روایت پرستی، ایک ازلی زہر

سید آفاق علی  جمعرات 15 مارچ 2018
روایت پرستی، خود پسندی، خود غرضی اور اپنے کامل ہونے کی سوچ میں گہرا تعلق دیکھا جاسکتا ہے۔
فوٹو: انٹرنیٹ

روایت پرستی، خود پسندی، خود غرضی اور اپنے کامل ہونے کی سوچ میں گہرا تعلق دیکھا جاسکتا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

سقراط کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والا زہر روایات کے بدبودار مادے سے ہی کشید کیا گیا تھا جو اس قدر تاثیر بھی نہ رکھتا تھا کہ وہ سقراط جیسے آزاد انسان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو ختم کرسکے۔ اور یہی وہ سقراط تھا جس کا کہنا تھا کہ جسم کی موت روح کا خاتمہ نہیں بلکہ اس کی آزادی کی ایک راہ ہے، لہذا موت سے ڈرنا حماقت ہے۔

تاریخ انسانی گواہ ہے کہ روایت پرستی وہ زہر ہے جو ازل سے ہی حضرت انسان کی فطری رگوں میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ اس کی شدید نوعیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی روایات کے سبب اشرف المخلوقات نے ایک دوسرے کا خون اپنے چہرے پر ملتے ہوئے فتح محسوس کی۔ انسانیت کی تاریخ میں شاید سب سے سنگین جرم یہی ہے کہ عقل و فہم کی محبت میں منطق جیسے خوفناک آلہ قتل سے کسی روایت کا سر کاٹا جائے، لیکن یہی سر کاٹنا بعد میں دنیاوی ذلت و رسوائی کاٹنے کا سبب بنتا ہے۔

صدیوں سے یہ بات عام طور پر محسوس کی جاسکتی ہے کہ حالات اور زمانے کے تقاضے لوگوں کو جس شدت کے ساتھ متاثر کرتے ہیں، اتنی ہی تیزی کے ساتھ وہ جانتے ہوئے یا نہ جانتے ہوئے بھی اجتماعیت کا شکار ہونے کے بعد مخصوص حالات میں مخصوص عمل کی توقع کرنے لگتے ہیں۔

یہ تو حالت ہے ابتداء کی، لیکن جیسے جیسے عرصہ گزرتا ہے ایک عجیب تماشا ظاہر ہوتا ہے جو بہت عام ہے؛ اور وہ یہ کہ اس طریقے پر عمل کرنے والوں کی تعداد دن گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوگ روایات کو جائیداد اور مال کی طرح وراثت میں اپنی نسلوں کے دامن میں ڈالتے ہیں اور وہ انہیں باپ دادا کی معتبر میراث سمجھتے ہوئے اس طرح قبول کرتے ہیں کہ جیسے حالات نے ان کی عقل پر پردہ ڈالتے ہوئے شعور کی عصمت دری کرنے کا ارادہ کیا ہو۔

اب تک شاید ہی زندگی کا کوئی ایسا پہلو باقی رہا ہو کہ جو اجتماعیت کی اس خوفناک غنڈہ گردی شکار نہ ہوا ہو۔ غرض کہ ہر طریقے سے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ زندگی کے ایک ایک قدم پر ایک آزاد انسان کی راہ میں روایتی طریقوں کی رکاوٹیں کھڑی کردی جائیں۔

اجتماعیت بذات خود اس قدر بری نہیں لیکن اس کا یہ منفی اثر اس کی اچھائی کو ختم کرنے کےلیے کافی ٹھہرایا جاسکتا ہے کہ روایت پرستی خیالات سے لے کر آزادی رائے تک، ہر انفرادی معاملے کو اپنی لپیٹ میں لینے کےلیے ہر وقت آمادہ رہتی ہے۔ انسان کی خلقت بھی کچھ کم عجیب نہیں جو ان مسائل کے، جو اس کی ذات سے براہ راست تعلق رکھتے ہوں، حصول کےلیے ذہنی طور پر نئے طریقے کا متلاشی رہتا ہے۔ لیکن جب وہ نئی چیز ظاہر ہوتی ہے تو اس پر اپنی سوچ کی قید لگاتے ہوئے اس کی مخالفت میں بھی کوئی کمی نہیں چھوڑتا اور ہرگز یہ خیال نہیں کرتا کہ جس نے اسے پیش کیا ہے وہ بھی عقل، خیالات، احساسات اور جذبات کا مالک ہے۔

روایت پرستی، خود پسندی، خود غرضی اور اپنے کامل ہونے کی سوچ میں گہرا تعلق دیکھا جاسکتا ہے اور روایات پر عمل درآمد کی شدید خواہش اکثر اوقات انسان کو اس مقام پر لا کھڑا کرتی ہے جہاں اسے اپنے علاوہ ہر کوئی ناقص نظر آتا ہے اور اس کا مقصد حیات فقط ذاتی اغراض و مقاصد کی تکمیل کے گرد چکر لگاتا رہتا ہے۔

روایت بعض اوقات کسی مخصوص وقت کی ضرورت بھی ہوسکتی ہے جیسا کہ اگر کسی علاقے میں چوری کا خدشہ ہو تو وہاں کے افراد ہر رات اپنی باری کے مطابق علاقے کا پہرا دیں، لیکن یہ ایک مخصوص زمانے تک محدود رہے تو حرج نہیں۔ کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے جو کسی کےلیے باعث ضرر ثابت نہ ہوگی جبکہ اس کے برعکس ایسی روایات بھی تاریخ کو مسخ کرتی رہی ہیں کہ جو زمانے کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت تھیں۔

یہی وجہ رہی کہ علم و حکمت کے کئی گوہر نایاب اس بات پر مجبور ہوئے کہ حقیقت کے اظہار کی بقاء کےلیے اپنے وجود کو قربان کر سکیں، اور تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ کیسے قدیم افراد ان پر یقین رکھتے تھے۔ کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ انسان کی ذات میں تبدیلی، حالات کے پیش نظر آتی ہے۔ اسی طرح جب تک کوئی ایسی آواز بلند نہ ہو کہ جو روایت پرستی کا گلا گھونٹ سکے، تب تک یہ حالت تبدیلی کی منزل سے کوسوں دور رہتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید آفاق علی

سید آفاق علی

بلاگر انگریزی زبان اور علومِ اسلامی کے طالب علم ہیں جبکہ ادب، فلسفہ اور ادیان عالم سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں نیز سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور پاکستانی معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کےلیے کوشاں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔