بھٹو… سیاست کا اہم کردار

محمد ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ  جمعـء 5 اپريل 2013
03332257239@hotmail.com

[email protected]

ذوالفقار علی بھٹو ہماری سیاست کا اہم ترین کردار ہیں۔ان کے بغیر پاکستان کی تاریخ ادھوری رہے گی۔ بھٹو کی سیاسی زندگی کو چار حصوں میں یوں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اقتدار، محرومی، اقتدار، محرومی۔ پہلا اقتدار ادھورا تھا تو اس کے بعد کے مسائل بھی کم تھے۔دوسرے مرحلے میں مکمل اقتدار ملا تو اس کے بعد تکالیف بھی انتہا پر تھیں۔ نصف صدی سے پاکستان کی سیاست پر چھائے رہنے والے بھٹو کے بارے میں امید ہے کہ مزید اتنا ہی وقت یہ خاندان اقتدار کے آس پاس رہے گا۔

بے نظیر کے بعد بلاول، فاطمہ، ذوالفقار جونیئر یا آصفہ کیا رنگ دکھاتے ہیں؟ وہ کچھ کر پائیں یا نہیں؟ بھٹو فیکٹر سیاست کے میدان میں رہے یا نہ رہے، تاریخ کے صفحات سے زلفی کو جدا نہیں کیا جا سکتا۔ جب بھٹو پاکستان کی سیاست کا اہم کردارہیں تو کیوں نہ آج اس سوال پر گفتگو کریں کہ آیا وہ اسلام پسند تھے یا سیکولرازم کے متوالے۔ ہم بھٹو کی ابتدائی زندگی کو اس وقت کی سیاست کے دھارے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھائیں گے، ایک انوکھے انداز میں۔

جب بھٹو پیدا ہوئے (1928) تو برطانوی اقتدار سوا نیزے پر تھا۔ اس کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے پڑوس میں سوویت روس کی عمر گیارہ برس تھی۔جب وہ ذرا بڑے ہوئے تو ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کے قیام کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ یہ بھٹو کا لڑکپن تھا۔ سندھ اسمبلی میں پاکستان کی حمایت میں منظور ہونے والی قرارداد 15 سالہ ذہین طالب علم کے سامنے ہوگی۔ سترہ سالہ بھٹو نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکی بمباری کے واقعات کا مطالعہ براہ راست اخبارات پڑھ کر کیا ہوگا۔ کاٹھیاوار کے جناح اور گاندھی سے بھٹو کی وابستگی جونا گڑھ جاکر مزید بڑھ گئی ہوگی۔ پھر قائد اعظم کی ممبئی میں وکالت نے بھٹو کو اس شہر اور اس پیشے سے قریب کیا ہوگا۔ یہاں پاکستان بنا ہوگا تو وہاں ساڑھے انیس سالہ بھٹو ٹین ایج کی عمر سے گزرچکے ہوں گے۔

بھٹو کی زندگی کے ساتھ ساتھ ہم اس وقت ان کے ذہن کے سفر اور دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ وقت کا پہیہ آگے تو بڑھتا ہے۔ غلام ہندوستان سے آزاد پاکستان کے شہری بن جانے والے نوجوان ذوالفقار علی بھٹو نے اور کیا دیکھا؟ اگلے دس برسوں میں انھوں نے بین الاقوامی سطح پر انڈونیشیا، ایران، مصر، تیونس، عراق اور شام میں اقتدار کی تبدیلیاں دیکھیں۔ اسلامی ممالک میں ترقی پسندی، سیکولرازم، سوشلزم اور اسلامی تحریکوں کو سمجھنا تیس سالہ بھٹو کے لیے مشکل نہ تھا۔

پھر بھٹو ایوبی اقتدار کا حصہ بنے اور اس سے الگ ہوئے۔ انھوں نے پیپلز پارٹی بنائی اور مقبولیت کی اس انتہا کو چھو لیا جو اس سے قبل محمد علی جناح کے سوا کسی نے اس خطے میں نہ دیکھی تھی۔ ’’جئے بھٹو۔۔۔۔صدا جئے ‘‘ کے نعروں کی گونج میں دائیں جانب مذہب تو بائیں جانب اشتراکیت تھی۔ دنیا دو حصوں میں بٹ گئی۔ سوویت روس اسلحے اور ٹیکنالوجی کی برتری میں امریکا کو آنکھیں دکھانے لگا۔ تعلیم یافتہ بھٹو یقیناً اسلامی ممالک سے بھی واقف ہوں گے کہ ان کے ہم عصر سوہارتو، ناصر، اسد ، شاہ فیصل اور قذافی تھے۔

تاریخ کا طالب علم اور تاریخ بنانے والا بھٹو آج تاریخ کے سامنے موجود ہے۔ نہرو کی فلاسفی کی طرح سوشلزم کو لے کر چلنے والے بھٹو نہرو ہی کی طرح برسراقتدار تھے۔ اسلام کو دین، جمہوریت کو سیاست، سوشلزم کو معیشت اور عوام کو طاقت کا سرچشمہ بنانے کا پروگرام دینے والے بھٹو آج تاریخ کے چوراہے پر کھڑے ہیں وہ اسلام پسند تھے یا سیکولرازم کو چاہنے والے؟ اس سوال کا جواب آنے والی نسلوں کے سامنے موجودہ صدی کے اٹھائیسویں اور 29 ویں برس میں زوردار انداز میں گونجے گا۔ آج کے پرائمری اسکولوں کے طالب علم کل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسی سوال پر گفتگو کر رہے ہوں گے۔ اس وقت تک سیکڑوں مقالے بھٹو پر لکھے جاچکے ہوں گے۔

کئی درجن طالب علم بھٹو کی زندگی اور سیاسی نظریے پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔ ہم آنے والے سوال کے جواب کے لیے آج سے بنیاد ہموار کر رہے ہیں۔ جب بھٹو کی 100 ویں سالگرہ اور 50 ویں برسی کے درمیان اس سوال کا جواب نئی نسل تلاش کر رہی ہوگی تو آج کے کالم پڑھنے والے اور کل کے بوڑھے اس مباحثے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوں گے۔ آئیے دیکھیں کہ برسر اقتدار بھٹو کیسے تھے؟ سیکولر یا اسلام پسند؟ ہم اس دور میں جھانک رہے ہیں اور صیغہ حال میں گفتگو کر رہے ہیں۔

صدر پاکستان بن جانے والے بھٹو کی پشت پر عوامی حمایت کا سیلاب ہے۔ امیدیں ہیں، آرزوئیں ہیں، تمنائیں ہیں اور خواہشات ہیں۔ مخالفین ہیں، تنقیدیں ہیں، الزامات ہیں اور عیب جوئیاں ہیں۔ ایسے میں بھٹو نے سوشلزم کو اسلامی سوشلزم اور پھر مساوات محمدیؐ میں تبدیل کردیا۔ جب آئین بنا تو اسلام کو پاکستان کا سرکاری مذہب قرار دیاگیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل بنائی، حج کے عازمین کے لیے رکاوٹیں دور کیں تو اسلامی دنیا کو بیدار کرنے کے لیے سربراہ کانفرنس کی میزبانی کی۔ وقت آگے بڑھتا گیا۔ اب بھی بھٹو دو پاٹوں کے درمیان پھنسے ہوئے تھے۔ اسلام پسندوں اور سیکولرازم کے چاہنے والوں کے درمیان ایک نے بھٹو سے مذہبی کام سر انجام دینے کا مطالبہ کیا تو دوسرے نے معاشی انصاف کے لیے کمیونزم کے پروگرام کی رفتار کو بڑھانے کے لیے دباؤ ڈالا۔تعلیمی و صنعتی ادارے اور بینکس و انشورنس کمپنیاں قومی تحویل میں لے لیے گئے۔ گفتگو لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھ رہی ہے۔

پاکستان اور دنیا کی سیاست نے ان دو طبقوں کو دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم کر رکھا تھا۔ روس کا سرخ سویرا پاکستان میں اسٹیل مل کے قیام میں تعاون کر رہا تھا تو پیٹروڈالر(Petro Dollar) والے امیر عرب ممالک بھی بھٹو کی مدد کو حاضر تھے۔ پارٹی کے اندر لیفٹ کے لوگوں کا دباؤ تھا تو باہر رائٹ کی اسلامی جمعیت طلبہ ایک طاقت بن کر ہر موقعے پر مزاحمت کرتی۔ چاہے وہ موقع ’’بنگلہ دیش نامنظور‘‘ مہم کا ہو یا کوئی اور۔ سرخ اور سبز کی لڑائی میں بھٹو نے جماعت اسلامی کے میاں طفیل محمد کو گرفتار کرکے اسلام پسندوں کو سخت پیغام دیا تو دوسری طرف معراج محمد خان اور جے اے رحیم کے ساتھ وہی سلوک کرکے پارٹی کے لیفٹ سے فاصلہ پیدا کردیا۔باہر سے جماعت کا پریشر تو اندر سے پارٹی کے کمیونسٹ عناصر کا دباؤ۔ شاید بھٹو نے اس دو طرفہ دباؤ سے نکلنے کی کوشش کی ہو۔

بھٹو نے افغانستان میں پاکستانی مفادات کی خاطر یونیورسٹیوں کے طالب علموں سے رابطہ رکھا۔ وہی آگے چل کر روس کو افغانستان سے نکال باہر کرنے میں اہم کردار ثابت ہوئے۔ وقت کا پہیہ آگے بڑھا۔ اب بھی قدرت بھٹو سے دو کام لینا چاہتی تھی۔ پہلے مرحلے پر بھٹو کے خلاف تحریک چلی تو انھوں نے چند اسلامی کام کیے ۔ جوئے، شراب و نائٹ کلبوں کی بندش اور اتوار کے بجائے جمعہ کی تعطیل۔ یہ آخری کام تھا جس نے سیکولر طبقے کو بھٹو کی جانب سے شدید مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ وہ پہلے ہی جاگیرداروں و سرمایہ داروں کو برسراقتدار پیپلز پارٹی کی جانب سے ٹکٹ ملنے سے پریشان تھے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود بھٹو حکومت بچ نہ سکی۔ اقتدار، محرومی اور اقتدار کے تین کونے مکمل ہوگئے۔ اب چوتھا کونا وہ تھا جسے محرومی کا نام دیا گیا ہے۔ یہاں پابند سلاسل بھٹو کا ایک قدم انھیں سیکولر تو بعدازموت پارٹی وخاندان کا ایک عمل انھیں اسلام پسند ثابت کر رہا ہے۔

راولپنڈی کی کوٹ لکھپت جیل میں قید بھٹو کو ایک اطلاع دی گئی۔ ایک نازک اطلاع دو اور تین اپریل کی درمیانی شب کو۔ سال 1979 تھا جو قدرت نے بھٹو کی طبعی زندگی کا آخری سال مقرر کیا تھا۔ انھیں چند گھنٹوں بعد ان کی زندگی کے چراغ کو گل کرنے کی خبر پہنچائی گئی۔ بھٹو نے شیو کا سامان منگوایا کہ ’’میں ملا کی طرح مرنا نہیں چاہتا‘‘ بھٹو کا یہ قدم انھیں سیکولر ثابت کرتا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔