مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

مقتدا منصور  پير 12 مارچ 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

وطن عزیز میں انتخابات کا موسم ہے۔ ابھی سینیٹ کے انتخابات سے فارغ ہوئے ہیں کہ عام انتخابات سر پر منڈلا رہے ہیں۔ یہ کھیل اگست تک چلنے کا امکان ہے۔ بشرطیکہ حالات سازگار اور معمولات اسی طرح چلتے رہے۔ عدالتیں فعال ہیں اور ذرایع ابلاغ بھی توانا۔ جب کہ عوام کنفیوزڈ۔کیونکہ مقدمات کی سماعت میں تیزی تو ضرور آرہی ہے، مگر صرف یک طرفہ۔ حالانکہ کرپشن کا آسیب زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہے۔

متوشش شہری جو نہ اِدھر والوں کے حامی ہیں اور نہ اُدھر والوں کے ثناخواں، شدید ذہنی الجھنوں میں مبتلا ہیں۔ اگر کہیں کہ احتساب درست سمت میں جاری ہے، تو جمہوریت دشمنی کا الزام لگتا ہے۔ اگر کہیں کہ Judicial Activism ہورہا ہے، تو توہین عدالت کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جائیں تو جائیں کہاں؟ سینیٹ کے انتخابات میں جو کچھ ہوا اور چیئرمین و وائس چیئرمین کی نشستوں کے لیے جو کچھ ہورہا ہے، وہ دیکھتے ہوئے پورا ملک انگشت بدنداں ہے۔

جو بات میاں صاحب کررہے ہیں، اس میں سچائی ضرور ہے، مگر آدھی۔ اس میں شک نہیں کہ ان کے خلاف آنے والا فیصلہ عدل کے معیار پر پورا نہیں اترا، یعنی مقدمہ پاناما کا، نکالا گیا اقامہ پر۔ ان پر جو چھری چلی، وہ آرٹیکل 62 اور 63 کی تھی۔ مگر جناب سابقہ دور حکومت میں جب 18 ویں آئینی ترمیم پر کام ہورہا تھا، تب ان شقوں کو خارج کرنے کی بات کی گئی تھی۔ تو میاں صاحب ہی ان شقوں کی حمایت میں سینہ تان کر کھڑے ہوگئے تھے۔بقول کبیر بھگت کہ: اب رووے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

میاں صاحب کا دوسرا گلہ یہ ہے کہ ہزاروں ووٹوں سے منتخب فرد کو چند جج نکال باہر کرتے ہیں۔ شاید میاں صاحب بھول گئے کہ عدلیہ چند ججوں پر ہی مشتمل ہوتی ہے۔ ہزاروں ووٹ لینا اور بے اعتدالیوں کی جوابدہی دو الگ معاملے ہیں۔ اگر ان کے کلیے کو تسلیم کرلیا جائے تو ہر کامیاب رکن اسمبلی جو چاہے کرتا پھرے اس سے پوچھ تاچھ کا سلسلہ بند کردینا چاہیے۔ پڑوس میں ایک وزیراعظم نرسمہا راؤ نام کے ہوا کرتے تھے، ان پر وزارت عظمیٰ کے دوران بدعنوانی کے الزامات لگے۔ عدالت بیٹھی، جس نے انھیں کرپشن کے جرم کا مرتکب قرار دیا۔

یہ بنچ بھی تین یا چار ججوں پر مشتمل تھا، مگر انھوں نے کبھی نہیں کہا کہ میں لاکھوں ووٹ لے کر آیا، کروڑوں کا وزیراعظم ہوں، مجھ پر تین ججوں کا ٹولہ کیوں مقدمہ چلارہا ہے۔ ان کے خلاف فیصلہ بعد از مرگ آیا۔ پڑوسی ملک ہی کی بات کریں تو وہاں روز اول سے کوشش کی گئی کہ دو ادارے ہر قسم کی تنقید سے محفوظ رہیں، یعنی عدلیہ اور الیکشن کمیشن۔ مگر ہمارے یہاں یہی دو ادارے سب سے زیادہ انگشت نمائی کا شکار ہیں۔کیونکہ دونوں ہی اپنی حیثیت کو غیر جانبدار اور غیر متنازع رکھنے میں مسلسل ناکام ہیں۔

میاں صاحب کو تین مرتبہ موقع ملا۔ دو مرتبہ بھاری اکثریت کے ساتھ۔ مگر انھوں نے یہ مواقع ضایع کر دیے۔ اگر اس وقت آپ آئین میں عوام دوست ترامیم کرتے، نظام عدل کو درست کرتے، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والوں کی تطہیر کرتے تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ مگر میاں صاحب طاقت کے استعمال پر یقین رکھتے ہیں۔ اپنے دوسرے دور اقتدار میں بھی وہ عدلیہ پر چڑھ دوڑے تھے۔ میاں صاحب ہوں یا ان کے رقیب کپتان صاحب۔ دونوں ہی جمہوریت کا واویلا تو بہت کرتے ہیں، مگر پارلیمان میں جاکر وہاں بحث کا حصہ بننے کے لیے دونوں میں سے کسی کو بھی فرصت نہیں ہے۔

آج عدلیہ کیونکر تنقید کا نشانہ ہے؟ اس پہلو پر نہ قانون کے رکھوالے غور کر رہے ہیں اور نہ متوشش شہری اور نہ ہی سیاسی اکابرین۔ جسٹس منیر مرحوم نے نظریہ ضرورت یعنی Principle of necessity کا جو کلیہ اس وقت کے گورنر جنرل ملک غلام محمد کے احکامات کو جلا بخشنے کے لیے متعارف کرایا تھا، ان کے بعد آنے والے ادوار میں اسی کند چھری سے جمہوریت کا گلا کاٹا گیا۔ یہ عمل ان سے ہوتا ہوا جسٹس افتخار محمد چوہدری تک پہنچا۔ جن کی بحالی کے لیے میدان عمل میں متحرک ہر اول دستہ کے سالار اعلیٰ پیپلز پارٹی کے بیرسٹر اعتزاز احسن تھے۔ دوسری صف میں محمد نواز شریف اور کپتان عمران خان تھے۔ مگر بعد میں معلوم ہوا کہ کٹھ پتلی کے اس کھیل کی ڈوریں تو کوئی اور ہلا رہا تھا۔

چوہدری صاحب ہر چینل پر دعویٰ کیا کرتے کہ ان کی جدوجہد نظام عدل میں اصلاحات لانے کے لیے ہیں۔ وہ جھوم جھوم کر یہ نظم پڑھتے کہ ’’ریاست ہوتی ہے ماں کے جیسی‘‘۔ مگر نہ عدلیہ میں اصلاحات آئیں، نہ عام آدمی کو کوئی ریلیف ملا اور نہ ہی ریاست نے زدپذیر جنتا کو اپنی آغوش میں سمیٹا۔ البتہ جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ان کی ٹیم بحال ضرور ہوگئی۔ اس کے بعد کیا ہوا، سب نے دیکھا۔

جسٹس چوہدری نے عوام الناس کے مقدمات ایک طرف ڈالتے ہوئے سیاسی مقدمات کو اپنی ترجیحات بنایا اور اپنے ریمارکس کے ذریعہ عوام کے قلب و ذہن کو گرمانے کا نیا کلیہ ایجاد کردیا۔ انھوں نے اس دھڑلے کے ساتھ ازخود نوٹس لیے کہ لفظ نوٹس کو اپنے آپ سے شرم آنے گی۔ ان کے بعد آنے والے اس روایت پر آج تک کاربند ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ عدالتوں پر 11 لاکھ مقدمات کا بوجھ ہے۔ جب سیاسی مقدمات سے فرصت ملے گی، تب کہیں ان کا نمبر آسکے گا۔

اگر ملک کی مجموعی صورتحال پر نظر ڈالیں تو دس (10) کلیدی مسائل سامنے آتے ہیں۔ جن میں بے روزگاری، خواندگی کی کمتر شرح، صحت کے وسیع تر ہوتے معاملات، شدت پسندی و جنون پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان، توانائی کا بحران، سیاسی عدم استحکام، ناکام خارجہ پالیسی، آبادی کا بے ہنگم انداز میں بڑھتا ہوا دباؤ، تجارتی خسارہ اور ہر شعبہ حیات میں بدعنوانی۔ مگر ان تمام مسائل کی جڑ بری حکمرانی ہے، جس میں یہ ملک روز اول ہی سے مبتلا کردیا گیا۔ ستر برسوں کے دوران اس ملک کے عوام نے سیاسی اور غیر سیاسی دونوں طرح کے حکمرانوں کو آزمایا۔ مگر نہ کوئی مہاتیر محمد پیدا ہوا اور ہی جنرل ڈیگال جیسا وژنری۔

جب حکمران اشرافیہ کی آنکھوں پر خودغرضی، موقع پرستی اور خودنمائی کی دبیز چربی چڑھی ہو تو انھیں نہ اطراف سے منڈلاتے خطرات نظر آتے ہیں، نہ ملک کا انتشار کی دلدل میں پھنسا معاشرہ نظر آتا ہے۔ نہ درسگاہوں اور شفاخانوں کی حالت زار پر نظر جاتی ہے اور نہ بدعنوانیاں اور کرپشن کا جن انھیں ستاتا ہے، کیونکہ یہ جن تو خود آسیب کی مانند ان کے سروں پہ مسلط ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ملک میں ایسا کوئی بھی شعبہ نہیں، جو درست انداز اور درست سمت میں کام کررہا ہو۔ حد یہ ہے کہ نئے اداروں کی تعمیروتشکیل تو درکنار، برطانوی دور سے ورثے میں ملنے والے اداروں تک کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ وطن عزیز کا حال دیکھ کر غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ:

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہوتوساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔