خواتین کو با اختیار بنانے کیلئے جامع پالیسی تشکیل دینا ہوگی!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 12 مارچ 2018
’’خواتین کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکا کی گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

’’خواتین کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکا کی گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

2017ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی کا 49 فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے مگر اس کے باوجود یہ طبقہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے۔ اگرچہ آئین پاکستان حقوق نسواں کے تحفظ کی گارنٹی دیتا ہے اور اس حوالے سے قوانین بھی موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث خواتین استحصال کا شکار ہیں ۔ اس سارے منظر نامے میں ’’خواتین کے عالمی دن ‘‘ کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

 فائزہ ملک (رکن پنجاب اسمبلی و رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)

پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے سب سے زیادہ کام ہوا، قانون سازی ہوئی اور خواتین کو فیصلہ سازی میں شامل کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کا سیاسی سفر انتہائی کٹھن تھا۔ انہوں نے جس دور میں سیاست کا آغاز کیا اس وقت خواتین کا سیاست میں آنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ بے نظیر بطور وزیراعظم تمام خواتین کی رول ماڈل تھیں ۔انہوں نے مشکلات کا سامنا کیا مگر گراس روٹ لیول کی سطح تک خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کے مسائل حل کرنے کیلئے تندہی سے کام کیا۔ انہوں نے خواتین کی صحت کے حوالے سے اقدامات اٹھائے۔ 9 ہزار کے قریب لیڈی ہیلتھ وزیٹرز تعینات کی گئیں تاکہ دیہی خواتین کے گھر کی دہلیز پر ان کی صحت کے مسائل کو حل کیا جاسکے۔ پہلی مرتبہ خاتون ججز تعینات کی گئیں، خواتین کے لیے بینک، پولیس اسٹیشن و دیگر ادارے قائم کیے گئے جن سے خواتین کو تحفظ ملا۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی نے مشکل حالات کے باوجود قومی اسمبلی میں خواتین کے حوالے سے ریکارڈ قانون سازی کی۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان میں پہلی مرتبہ خاتون گورنر، قومی اسمبلی میں خاتون سپیکر، آزاد کشمیر و سندھ اسمبلی میں خاتون ڈپٹی سپیکر اور سٹینڈنگ کمیٹیوں میں خواتین کو چیئرپرسن تعینات کیا گیا جو تاریخ ساز اقدام ہے ۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ میں ’’وویمن کاکس‘‘ بھی قائم کیا گیا جس میں بلاتفریق تمام جماعتوں کی خواتین شامل تھی جن سے رائے لی جاتی تھی اور پھر اس کی روشنی میں قانون سازی ہوتی تھی۔ حالیہ سینیٹ انتخابات میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی نے خواتین کو ٹکٹ دیے جن میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ورکرز بھی شامل ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام خواتین کو بھی بااختیارت بنانے کیلئے بہترین منصوبہ تھا جس میں ٹیکنیکل ٹریننگ، ہیلتھ کارڈ، آسان اقساط پر قرضے و دیگر چیزیں شامل تھیں مگر انہوں نے اسے صرف ایک ہزار روپے امداد تک محدود کردیا جس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوسکا۔ تمام صوبوں کی خواتین کی صورتحال کا موازنہ کریں تو صوبہ سندھ کے زرعی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو گزشتہ دس برسوں میں بہت زیادہ حقوق فراہم کیے گئے ہیں، تربیت کے ساتھ ساتھ انہیں مالکانہ حقوق پر سرکاری زمین اور آسان اقساط پر قرضے بھی فراہم کیے جارہے ہیں تاکہ وہ بہتر کاشتکاری کرکے اپنا روزگار کماسکیں۔ اگر پنجاب میں بھی ہماری حکومت ہوتی تو اب تک یہاں ہماری پالیسیوں پر عملدرآمد ہوتا اور یہاں کی خواتین بااختیار ہوتیں۔ زرعی اراضی کے حوالے سے پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے مگر یہاں زرعی زمین کو تباہ کرکے انڈسٹریز و دیگر منصوبے شروع کیے جارہے ہیں جو زرعی شعبے میں کام کرنے والے مرد و خواتین کی حق تلفی اور ان کے روزگار پر ڈاکہ ہے۔ پنجاب کا خواتین پیکیج 2012ء، 32 نکاتی تھا جن میں سے 12 مسائل پر قانون سازی ہوئی مگر ان پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوسکا۔خواتین کی نمائندگی کے لیے مختص کوٹہ پر بھی عملدرآمد یقینی نہیں بنایا جاسکا بلکہ مقامی حکومتوں میں خواتین کی نمائندگی ختم کردی گئی جو باعث افسوس ہے۔ وائلنس اگینسٹ وویمن بل تمام جماعتوں نے مل کر پاس کروایا لیکن ابھی تک اس کے رولز اور بزنس نہیں بنائے جاسکے جبکہ پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن کی کارکردگی کا بھی ہمیں کوئی علم نہیں ہے ۔پنجاب چائلڈ میرج ایکٹ میں ترمیم کی گئی لیکن عمر کی حد 18 برس مقرر نہیں کی جاسکی جبکہ سندھ میں یہ حد مقرر کر دی گئی ہے اور اس قانون کے تحت وہاں سزائیں بھی ہوئی ہیں۔ بدقسمتی سے تیزاب گردی کے حوالے سے بل نہیں لایا جاسکا بلکہ اس کے قانون میں چند ترامیم کی گئی ہیں جن پر عملدرآمد ہی نہیں ہوا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں تیزاب گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ میرے نزدیک خواتین کے عالمی دن کے موقع پر تقریبات کا کوئی فائدہ نہیں ہے، یہ محض دکھاوے اور بل بورڈز کی حد تک ہیں، اس دن کا مقصد تب پورا ہوگا جب حقیقی معنوں میں نیت کے ساتھ خواتین کے حقوق و تحفظ کیلئے کام کیا جائے گا لیکن اگر یہی صورتحال رہی تو خواتین کے مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے اور نہ ہی انہیں بااختیار بنایا جاسکے گا۔

ڈاکٹر نوشین حامد (رکن پنجاب اسمبلی و رہنما پاکستان تحریک انصاف)

کسی بھی کام کے حوالے سے حکومتی وِل کی جھلک بجٹ میں نظر آتی ہے مگر خواتین کے حوالے سے پنجاب کے بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔ اگر حکومت خواتین کے مسائل کا ادراک کرکے بجٹ بنائے تو صورتحال بہت بہتر ہوسکتی ہے۔ گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس میں پاکستان 144 ممالک میں سے 143ویں نمبر، تعلیم کے حوالے سے 136، صحت 140 جبکہ معاشی خود مختاری کے لحاظ سے 143ویں نمبر پر ہے۔ یہ اعداد و شمار باعث افسوس ہیںلہٰذا ہمیں سنجیدگی کے ساتھ بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے گزشتہ 5 برسوں کے بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کوئی تسلسل نہیں ہے۔ 2012-13ء میں اس کا بجٹ 667 ملین روپے تھا جس میں اضافہ کرکے 2013-14ء میں 1419 ملین کر دیا گیا۔ 2014-15ء میں اسے کم کر کے 1398 ملین روپے ، 2015-16ء میں مزید کم کرکے 744 ملین روپے جبکہ 2016-17ء میں اس میں معمولی اضافہ کرکے 806ملین روپے کردیا گیا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس کوئی پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی روڈ میپ ہے کہ کس طرح آگے بڑھنا ہے۔ اس سے بھی افسوسناک بات یہ ہے کہ اس بجٹ کا صرف 20فیصد خرچ ہوا جبکہ باقی رقم استعمال ہی نہیں ہوئی۔ خواتین کے ڈویلپمنٹ بجٹ میں مسلسل کمی دیکھنے میں آئی ہے جبکہ آخری برس میں اضافہ ہوا ہے جو شاید تنخواہوں کے لیے ہے یا پھر کچھ نئی بھرتیاں ہورہی ہیں۔ بدقسمتی سے خواتین کے حقوق کے حوالے سے منظور شدہ سکیموں پر کام نہیں ہوسکا جس سے حکومتی سنجیدگی اور ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ خواتین کی متناسب نمائندگی کا بل تعلیم یافتہ خواتین اور خاص طبقے کو فوکس کرتا ہے جبکہ نچلے طبقے کا کوئی پرسان حال نہیں ہے لہٰذا اس محروم طبقے کیلئے بھی کام کرنا ہوگا۔ لیبر فورس میں 26فیصد خواتین ہیں جبکہ 75 فیصد ملازمت پیشہ خواتین کو حکومت کی مقرر کردہ کم از کم تنخواہ بھی نہیں ملتی جو باعث افسوس ہے۔ خواتین کی ترقی و تحفظ کیلئے حکومت کو قوانین پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا۔

ممتاز مغل (ڈائریکٹر عورت فاؤنڈیشن)

1908ء میں ہزاروں مزدور خواتین نے شکاگو میں احتجاج کیا جن کا مطالبہ برابر کام برابرتنخواہ تھا مگر آج 100 برس بعد بھی خواتین یہی مطالبہ کررہی ہیں۔ پاکستان میں بھی خواتین کو برابر تنخواہ نہیں مل رہی جبکہ غریب مرد و خواتین کی تنخواہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے اور انہیں حکومت کی مقرر کردہ کم از کم تنخواہ بھی نہیں ملتی۔ دنیا بھر میں روزانہ 39 ہزار کم عمر لڑکیوں کو شادی کیلئے مجبور کیا جاتا ہے، اس میں مغربی ممالک کی خواتین بھی شامل ہیں۔ دنیا میں ہر 4میں سے 1 حاملہ خاتون زیادتی یا جسمانی تشدد کا شکا ر ہوتی ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین اپنی آمد ن کا 90 فیصد خاندان پر خرچ کرتی ہیں جبکہ مرد اپنی آمدن کا 30 سے 40 فیصد خرچ کرتے ہیں۔ 95 فیصد ممالک کے سربراہان مرد ہیں جس کے باعث خواتین استحصال کا شکار ہیں۔ پاکستان کی بات کریں تو صنفی مساوات کے حوالے سے ہم 147 ممالک میں سے 146ویں نمبر پر ہیں جو شرمناک ہے۔ 26 فیصد خواتین لیبر فورس کا حصہ ہیں جبکہ حقیقی معنوں میں یہ تعداد بہت زیادہ ہے کیونکہ ہر گھر میں عورت کام کر رہی ہے مگر ابھی تک غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کا اندراج نہیں ہوسکا جو خرابیوں کی نشاندہی کررہا ہے۔ یہ سال ’’دیہی خواتین‘‘ کا سال ہے لہٰذا دیہاتوں میں کام کرنے والی خواتین کو بااختیار بنانا ہوگا۔ زرعی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد زیادہ ہے مگر قومی و صوبائی سطح پر ان خواتین کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ پنجاب نے لیبر پالیسی میں ان کو تسلیم کرنے کی بات کی مگر ابھی تک اس پر کام نہیں ہوا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی طریقہ کار وضع کیا گیا۔ جنوبی ایشیاء میں ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکیٹرز کے حوالے سے پاکستان سب سے پیچھے ہے جو شرمناک ہے لہٰذا ہمیں اس پر تندہی سے کام کرنا ہوگا۔ خواتین سیاست میں آئی ہیں تو ان کے حقوق کے حوالے سے قانونی سازی بھی ہوئی جو بعض صوبوں میں کم جبکہ بعض میں زیادہ ہوئی ہے۔ پنجاب میں خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے 12 قوانین بنائے گئے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ان پر ابھی تک عملدرآمد کیوں نہیں ہوسکا؟ اگر ہم نے عالمی معاہدوں کی روشنی میںقانون سازی کی ہے تو ہمیں ان پر عملدرآمد بھی کرنا چاہیے۔ افسوس ہے کہ پنجاب کی مقامی حکومتوں میں خواتین کی نمائندگی کم کردی گئی جس سے یہ نظام کمزور ہوگیا ۔سیاسی جماعتوں میں فیصلہ سازی میں بھی خواتین کی تعداد کو یقینی نہیں بنایا گیا، تمام پبلک باڈیز میں خواتین کی 33 فیصدنمائندگی بھی نہیں ہے۔ زکوٰۃ کمیٹیوں میں 36ہزار خواتین نے شامل ہونا تھا جس کے حوالے سے بھی ابھی تک کام نہیں ہوسکا۔ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے ہیلپ لائن، خاتون محتسب، وائلنس اگینسٹ وویمن سینٹر، وویمن کمیشن وغیرہ تو موجود ہیں مگر یہ ادارے متاثرہ خواتین کو ایک دوسرے کے پاس بھیج دیتے ہیں جس سے اچھے نتائج حاصل نہیں ہورہے ۔رواں برس 10 ہزار خواتین تشدد کا شکار ہوئیں جبکہ 181 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جبکہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین بھی غیر محفوظ ہیں، حکومت کو چاہیے کہ ان خواتین کولیبر رائٹس دے، اس کے علاوہ انہیں سیفٹی کٹس اورصحت و تحفظ کے حوالے سے آگہی بھی دی جائے۔ انجمن تاجران کی کمیٹیوں میں خواتین کی نمائندگی نہیں ہے اور انہیں معاوضہ بھی ٹھیک نہیں ملتا۔ خواتین کو زرعی بینک تک رسائی نہیں ہے ، 93 فیصد خواتین کے پاس اپنی زمین نہیں ہے جس کے باعث انہیں قرض نہیں ملتا۔ خواتین ٹیکنالوجی سے بھی دور ہیں، وویمن سیفٹی کے حوالے سے پنجاب حکومت نے جو ایپلی کیشنز بنائی ہیں خواتین وہ استعمال ہی نہیں کرتی اور نہ ہی انہیں اس کے بارے میں علم ہے لہٰذا حکومت کو خواتین کے مسائل پر قابو پانے کیلئے واضح اور جامع پالیسی مرتب کرنا ہوگی۔مقامی حکومتوں کے نظام میں کسان مزدور نشستیں ختم کردی گئی ہیں، اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو صحیح معنوں میں ہر شعبے پر کام کرنا ہوگا۔ زرعی شعبے میں خواتین کو یونین سازی کا حق ہے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے انہیں کوئی مدد حاصل ہے۔ وائلنس اگینسٹ وویمن سینٹر ملتان میں بن چکا ہے جبکہ آئندہ بجٹ میں فیصل آباد، گوجرانوالہ، روالپنڈی اور لاہور میںان سینٹرز کے لیے بجٹ رکھا جائے گا۔ اب وویمن پروٹیکشن اتھارٹی بنائی گئی ہے جس میں دارالامان کی جگہ اتھارٹی کام کرے گی اور یہ اتھارٹی 36 اضلاع میں وائلنس اگینسٹ وویمن سینٹر بنائے گی۔ خیبر پختونخوا میں خواتین کے حوالے سے بہتر قانون بنایا گیا ہے جس کے مطابق کوئی بھی خاتون غروب آفتاب کے بعد ملازمت نہیں کرسکتی، اس کے علاوہ ملازمت پیشہ خواتین لیبر ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ سیلف ایمپلائمنٹ سکیم کے تحت رجسٹرڈ ہیں جس کے عوض انہیں سوشل سیفٹی فراہم کی جائے گی، پنجاب و دیگر صوبوں کو بھی ایسی قانون سازی کرنی چاہیے۔ صحت ہمارا آئینی حق نہیں ہے۔ میرا مطالبہ ہے کہ جس طرح آئین کے آرٹیکل 25(A) کے تحت تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے اسی طرح صحت کی فراہمی بھی ریاست کی ذمہ داری ہونی چاہیے لہٰذا اسے خواتین کا آئینی حق ڈکلیئر کیا جائے۔ پنجاب میں خاتون محتسب تعینات کی جائے، تعلیمی نصاب کو از سر نو دیکھا جائے اور اسے خواتین و انسانی حقوق سے ہم آہنگ کیا جائے۔ خواتین کے مسائل حل کرنے اور انہیں بااختیار بنانے کے لیے ادارہ جاتی رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ اس حوالے سے سماجی تنظیموں کو ساتھ لے کر چلے، ان سے صرف تجاویز نہ لی جائیں بلکہ ان کے کردار کو بڑھایا جائے تاکہ صحیح معنوں میں مسائل کا خاتمے ہوسکے۔

آئمہ محمود ( سیکرٹری جنرل آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن )

خواتین کی ترقی دیکھنے کیلئے تین چیزوں کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ وہ سیاست میں کتنی سرگرم ہیں، معاشی طور پر کتنی خودمختار ہیں اور ان سے متعلق معاشرتی رویوں میں کیا تبدیلی آئی ہے۔ اس حوالے سے اگر ہم پاکستانی خواتین کی بات کریں تو صورتحال مایوس کن ہے۔ معاشی حوالے سے دیکھیں تو 80 فیصد محنت کش خواتین کا تعلق غیر رسمی شعبے سے ہے جن پر قوانین محنت لاگو نہیں ہوتے۔ زرعی شعبے میں کام کرنے والی خواتین بھی بنیادی حقوق سے محروم ہیں کیونکہ انہیں نہ تو قوانین محنت کے تحت تحفظ حاصل ہے اور نہ ہی لیبر فورس میں ان کا شمار ہے۔زمین کی ملکیت کی بات کریں تو دنیا بھر میں 2 فیصد سے بھی کم خواتین ایسی ہیں جن کے پاس اپنی زمین ہے لہٰذا یہ بھی استحصال ہے کیونکہ ان کے پاس وہ اختیارات نہیں ہیں جو مالک کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی خواتین بھی اپنی بہبود اور ترقی کیلئے دوسروں پر انحصار کرتی ہیں۔ سیاسی عمل کی بات کریں تو کسی بھی بڑی جماعت کی لیڈر خاتون نہیں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی وہ جماعت تھی جسے خاتون نے لیڈ کیامگر ابھی ایسی کوئی جماعت نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کی فیصلہ سازی میں خواتین کی شرکت انتہائی کم ہے۔ اس کے علاوہ ایسے بہت سارے علاقے ہیں جہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے کے حق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ہمیں امید ہے کہ الیکشن کمیشن یہ یقینی بنائے گا کہ خواتین نہ صرف اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں بلکہ سیاسی میدان میں بطور امیدوار بھی سامنے آسکیں۔ معاشرتی رویوں کی بات کریں تو آج بھی خواتین کو ایک سا کام ایک سا معاوضہ نہیں مل رہا، سیاسی جماعتوں میں بھی ان کے مسائل زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں وہ تحفظ بھی حاصل نہیں ہے جو مرد کو ہے لہٰذا ہمیں اپنے معاشرتی رویوں میں تبدیلی کے لیے بہت زیادہ کام کرنا ہوگا۔ 2012ء میں پنجاب میں خواتین کے حوالے سے اقدامات ہوئے ہیں جن میں وویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ ، پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن ودیگر شامل ہیں مگر ان اداروں کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔ پنجاب حکومت سڑکوں اور پلوں کی کم مدت میں تعمیر کے ریکارڈ بنا رہی ہے مگر بدقسمتی سے خواتین کے حقوق و تحفظ کے منصوبے برسوں سے مکمل نہیں ہوسکے۔ خواتین پر تشدد کی روک تھام کیلئے ملتان میں کرائسز سینٹر بنایا گیا جس پر کافی وقت لگا مگر اس کے بعد ابھی تک کسی دوسرے شہر میں یہ سینٹر نہیں بنایا جاسکا حالانکہ یہ سینٹر پنجاب کے تمام اضلاع میں بننے تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خواتین کے حقوق حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان میں خواتین کی تعدادکل آبادی کا 49 فیصد ہے مگر ان کی تعلیم، صحت، روزگار، تحفظ و دیگر حقوق کے حوالے سے کوئی جامع پالیسی نہیں ہے۔خواتین کے لیے ملازمت میں 15 فیصد کا کوٹہ مختص کیا گیا مگر ابھی تک یہ کوٹہ پورا نہیں ہوسکا۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے خواتین تعلیم یافتہ اور قابل نہیں ہیں بلکہ ہماری سیاسی وِل نہیں ہے کہ خواتین کو ان کا مقام دلوایا جاسکے۔ حکومت کو چاہیے کہ خواتین کے لیے خصوصی ہسپتال، ان کی مفت اعلیٰ تعلیم اور یقینی روزگار کے حوالے سے اقدامات کرے۔ آسان شرائط پر قرضے کی فراہمی شروع ہوئی مگر اس کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اچھا اقدام تھامگر اس سے بھی خواتین کو اس طرح بااختیار نہیں بنایا جاسکا جو اس کا بنیادی مقصد تھا۔ اس ساری صورتحال میں ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ پلوں اور سڑکوں کے بجائے انسانی ترقی پر توجہ دیںاور خواتین کے حقوق کو تحفظ فراہم کریں۔ سیاسی جماعتوں سے ہمارا مطالبہ ہے کہ انتخابی منشور میں جینڈر ایشوز کو شامل کریں۔ اس کے علاوہ خواتین کو40فیصد نمائندگی اور فیصلہ سازی کا اختیار جبکہ مزدور خواتین کو قومی و صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی دی جائے۔ حکومت نے خواتین کے مدد کیلئے مختلف ہیلپ لائنز قائم کررکھی ہیں جن سے کنفیوژن پیدا ہوتی ہے، حکومت کو چاہیے کہ صرف ایک ہیلپ لائن قائم کر ے جو تمام مسائل کے حوالے سے خواتین کی رہنمائی کرے۔ ان کالز کا ریکارڈ بھی رکھا جائے تاکہ اعدادوشمار سے معاشرتی رویے کا اندازہ لگایا جاسکے۔ پاکستانی خواتین اپنے حقوق کی آگاہی کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ سیاسی جماعتوں میں موجود خواتین اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں گی اور پاکستانی خواتین کو ان کے حقوق ملیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔