بل یا کھانا پینا

عبدالقادر حسن  منگل 13 مارچ 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

چند دن گزرے ایک دل جلے بلکہ صاحب دل بجلی کے ایک افسر اعلیٰ سے اچانک ملاقات ہو گئی، میں نے چھوٹتے ہی ان پر بجلی کی ترسیل اور مہنگائی کے متعلق پے در پے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی ۔ میرے سوالات کا تسلی بخش جواب تو ان کے پاس نہ تھا لیکن ایک درد دل رکھنے والی پاکستانی شہری کے طور پر انھوں نے کہا، میں کیا بتاؤں کہ لوگ کس قدر پریشان ہیں، ان کی جمع پونجی ختم ہو چکی ہے بلکہ اب تو جمع کرنے کا تصور بھی ختم ہو چکا کہ مہینہ بھر کے بعد کچھ بچے گا تو جمع کرنے کی نوبت آئے گی۔

مشکل وقت کے لیے جو تھوڑا بہت مال بچا کر رکھا گیا، سب بجلی کے بل کھا گئے اور ابھی تو سردیاں ہیں گرمیوں کا آغاز ہونے والا ہے اور پھر جو حالت ہو گی اس سے ہم سب آگاہ ہیں کہ یہ سب کچھ ہم ہرسال بھگت رہے ہیں اور اس کے بارے میں واویلہ بھی کرتے ہیں مگر ہماری التجائیں کوئی سننے والا نہیں اور ہم بجلی کے محکمہ کے رحم و کرم پر ہیں۔

حقیقت کی اگر بات کی جائے تو عوام کے پاس بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے لیے پیسے نہیں، اگر وہ کھانے پینے پر اخراجات کرتے ہیں تو بلوں کے لیے پیسے نہیں بچتے یا تو عوام کھانا پینا چھوڑ دیںاور صرف بجلی پر گزارا کریں لیکن یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ انسانی جان کے بھی کچھ تقاضے ہیں،کچھ امید اگر ہوتی ہے تو وہ حکومت سے کہ شائد اس کو ہی رحم آجائے اور بجلی کے نرخ کم ہو جائیں لیکن حکومت نے تو پہلے سے ہی یہ طے کر رکھا ہے کہ بجلی بلوں اور تیل کی قیمتوں میںاضافہ کر کے اپنی عیاشیاں جاری رکھنی ہیں اور یہ سب کچھ عوام کی جیب سے ہی نکلتا ہے اور سیدھا حکومت کو منتقل ہو جاتا ہے۔

عوام تو اب اس حد تک بھی کہتے پائے جا رہے ہیں کہ سردیوں میں چونکہ بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوئی لیکن بجلی کے بلوں نے اپنا اصل دکھا دیا، اب اگر گرمیوں میں بھی لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی تو بل کہاں سے ادا کیے جائیں گے اس سے تو لوڈشیڈنگ ہزار درجے بہتر تھی، اندھیرا گوارا تھا دیا جلا کر گزارا کیا جا سکتا تھا مگر ان ظالموں سے کوئی پوچھے کہ تم نے ایسے ایسے معاہدے کیے کہ قوم سے اس کا آخری پیسہ بھی چھین کر غیر ملکیوں کو دے دیا۔ جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو ان کے مطابق بجلی کے گردشی قرضے تقریباً پانچ سو ارب کے لگ بھگ تھے جو  یک مشت ادا کر دیے گئے۔

عوام اوراپوزیشن شور مچاتی رہ گئی لیکن آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ یہ پانچ سو ارب کی رقم کس کس کو ادا کی گئی بلکہ اس کی ادائیگی کرنے والے ہمار ے سابق وزیر خزانہ بیمار ہو کر لندن پہنچے ہوئے ہیں اور ستم ظریفی اور لطیفہ یہ ہے کہ اسپتال کے بستر سے ہی سینیٹر بھی منتخب ہو گئے ہیں لیکن وطن واپس آکر اپنے اوپر لگائے گئے کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے سے گریزاں ہیں۔ تازہ خبر یہ ہے کہ پچھلے پانچ سالو ں میں بجلی کا گردشی قرضہ نو سو بائیس ارب ہو چکا ہے۔گرمیوں کی آمد آمد ہے، عالمی معاہدوں کے تحت بجلی پیدا کرنے والے کارخانے بھاری قرضے کے باوجود بجلی کس طرح بنائیں گے تا کہ حکومت کا لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ سچ ثابت ہو سکے۔

گرمیوں میں ماہ رمضان کا مقدس مہینہ بھی ہو گا، اس وقت الیکشن کی گہما گہمی بھی ہو گی، عوام نئے حکمران منتخب کرنے کے عمل سے گزر رہے ہوں گے اور اگر عوام کو زیادہ گرمی لگ گئی تو حکمران عوام کی جانب سے ٹھنڈی ہوا کی امید نہ ہی رکھیں تو بہتر ہے اور گرمی کے آنے والے موسم میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جمہوریت نام ہی عوام کا ہے اور عوام کی طاقت سے کچھ بھی ممکن ہے۔ میں جب یہ باتیں سن رہا تھا تو مجھے اپنی سفید پوشی کا بھرم روک رہا تھا ورنہ میری حالت کسی عام پاکستانی سے بہتر نہ تھی۔

حکمران طبقے کے لیے بھی اگرچہ بجلی کا بل کوئی معنی نہیں رکھتا، انھیں معلوم بھی نہیں ہو گا کہ ان کا بل کتنا آتا ہے یا وہ کیا ہوتا ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر تو حکومتی مراعات کے تحت زندگی گزار رہے ہوتے ہیں جس میں سب کچھ شامل ہوتا ہے اور یہ سب کچھ ہم عوام کے ٹیکسوں سے جا رہا ہوتا ہے۔

ان کی گاڑیاں آپ کے اور میرے ٹیکسوں سے حاصل کیے گئے پٹرول سے چل رہی ہوتی ہیں، ائر کنڈیشنر کی ٹھنڈی ہوا سے بھی عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈال کر ہی مزہ لیا جارہا ہوتا ہے یعنی حکمران عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈال کر پل رہے ہیں۔ ہر پاکستانی کے گھر میں حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔

بجلی کے وزیر نے ابھی سے اعلانات شروع کر دئے ہیں کہ جہاں بجلی چوری ہوتی ہے وہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو گی اور اس کے جو اعداد وشمار بتائے جا رہے ہیں اس میں تقریباً آدھا ملک شامل ہے یعنی ہمارے انتظامی حالت یہ ہے کہ ہم ابھی تک چور کو چوری سے نہیں روک سکے لیکن اس کی سزا بجلی کے مہنگے بل دینے والوں کویہ دی جارہی ہے کہ وہ اس چوری کا بل بھی دیں گے لیکن چور پھر بھی بجلی استعمال کریں گے چاہے وہ کم ہی کریں یعنی ان کو سزا صرف یہ دی جائے گی کہ وہ بجلی لوڈشیڈنگ کے ساتھ استعمال کریں گے بجائے چوری روکنے کے یہ ایک نئی منطق نکالی گئی ہے۔

بجلی ایک ایسی نعمت ہے جو پورے ملک میں قریباً ہر جگہ موجود ہے اس لیے جس قدر بجلی سے عوام متاثر ہوتے ہیں اتنے کسی اور چیز سے نہیں چنانچہ جانے والی حکومت کو عام انتخابات میں جانے سے پہلے عوام کے لیے بجلی کا سستا بندو بست کرنا ہوگا تا کہ انتخابات کے بعد حکومت میں ان کی واپسی کا راستہ کھل جائے، مہنگی بجلی تو عوام بھگت ہی رہے ہیں ۔

سنتے رہے کہ سولر بجلی سستی ہوگی اس کے لیے اربوں لگا کر سولر پارک بھی بنایا گیا لیکن جلد بازی کے باعث وہ بھی مطلوبہ نتائج نہ دے سکا اور اب برائے فروخت کا بورڈ آویزاں ہے۔ سننے میں آیا ہے اس کی آدھی قیمت بھی نہیں مل رہی ۔ ایسے منصوبوں کا کیا فائدہ جو رحمت کے بجائے زحمت بن جائیں اور حکومت کی برائیوں میں اضافہ کریں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔