- نیب کا قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں غیر قانونی بھرتیوں کا نوٹس
- رضوان کی انجری سے متعلق بڑی خبر سامنے آگئی
- بولتے حروف
- بغیر اجازت دوسری شادی؛ تین ماہ قید کی سزا معطل کرنے کا حکم
- شیر افضل کے بجائے حامد رضا چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نامزد
- بیوی سے پریشان ہو کر خودکشی کا ڈرامہ کرنے والا شوہر زیر حراست
- 'امن کی سرحد' کو 'خوشحالی کی سرحد' میں تبدیل کریں گے، پاک ایران مشترکہ اعلامیہ
- وزیراعظم کا کراچی کے لیے 150 بسیں دینے کا اعلان
- آئی سی سی رینکنگ؛ بابراعظم کو دھچکا، شاہین کی 3 درجہ ترقی
- عالمی و مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں اضافہ
- سویلین کا ٹرائل؛ لارجر بینچ کیلیے معاملہ پھر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھیج دیا گیا
- رائیونڈ؛ سفاک ملزمان کا تین سالہ بچے پر بہیمانہ تشدد، چھری کے وار سے شدید زخمی
- پنجاب؛ بےگھر لوگوں کی ہاؤسنگ اسکیم کیلیے سرکاری زمین کی نشاندہی کرلی گئی
- انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے پی ایچ ایف کے دونوں دھڑوں سے رابطہ کرلیا
- بلوچ لاپتہ افراد کیس؛ پتہ چلتا ہے وزیراعظم کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ
- چوتھا ٹی20؛ رضوان کی پلئینگ الیون میں شرکت مشکوک
- ایرانی صدر کا دورہ اور علاقائی تعاون کی اہمیت
- آئی ایم ایف قسط پیر تک مل جائیگی، جون تک زرمبادلہ ذخائر 10 ارب ڈالر ہوجائینگے، وزیر خزانہ
- حکومت رواں مالی سال کے قرض اہداف حاصل کرنے میں ناکام
- وزیراعظم کی وزیراعلیٰ سندھ کو صوبے کے مالی مسائل حل کرنے کی یقین دہانی
انٹرنیٹ پر جعلی تصاویر کا پتا چلانے والی ویب سائٹ
واشنگٹن: انٹرنیٹ تازہ اور خبروں کا آسان ذریعہ ہے جس تک سب کی رسائی ہے لیکن اکثر تصاویر جھوٹ کا ملغوبہ ہوتی ہیں جنہیں پہچاننا مشکل کام ہوتا ہے تاہم ایک ویب سائٹ نے یہ کام آسان کردیا ہے۔ اب کوئی جعلی تصویر بچ نہیں سکے گی۔
سوشل میڈیا کے استعمال کے دوران بارہا چونکا دینے والی تصاویر سے سامنا ہوتا ہے جبکہ بعض تصاویر اپنی ہیئت اور منظر کشی کے باعث حیرانی میں مبتلا کردیتی ہیں اور دل کہتا ہے کہ تصاویر سچی ہیں لیکن دماغ انہیں جھوٹا قرار دیتا ہے۔ اگر آپ دل و دماغ کی اس کشمکش سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ ویب سائٹ آپ کےلیے معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
’’فوٹو فارنزک‘‘ (fotoforensics.com) نامی یہ ویب سائٹ سائنس دان نیل کراویٹز نے 2012 میں تخلیق کی تھی جس کا سب سے بڑا خاصّہ اس کا آسان استعمال ہے۔ تصویر کی حقیقیت معلوم کرنے کےلیے تصویر کو یا تصویر کے لنک کو ویب سائٹ کی مخصوص سرچ بار میں ڈالیے اور صرف ایک کلک سے نتیجہ حاصل کرلیجیے۔ ویب سائٹ کا الگورتھم تصویر کو چھوٹے سے چھوٹے ٹکڑوں میں تبدیل کرکے فوراً بتادیتا ہے کہ وہ اصلی ہے یا نقلی۔
سمجھنے کے لیے نو آموز افراد کے لیے کچھ مثالیں ہیں۔ نیچے شمالی کوریا کے ڈکٹیٹر کم جونگ ان کے ہاتھ میں ایک فلاپی ڈسک دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ تصویر جعلی ہے کیونکہ کم پر آنے والی روشنی کا زاویہ فلاپی کی روشنی سے مختلف ہے جسے ای ایل اے نے بڑی مہارت سے آشکار کیا ہے۔
یہ ویب سائٹ کسی خردبین (مائیکرو اسکوپ) کی طرح کام کرتی ہے اور تصویر کے ڈیزائن میں وہ پوشیدہ خدوخال بھی سامنے لے آتی ہے جنہیں انسانی آنکھ دیکھنے سے قاصر ہوتی ہے۔ اس کےلیے فوٹو فرانزک ویب سائٹ ایک خاص طریقہ استعمال کرتی ہے جس میں اغلاط کی شرح کا تجزیہ (Error Level Analysis) کرتے ہوئے تصویر کے کناروں، بناوٹ اور سطح کے باریک حصوں کا بھی جائزہ لے لیتی ہے جنہیں انسانی آنکھ سے دیکھنا ناممکن ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ویب سائٹ کا یہی تجزیاتی ٹول تصویر کے میٹا ڈیٹا کا بھی تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کے تحت ویب سائٹ پتا چلا لیتی ہے کہ تصویر میں پہلی مرتبہ ترمیم کب کی گئی تھی اور آیا تصویر کو ایڈٹ کرنے کےلیے فوٹو شاپ وغیرہ کا استعمال کیا گیا تھا یا براہ راست کیمرے کے ذریعے ہی اسے ایڈٹ کرلیا گیا تھا۔ اگر تصویر کو ایک سے زائد بار ایڈٹ کیا گیا ہے تو ویب سائٹ اس کی نشاندہی کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
جولائی 2017ء میں ایک تصویر بہت وائرل ہوئی تھی جس میں ربڑ کی بطخ کو ایک گاڑی میں پگھلتے دکھایا گیا ہے۔جب اس پگھلی ہوئی بطخ کی تصویر کو ویب سائٹ پر رکھ کر اس کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ اسے بہت مہارت سے فوٹو شاپ کیا گیا تھا۔ تاہم پگھلی ہوئی بطخ کی تصویر درست تھی جس کے لیے ویب سائٹ نے اضافی معلومات بھی فراہم کی ہے۔ مثلاً اس میں میٹا ڈیٹا کا ایک ٹول ہے جو یہ دیکھتا ہے کہ تصویر فوٹوشاپ سافٹ ویئر سے لی گئی ہے یا براہِ راست کیمرے سے کھینچی گئی ہے۔
یہ ویب سائٹ ایک طرح کی خردبین ہے جو کسی تصویر میں چھپی تفصیل کو ظاہر کرتی ہے۔ ویب سائٹ میں لنک یا اپ لوڈ کے ذریعے تصویر شامل کرنے کے بعد وہاں الگورتھم تصویر کو اس طرح دکھاتا ہے کہ آپ اس سے اپنے نتائج خود اخذ کرسکتے ہیں۔ اس طرح تصاویر کی کمپریشن، روشنی اور کناروں کو جائزہ لے کر ان کے اصلی یا نقلی ہونے کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ وائرل تصاویر میں درجنوں سے لے کر سینکڑوں تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ تاہم اس کے لیے پہلے اس ویب سائٹ کو سمجھنا ضروری ہوگا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔