’’ٹکٹ مانگ کر شرمندہ نہ کریں‘‘

سلیم خالق  منگل 13 مارچ 2018
بورڈ نے ڈیڑھ ارب روپے کا خطیر بجٹ رکھا اورکوشش یہی ہے کہ جس حد تک ممکن ہو اسٹیڈیم میں بہتری لائی جائے۔ فوٹو : فائل

بورڈ نے ڈیڑھ ارب روپے کا خطیر بجٹ رکھا اورکوشش یہی ہے کہ جس حد تک ممکن ہو اسٹیڈیم میں بہتری لائی جائے۔ فوٹو : فائل

’’سلیم بھائی پہچانا، میں آپ کے محلے میں رہتا تھا، سوری مصروفیات کی وجہ سے کئی برس بعد رابطہ کیا، اچھا وہ کراچی میں میچ ہونے والا ہے5 ٹکٹ کا تو بندوبست کر دیجیے گا‘‘

یہ اور اس قسم کی کئی کالز، پیغامات وغیرہ نہ صرف مجھے بلکہ کرکٹ سے تعلق رکھنے والی ہر شخصیت کو ان دنوں موصول ہو رہے ہیں،لوگ سمجھتے ہیں کہ صحافی ہونے کی وجہ سے ہمیں سیکڑوں مفت ٹکٹ ملیں گے جنھیں ہم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کرسکتے ہیں، حالانکہ یہ تاثر درست نہیں، اب تو ویسے بھی کئی برس بعد کراچی میں کوئی میچ ہوگا اور ٹکٹیں فوراً ہی فروخت ہو جائیں گی ایسے میں بورڈ کیوں فری پاسز دے گا؟

حیران کن بات یہ ہے کہ مالدار لوگ بھی چند ہزار روپے کا ٹکٹ خریدنے سے کتراتے اور مفت پاسز کا تقاضہ کرتے ہیں،اسی سے تنگ آ کر چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کو بھی اعلان کرنا پڑا کہ ’’کسی کو مفت پاس نہیں ملے گا‘‘ مگر اس کے باوجود ان پر اس حوالے سے خاصا دباؤ رہے گا،لگتا ہے اب ہمیں بھی یہ کہنا پڑے گا کہ ’’ٹکٹ مانگ کرشرمندہ نہ کریں‘‘۔

کراچی میں 9 برس بعد کوئی بڑا کرکٹ مقابلہ ہو رہا ہے، اس حوالے سے شائقین کا جوش وخروش آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا، کھیل سے محبت کرنے والے ہر شخص کی خواہش ہے کہ وہ نیشنل اسٹیڈیم میں25 مارچ کو پی ایس ایل کا فائنل دیکھے،ٹکٹس کی فروخت 15 مارچ کو شروع ہوگی مگر مجھے یقین ہے کہ چند گھنٹوں بعد ہی ’’سولڈ آؤٹ ‘‘ کا پیغام ویب سائٹ پر درج ہو جائے گا، نیشنل اسٹیڈیم میں 34 ہزار افراد کی گنجائش ہے، ان دنوں وہاں تزئین وآرائش کا کام جاری اور مین بلڈنگ میں واقع چیئرمین باکس وغیرہ بند رہیں گے۔

چند روز قبل میں جب اسٹیڈیم گیا تو وہاں تیزی سے کام جاری تھا، گوکہ ڈریسنگ روم سمیت کئی مقامات پر کام تقریباً مکمل ہو چکا مگر اب بھی کافی کچھ ہونا باقی ہے، چھت کے بغیر فائنل کا اعلان تو پہلے ہی ہو چکا، امید یہی ہے کہ میچ سے قبل بڑے کام مکمل کر لیے جائیں گے،گراؤنڈ بھی سرسبز حالت میں موجود ہے،اس سے قبل کئی برسوں سے تزئین و آرائش نہ ہونے کے سبب نیشنل اسٹیڈیم کھنڈر کا منظر پیش کر رہا تھا، اس میں راتوں رات بہتری لانا ممکن نہیں۔

بورڈ نے ڈیڑھ ارب روپے کا خطیر بجٹ رکھا اورکوشش یہی ہے کہ جس حد تک ممکن ہو اسٹیڈیم میں بہتری لائی جائے،اس سے قبل ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی صرف ایک شہر لاہور تک محدود تھی، زمبابوے اور ورلڈ الیون سے سیریز، پی ایس ایل فائنل اور سری لنکا سے میچ سب قذافی اسٹیڈیم میں ہی ہوئے، ایسے میں یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ بورڈ کراچی سمیت دیگر شہروں کو کیوں نظرانداز کر رہا ہے۔

اب اس شکایت کو دور کرتے ہوئے نہ صرف سپر لیگ فائنل بلکہ ویسٹ انڈیز سے تینوں ٹی ٹوئنٹی میچز کی میزبانی بھی نیشنل اسٹیڈیم کو سونپی گئی ہے، اگر اس کے مکمل تیار ہونے کا انتظار کرتے تو پھر پی ایس ایل فائنل کا یہاں انعقاد ممکن نہ ہوتا، ایسی صورت میں ویسٹ انڈیز سے میچز بھی کراچی میں نہ ہو پاتے کیونکہ تمام انتظامات کا جائزہ لیگ میچ سے ہی لیا جائے گا۔

اب ہم کراچی والوں پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، ماضی میں بھی سیکیورٹی بہت زیادہ ہوتی تھی اب اس میں مزید اضافہ وقت کی ضرورت بن چکا، لہذا ہمیں اس کیلیے تیار رہنا چاہیے، ممکن ہے بعض سڑکیں بند کرنا پڑیں، کئی بار تلاشی لی جائے۔

زیادہ پیدل چلنا پڑے، ہمیں یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑے گا، میں نے لاہور میں میچز کور کیے وہاں بھی یہی سب ہوتا ہے، ہمیں کراچی میں انٹرنیشنل کرکٹ واپس لانی ہے تو اس میں اپنا کردار بھی ادا کرنا ہوگا، اس سے قبل صرف لاہور میں میچز ہو رہے تھے ، اب کراچی بھی شامل ہو جائے گا، پھر راولپنڈی، ملتان ، فیصل آباد و دیگر شہروں میں بھی میچز کرائیں، اس سے مستقبل میں ہمارے ملک میں کرکٹ مکمل بحال ہو جائے گی۔

یو اے ای میں اس بار پی ایس ایل میچز میں کم کراؤڈ لمحہ فکریہ ہے، اس سے واضح ہو گیا کہ ایونٹ کی بقا کیلیے اسے مکمل طور پر پاکستان منتقل کرنا ضروری ہے،یقین مانیے ہمارے ملک میں تمام میچز میں اسٹیڈیم شائقین سے کھچا کھچ بھرا ہوا کرے گا، البتہ اس راہ میں کئی کانٹے بھی حائل ہیں۔

اس سال پلے آف میچز کا انعقاد لاہور اور فائنل کراچی میں ہونا ہے مگر کئی غیرملکی کھلاڑی پاکستان آنے سے انکار کر چکے، پورا ایونٹ ملک میں کرانے سے ممکن ہے کئی بڑے فارن اسٹارز کا ساتھ میسر نہ ہو، اس مسئلے سے بورڈ اور فرنچائزز کو بڑی احتیاط سے نمٹنا ہوگا، گوکہ زمبابوے اور سری لنکا کی ٹیمیں پاکستان آ چکیں، ویسٹ انڈیز بھی تیار ہے مگر انگلینڈ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کو سیکیورٹی پر قائل کرنا آسان نہیں، جب لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملہ نہیں ہوا تھا تب بھی یہ ٹیمیں دورے سے ہچکچاتی تھیں، اب تو اور نخرے کریں گی لہذا ہمیں جو ٹیمیں آ رہی ہیں انہی کو اتنی زبردست سیکیورٹی فراہم کرنی چاہیے کہ سب انتظامات سے متاثرہوں۔

اس سے چند برسوں میں دیگر سائیڈز بھی ٹورکرنے پر آمادہ ہوجائیںگی، بورڈ کو ابھی سے دیگر اسٹیڈیمز کی بھی تزئین وآرائش شروع کر دینی چاہیے تاکہ وقت پڑنے پر وہ میزبانی کیلیے تیار ہوں، کرکٹ کا کھیل قوم کو یکجا کرتا ہے، بدقسمتی سے موجودہ نوجوان نسل کو اپنے اسٹیڈیم میں بیٹھ کر میچز سے لطف اندوز ہونے کے زیادہ مواقع نہیں ملے، اب حالات بہتر ہو چکے کرکٹ واپس آ رہی ہے۔

ملک میں میچز ہوں گے تو شائقین میں کھیل کا شوق مزید بڑھے گا، اتنے عرصے تنہائی کے باوجود نیا ٹیلنٹ سامنے آتا رہا جب متواتر کرکٹ ہو گی تو مزید کھلاڑی ملیں گے، یو اے ای پر ہم نے بہت پیسہ خرچ کر دیا پاکستان اب اس کی ترجیحات میں بھی شامل نہیں،ایسے میں ضروری ہے کہ اپنے ملک میں جس حد تک ممکن ہومیچزکا انعقاد کیا جائے،اس سے نہ صرف اخراجات میں کمی ہو گی بلکہ آمدنی بھی بڑھے گی، ساتھ ہی شائقین کو بھی تفریح کے بھرپور مواقع ملیںگے۔

(نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔