- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
- پی آئی اے نجکاری، جلد عالمی مارکیٹ میں اشتہار شائع ہونگے
- صنعتوں، سروسز سیکٹر کی ناقص کارکردگی، معاشی ترقی کی شرح گر کر ایک فیصد ہو گئی
جدید سماجی رابطوں کا سفر
1990ء کی دہائی سے مواصلاتی ٹیکنالوجی انسانی روابط میں آسانیاں پیدا کر رہی ہے۔ اس تناظر میں ٹیکسٹ (Text ) اور انسٹینٹ میسیجنگ (Instant Messages) کی اہمیت کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتی۔
بظاہر یکساں دونوں اصطلاحات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ٹیکسٹ میسیجنگ میں صارفین موبائل کی مدد سے 160 حروف پر مبنی پیغام کسی بھی زبان میں لکھ کر ارسال کر سکتے ہیں۔ جب کہ انسٹینٹ میسیجنگ کمپیوٹر یا اسمارٹ فون کے ذریعے بھیجا جانے والا پیغام ہے، جس میں صارفین کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ اپنا پیغام بنا کسی مخصوص حد کے لکھنے کے علاوہ آڈیو اور ویڈیو کے ذریعے بھی بھیج دیں۔
انسٹینٹ میسیجنگ کی ابتدا چھبیس سال پہلے ہوئی جب بائیس سالہ برطانوی سوفٹ وئیر انجینئیر نیل پاپورتھ نے کمپیوٹر کے ذریعے تین دسمبر 1992ء کو پہلا پیغام ‘میری کرسمس’ رچرڈ جاروس کو بھیجا ۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ ایجاد سماجی رابطوں کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دے گی۔ تاہم اس وقت رچرڈ کے پاس یہ سہولت میسر نہیں تھی کہ وہ اس پیغام کا جواب بھیج سکے۔
اس کے بعد 1993ء میں نوکیا نے پہلے موبائل فون کا اجرا کیا، جس کے ذریعے ایس ایم ایس بھیجنے کے ساتھ ساتھ وصول بھی کیے جا سکتے تھے۔ اعداد و شمار کے مطابق ایک امریکی 1995 ء میں ایک ماہ میں تقریباً صفر اشاریہ چار پیغامات لوگوں کو بھیج رہا تھا، جب کہ 1996 ء میں صرف جرمنی میں ہی ایک کروڑ ایس ایم ایس بھیجے گئے۔اس سے ایس ایم ایس کی بڑھتی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
1996ء میں میں آن لائن سروس فراہم کرنے والی معروف اسرائیلی کمپنی ‘ میرابلیس ‘ نے آئی سی کیو کے نام سے ایک انسٹینٹ میسیجنگ سروس کا آغاز کیا جسے آن لائن چیٹنگ کے حوالے سے موجد مانا جاتا ہے۔ آئی سی کیو کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کی مدد سے مختلف لوگوں کو ان کے نام یا دیگر معلومات کی بنیاد پر ڈھونڈا جاسکتا تھا۔
1997ء میں امریکی کمپنی اے او ایل نے انسٹینٹ میسیجر ‘ اے آئی ایم ‘کی بنیاد رکھی جس نے شمالی امریکا میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ اے آئی ایم پہلی سروس تھی جس کی مدد سے دوستوں کی لسٹ رکھی جاسکتی تھی۔ آنے والے وقتوں میں اس میں وائس چیٹ کو بھی متعارف کرایا گیا۔یہ بچوں اور نوجوان نسل میں بے پناہ مقبول ہوئی۔
1998ء میں اے او ایل نے 287 ملین ڈالر میں میرابلیس سے آئی سی کیو میسیجنگ سروس خرید لی۔ ساتھ ساتھ یاہو نے اپنی میسنجر سروس کا آغاز ‘یاہو پیجر بیک’ کے نام سے کیا جس میں موجود آن لائن چیٹنگ رومز کی مدد سے صارفین دنیا بھر میں موجود لوگوں سے بہ آسانی رابطہ کر پاتے تھے۔
1999ء میں مائیکروسوفٹ کمپنی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس نے ’’ایم ایس این میسنجر‘‘ نامی پہلی سروس کا آغاز کیا جو مختلف آپریٹر اور نیٹ ورک کے درمیان پیغامات بھیجنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ 2002ء کے اعداد و شمار کے مطابق لگ بھگ 250 بلین ایس ایم ایس دنیا بھر میں بھیجے جا رہے تھے۔ 2002 میں پہلی جی ایس ایم سروس متعارف کرائی گئی۔ ساتھ ساتھ تصویری پیغام ‘ ایم ایم ایس’ بھیجنے کی سروس کا بھی آغاز کیا گیا۔ 2003ء میں اسکائپ منظر عام پر آیا جس نے برقی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا۔ اسکائپ کی مدد سے لوگ بآسانی سات سمندر دور بیٹھے شخص سے بنا کسی اضافی معاوضے کے انسٹینٹ میسیجنگ کے ساتھ ساتھ آڈیو اور ویڈیو چیٹنگ بھی کر سکتے تھے۔
2003ء میں سماجی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے مختلف ویب سائٹ منظر عام پر آئیں جن میں ‘لنکڈن’، ‘ہائی فایؤ’ اور مائی اسپیس قابل ذکر ہیں۔ لنکڈن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ وہ پہلی ویب سایٹ ہے جس کو سماجی اور معاشی دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے بنایا گیا۔ہارورڈ یونیورسٹی کے انیس سالہ طالب علم، مارک زکربرگ نے اپنے ہاسٹل کے کمرے میں کچھ دوستوں کی مدد سے 2004ء میں فیس بک کی بنیاد رکھی، جس نے سماجی رابطوں کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ اس ایجاد کا مقصد یونیورسٹی کی طالبات کو ایک پلیٹ فارم پہیا کرنا تھا جہاں وہ آسانی سے ایک دوسرے سے رابطہ کر سکیں۔
2005ء میں گوگل نے’ گوگل ٹاک ‘کے نام سے اپنی ایک سروس کا آغاز کیا، جس میں ‘جی میل’ کی سروس بھی شامل تھی۔ اس کی مدد سے انسٹینٹ میسج بھیجنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے پاس یہ سہولت میسر آ گئی کہ وہ بذریعہ ای میل بھی اپنا پیغام دوسرے صارفین تک بھیج سکیں۔
2009ء میں واٹس ایپ کی ایجاد نے نہ صرف باہمی فاصے مٹائے بلکہ ملکی ترقی کے ساتھ ساتھ سماجی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی مباحثوں میں فروغ کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ وٹس ایپ کی مدد سے صارفین ایک دوسرے کو تحریری، آڈیو اور وڈیو پیغامات بھیج سکتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کا مقصد لوگوں کو فری پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا جس کی مدد سے وہ ایک دوسرے کو بنا کسی اضافی معاوضے کے لا تعداد پیغامات بھیج سکیں۔ یہ نوجوان نسل میں بے پناہ مقبول ہے۔ 2010ء میں تصویروں کی اہمیت مد نظر رکھتے ہوئے انسٹاگرام وجود میں آیا ۔ 2011ء میں اسنیپ چیٹ اور وی چیٹ متعارف کرائے گئے جس میں موجود مختلف نئے فیچر لوگوں کی دل چسپی کا باعث بنے۔
گزرتے وقت کے ساتھ مختلف ٹیکنالوجیوں کی دریافت نے زمینی فاصے سکیڑ کر نئے جدید دور کی بنیاد رکھی ہے۔اب بعض اوقات سات سمندر دور بیٹھے لوگ ان لوگوں کی بہ نسبت زیادہ قریب ہو جاتے ہیں جو ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے دوریاں اور فاصلے ختم کر کے سماجی رابطوں کے لیے ایک نئی راہ ہموار کی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بدلتے وقت کی ضروریات کے پیش نظر ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال کیا جائے تاکہ آنے والے وقتوں میں دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلا جا سکے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔