘ کی جڑیں بہت گہری ہیں۔

سینیٹ کے انتخابات چونکہ عوام کے منتخب نمایندے کرتے ہیں، عوام کا اس میں کوئی کردار نہیں ہوتا اس لیے ووٹوں کے خریداروں کو یہ آسانی ہوتی ہے کہ انھیں عوام کے دروازے پر جانا نہیں پڑتا، اوپر ہی اوپر خرید و فروخت کا کاروبار ہوجاتا ہے اور پانچ سال کے لیے ’’منتخب‘‘ نمایندے ایوان بالا میں متمکن ہوجاتے ہیں۔

اگر انتخابات کا معیار ایمانداری اور اہلیت ہو تو نہ کسی کو اعتراض کا موقع مل سکتا ہے، نہ منتخب سینیٹروں کی کارکردگی پر کسی کو اعتراض ہوسکتا ہے۔ ایوان بالا کی دستوری ذمے داریاں ایوان زیریں سے کم ہوتی ہیں لیکن اگر اس ایوان میں مخلص، ایماندار اور اہل نمایندے موجود ہوں تو ایوان زیریں کی بے لگامی کو وہ لگام دے سکتے ہیں لیکن جب جمہوریت سر سے پیر تک آلودہ ہو تو عوام کی اقتصادی صحت پر لازماً اس کا اثر پڑتا ہے۔

وہ لوگ جو اس جمہوریت میں بہتری کی امیدیں باندھتے ہیں، غالباً وہ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ اس جمہوریت کا خمیر سرمایہ دارانہ نظام سے اٹھتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام اصل میں سرمائے کے کھیل کا نام ہے۔

ہمارے بعض معصوم اور سادہ لوح دوستوں کا خیال ہے کہ جمہوریت کے تسلسل سے جمہوریت میں بتدریج بہتری آئے گی۔ غالباً وہ اس تلخ حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ رائج الوقت جمہوریت اصل میں ایک ایسی سرمایہ کاری ہے جس میں ایک لاکھ کا سرمایہ لگانے والا ایک کروڑ اور دس کروڑ کا سرمایہ لگانے والا بڑی آسانی سے پچاس کروڑ کمالیتا ہے، جہاں منافع کا عالم یہ ہو وہاں اگر کوئی جمہوریت میں عوام کی بھلائی کو دیکھتا ہے تو اس کی سادگی پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔

سرمایہ دارانہ جمہوریت کے سرپرست عوام کو جمہوریت کے جس روشن پہلو سے متاثر کرتے ہیں وہ ہے ترقی اور ترقیاتی کام۔ اس حوالے سے ہمارے حکمران طبقے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش بلکہ بڑی حد تک کامیاب کوشش کرتے ہیں کہ ملک میں جو ترقیاتی کام ہورہے ہیں وہ سب جمہوریت کی بدولت ہیں۔ مثلاً موٹر وے، اورنج لائن ٹرین، گرین لائن بس سروس اوور ہیڈ انڈر پاس وغیرہ وغیرہ۔

یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ 30، 30 سالہ اقتدار کے بعد ترقیاتی کاموں کا خیال اس لیے آیا ہے کہ اپوزیشن سر پر سوار ہے اور سوال کررہی ہے کہ اتنے طویل عرصے میں آپ کیا کرتے رہے۔ آج آپ کو ترقیاتی کاموں کا خیال اس لیے آیا کہ اپوزیشن کا ایک حصہ آپ کی کمزوریوں کو طشت از بام کررہا ہے اور آپ کو یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ اگر سابقہ روش پر چلتے رہے تو عوام بددل ہوجائیں گے اور آنے والے الیکشن میں عوام کو بے وقوف بنانا آسان نہیں رہے گا۔ سو اچانک ملک بھر میں ترقیاتی کاموں کا ایک دورہ پڑ گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دس فیصد کام ہورہا ہے تو اس کی پبلسٹی سو فیصد ہورہی ہے۔ یہ کلچر نیا نہیں بلکہ 70 سال پرانا ہے۔ عوامی مسائل میں ایسے بے شمار علاقائی مسائل ہوتے ہیں جو بلدیہ کی ذمے داری ہوتے ہیں اور ایک با اختیار بلدیہ جمہوریت کی اساس ہوتی ہے، لیکن ہمارے جمہوری حکومتوں نے اس سے مالی اور انتظامی اختیارات چھین کر اسے بے دست و پا بناکر رکھ دیا ہے اور یہ جمہوری اقدام اس لیے کیا گیا ہے کہ اربوں روپوں کا فنڈ بلدیہ کے لیے مختص ہوتا ہے اور ہماری جمہوری حکومتیں بلدیہ کا کام بھی ’’ازراہ کرم‘‘ خود ہی کرنا چاہتی ہیں۔

ہماری رائج الوقت جمہوریت میں ترقیاتی کاموں کا مطلب سڑکیں بنانا، اورنج لائن اور گرین لائن سروس مہیا کرنا، اوورہیڈ برج اور انڈر پاس بنانا، گیس بجلی کی فراہمی وغیرہ سے لیا جاتا ہے۔ بلاشبہ یہ سارے کام عوامی ضرورتوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 70 سال سے ان کاموں کو کیوں نظر انداز کیا گیا۔ بجلی اور گیس عوام کی ایسی ضرورتیں ہیں جن کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔

70 سال سے ان لازمی ضروریات کو کیوں نظر انداز کیا گیا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا ترقی یافتہ ملکوں میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، لیکن عشروں سے ہمارے ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا بدترین نظام جاری ہے، چونکہ اب ایک رقیب روسیاہ پیچھے لگ گیا ہے لہٰذا اشرافیہ کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر انسان کی ان بنیادی ضرورتوں کو پورا نہ کیا گیا تو رقیب روسیاہ اس کا فائدہ اٹھاکر حکومت کے لیے مشکلات پیدا کردے گا، اس خوف سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کی طرف توجہ تو دی جارہی ہے لیکن ابھی بھی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔

اس حوالے سے حکومت جن کاموں کو ترقی کا نام دیتی ہے وہ اصل میں ترقی ہے ہی نہیں، ترقی کا مطلب انسان کی بنیادی ضروریات کی فراہمی، مہنگائی سے عوام کی جان چھڑانا، عوام کے معیار زندگی میں اضافہ، عوام کو تعلیم اور علاج کی مفت سہولتیں فراہم کرنا، ملک کے تعلیمی اداروں میں جدید علوم کی فراہمی، سائنس اور ٹیکنالوجی اور تحقیق کے شعبوں میں ضرورت کے مطابق فنڈز فراہم کرنا، ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ کرنا، یہ وہ کام ہیں جو ترقی کی ذیل میں آتے ہیں۔ کیا ان شعبوں میں ترقی ہورہی ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔