پاکستانی جمہوریت کی کہانی، آوارہ بکرے کی زبانی

شہباز علی خان  منگل 13 مارچ 2018
شیرو اس بار چرتے چرتے ایک ایسی سرزمین جا پہنچا جس کا نام پاکستان تھا۔ فوٹو: انٹرنیٹ

شیرو اس بار چرتے چرتے ایک ایسی سرزمین جا پہنچا جس کا نام پاکستان تھا۔ فوٹو: انٹرنیٹ

آج جب پپو گیدڑ نے اپنی سیلفیاں اپ لوڈ کرنے کےلیے سوشل میڈیا کی ویب کھولی تو اس میں سرِفہرست شیرو کے پیغامات تھے جس نے اپنی واپسی کا عندیہ دیا تھا۔ یہ خبر سنتے ہی اس نے اپنے اینڈرائیڈ سیل فون سے جنگل کے سارے جانوروں کو وٹس ایپ پر میسجز بھیجنا شروع کر دیے اور شیرو کے واپس آنے کی اطلاع دیکھتے ہی دیکھتے سارے جنگل میں پھیل گئی۔ سب نے بے صبری سے اس کا انتظار شروع کر دیا کیونکہ جب بھی شیرو جنگل لوٹتا تھا تو اس کے پاس ساری دنیا کے قصے کہانیاں ہوتی تھیں جسے وہ محفل سجا کر سب کو سناتا اور یوں جنگل کے باسیوں کو بین الا اقوامی برادری کے حالات و واقعات سے آگاہی ہوتی رہتی۔

شیرو کا پس منظر بتاتا چلوں۔ اس کا شمار راجن پوری بکروں کی اعلیٰ نسل میں ہوتا تھا۔ اس کا باپ جو ایک منجھا ہوا بیوروکریٹ تھا اور ہر سیاسی دور میں کبھی وفاق میں تو کبھی صوبے میں کوئی نہ کوئی محکمہ سنبھال لیتا تھا، اس نے برادری کے چندرے سے چندرے، اندھے، لولے لنگڑے اور گونگے بہرے بکروں کو ایوانوں کی چراگاہوں تک پہنچا تے ہوئے سب کو کسی نہ کسی عہدے سے چپکا دیا تھا۔ مگر اس کے اپنے سگے بیٹے شیرو کے سامنے اس کے تمام فارمولے ناکام ہو گئے تھے اور اس نے سیاست کی خاردار جھاڑیوں میں سینگ پھنسانے کی بجائے آوارہ گردی کو اپنا منشور بنایا اور یوں اسے برادری نے باغی قرار دے کر اپنی بزنس کمیونٹی سے باہر نکال دیا تھا۔

مقررہ دن سارا پنڈال سجا ہوا تھا، سب کی نظریں اس خصوصی راستے پر تھیں جہاں سے شیرو کی آمد ہونا تھی، انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور شیرو چھلانگیں لگاتا پنڈال کے مرکزی حصہ میں داخل ہوا۔ شیرو نے مرکزی کرسی پر بیٹھتے ہی ہیلو ٹیسٹنگ ہیلو ٹیسٹنگ کر کے مائیک کو ایڈجسٹ کیا اور سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بولنے لگا:

اے میرے معصوم، بے ضرر، بے زبان ساتھیو!

اس بار میں چرتے چرتے ایک ایسی سرزمین جا پہنچا جس کا نام پاکستان تھا۔ وہاں میں نے عجیب نظارے دیکھے جو اس سے پہلے میں نے کسی سرزمین پر نہیں دیکھے تھے۔ جہاں کے حکمران اسے جمہوریہ کا نام دے کر جدید باشاہت سے کاروبارِ سلطنت چلاتے ہیں۔ جہاں بہت سے ادارے بھی تھے اور بہت سی سیاسی پارٹیاں بھی۔ ان میں تفریق کرنا جان جوکھوں کا کام تھا، اس لیے میں نے زیادہ ریسرچ نہیں کی کہ کوئی فائدہ نہیں۔

میرے بھائیو! وہاں کی سب سے نرالی چیز یہ تھی کہ سب پھل دار درختوں پر بیٹھے پہلے تو پھل توڑ توڑ کر کھاتے، اور پھر بیٹھے بیٹھے اسی شاخ کو کاٹنا شروع کر دیتے؛ اور جب دھڑام سے گرتے تو ساتھ والے شاخ پر بیٹھے بندے کو پتھر مارنا شروع کر دیتے۔ ساتھ والا پہلے تو توجہ ہی نہ دیتا، پھر ایک دم نیچے دیکھ کر اگلی شاخ والے سے لڑنا شروع کر دیتا۔ وہاں انسان کو انسان نہیں، ووٹر، اور وہ بھی جاہل ووٹر سمجھا جاتا ہے۔ ( ویسے آپس کی بات ہے، ٹھیک ہی سمجھا جاتا ہے) اور ان کی زندگی دکھوں سے بھرپور ہے اور مسائل نے ان کی زندگی کو اور بھی کم کر کے رکھ دیا ہے۔

وہاں کی زرخیز زمین اتنی وافر مقدار میں خوراک پیدا کرسکتی ہے کہ اگر آبادی موجودہ مقدار سے بڑھ بھی جائے تو ابھی انہیں وافر خوراک مل سکے۔ ہم جانور خوش نصیب ہیں کہ ہم فقط جانور ہی ہیں، ہم میں کوئی گدھا، کوئی بندر، کوئی ٹٹو اور کوئی خچر۔۔۔، مگر ہیں تو ہم سب جانور ہی ناں، جو جنگل میں آزاد پھرتے ہیں۔ مگر وہ ذات برادری، مذہب، سیاست، طاقت اور حاکمیت کے دڑبوں میں قید ہے۔ جس کے پاس پیسہ ہے وہ پیسہ کمانے کی بجائے بنانے میں مست ہے، پھر اسے محفوظ رکھنے کےلیے  دندناتا ہوا ایوانوں میں جا گھستا ہے۔ ان کی تعداد گنتی کی ہے مگر اس نے بیس اکیس کروڑ انسانوں کو چھوٹے چھوٹے گروہوں اور ٹکڑوں کی صورت میں گن گن کر رکھا ہوا ہے۔ ان حکمرانوں کے پاس اپنے کئی سو کروڑ اور کئی سو ارب بچانے کی اسکیمیں گھومتی رہتی ہیں، مگر اکیس کروڑ رعایا کےلیے اتنی اسکیمیں نہیں ہیں۔ مگر قانون فطرت نے ان حکمرانوں کو بھی اب بانٹ دیا ہے، ورنہ پہلے تو سب کچھ طے ہوتا تھا کہ اب کس کی باری ہے اور اب کس کو جانا ہے۔

ابھی شیرو کی بات چل ہی رہی تھی کہ کسی جانور نے آواز لگائی کہ شام ہوگئی ہے، باقی کا سفر نامہ کل سہی۔ یہ سنتے ہی شیرو نے پاس پڑے چارے میں منہ مارنا شروع کر دیا اور پس منظر میں جنگل گیت بجنے لگے۔ سب نے اپنی اپنی راہ لی۔ اتنے میں پپو بھالو نے اپنے ساتھی سے کہا:

’’یار مجھے تو لگتا ہے کہ انسان کے دن اب گنتی کے رہ گئے ہیں۔ میرے بزرگ کہا کرتے تھے کہ ایک وقت تھا جب زمین پر انسان کا شر بہت بڑھ گیا تھا۔ تب خالق کی طرف سے اعلان ہوا تھا کہ دنیا کو مٹا دیا جائے، بلکہ چوپائیوں اور پرندوں کو بھی ختم کر دیا جائے۔ وہ انسان کے اعمال کی وجہ سے ناراض ہو گیا اور تب اس نے کشتی بنانے کا حکم دیا تھا۔ مگر اب تو ویسا کوئی حکم بھی نہیں آئے گا۔ ہائے رے انسان ہائے۔‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شہباز علی خان

شہباز علی خان

آپ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹر ہیں، اور فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔