سٹے بازی: پولیس سے بچنے کیلیے کوڈ ورڈز کا استعمال

اسپورٹس ڈیسک  ہفتہ 6 اپريل 2013
پٹنہ غیرقانونی جوئے کا نیا گڑھ ،آئی پی ایل میں روزانہ کروڑوں روپے دائو پر لگنے لگے. فوٹو: وکی پیڈیا

پٹنہ غیرقانونی جوئے کا نیا گڑھ ،آئی پی ایل میں روزانہ کروڑوں روپے دائو پر لگنے لگے. فوٹو: وکی پیڈیا

پٹنہ: بھارتی سٹے بازوں نے پولیس سے بچنے کیلیے کوڈ ورڈز کا استعمال شروع کردیا۔

پٹنہ غیرقانونی جوئے کا نیا گڑھ بن گیا، وائرلیس فونز کے ذریعے نیٹ ورک چلایا جارہا ہے، آئی پی ایل میں روزانہ کروڑوں روپے ادھر سے ادھر ہورہے ہیں، اس کا انکشاف ایک بھارتی اخبار نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کیا۔ پٹنہ بھی اب کرکٹ بیٹنگ میں ممبئی، حیدرآباددکن ، بنگلور اور جے پور کی طرح بڑی مارکیٹ بن چکا ہے۔ آئی پی ایل کے گذشتہ دو سیزنز میں یہاں پر کروڑوں روپے کا جوا ہوا اور اس بار تو سٹے بازوں نے آغاز سے ہی بڑے دائو کھیلنا شروع کردیے ہیں۔

بکیز جوا کھلانے کیلیے وائرلیس لوکل لوپ (ڈبلیو ایل ایل) استعمال کرتے ہیں جنھیں کوڈ ورڈ میں ’ڈبا‘ کہا جاتا ہے، اس کے لیے ہر ماہ تین ہزار روپے ادا کیے جاتے ہیں، یہ ڈبا بکیز کو آپریشنل سینٹرز کی جانب سے فراہم کیا جاتا ہے، پینٹرز اور بکیز اسی کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں، میچ کے آغاز سے قبل سیشن کے لیے ریٹ کھولا جاتا ہے، اس سے مراد پہلے دس اوورز میں بننے والے رنز سے ہوتی ہے، جب سیشن ختم ہو تو پھر ہر ڈلیوری پر دائو آفر کیے جاتے ہیں، سیمی فائنل اور فائنل میں سیشن پانچ اوورز تک محدود کردیا جاتا ہے۔

6

جو پنٹر لگاتار 6 دائو جیتے اسے ’سکسر‘ کہا جاتا ہے اس پر جیتی گئی رقم سے 20 فیصد زیادہ رقم ادا کی جاتی ہے۔ رقمیں بھی کوڈ ورڈ میں لگائی جاتی ہیں، 25 ہزار کے لیے کوارٹر اور 50 ہزار کیلیے ہاف کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ایک لاکھ لگانے پر فل کہا جاتا ہے۔ ایک بکی کا کہنا ہے کہ یہ سارا دھندہ کیش پر ہوتا ہے، جیتنے والی رقم میچ کے اگلے روز متعلقہ بکیز کو پہنچائی جاتی ہے جو آگے جوا کھیلنے والوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اس بارے میں سٹی پولیس کے سپرینٹنڈنٹ  جیانت کانٹ سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ وہ شہر میں اس قسم کے کسی سنڈیکیٹ سے واقف ہی نہیں،رپورٹر کی جانب سے فراہم معلومات پر انھوں نے کوئی بھی کارروائی سے صاف انکار کردیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔