اب انسان روبوٹ کا مقابلہ کھیل کے ذریعے کریں گے

سید عاصم محمود  منگل 13 مارچ 2018

پاکستان میں اس عجوبے نے ابھی جنم نہیں لیا مگر مغربی ممالک میں یہ سامنے آچکا ۔ وہاں مصنوعی ذہانت (Artificial intelligenc) کے باعث ہزاروں لاکھوں انسانوں کی ملازمتیں ختم ہونے کا خدشہ ہے۔ ظاہر ہے، اگر مصنوعی ذہانت سے مالا مال روبوٹ یا مشینی انسان بہت سے انسانی کام کرنے لگے تو انسانوں کی ضرورت نہیں رہے گی جنھیں آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں چھٹی درکار ہے اور تنخواہ بھی!

چند برس قبل تک روبوٹ مخصوص کام ہی کرسکتے تھے۔ مثلاً کسی کو گلاس پکڑا دینا یا زیادہ سے زیادہ جھاڑ پونچھ کرنا مگر اب وہ انسانوں کی باتوں کے جواب بھی دینے لگے ہیں۔ گویا ان میں بھی ’’سوچ‘‘ کا مادہ جنم لے چکا جو بہت بڑا انقلاب ہے۔ یہ انقلاب اس لیے آیا ہے کہ ایک تو کمپیوٹر پروسیسنگ کی رفتار بڑھ گئی۔ دوسرے ایسے جدید ترین سافٹ ویئر سامنے آگئے جو انسانی ذہن کے بعض اعمال کی نقالی کرسکیں۔ چنانچہ کمپیوٹر اور سافٹ ویئرز کے اشتراک سے شعبہ مصنوعی ذہانت اب سرعت کے ساتھ ترقی کررہا ہے۔

مصنوعی ذہانت کی سائنس اس نظریے پر استوار ہوئی کہ انسانی دماغ یا ذہن کی ہوبہو نقل بنالینا ممکن ہے مگر یہ کام انتہائی کٹھن ہے کیونکہ کرہ ارض پر انسانی دماغ ہی سب سے زیادہ پُراسرار اور عجیب و غریب شے ہے۔ سائنس بے پناہ ترقی کے باوجود انسانی دماغ کے بہت سے اسرار نہیں جان پائی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کمپیوٹر پروسیسنگ کی رفتار میں مسلسل اضافے کی وجہ سے ماہرین کے لیے ممکن ہوچکا کہ وہ ’’سپر کمپیوٹر‘‘ بناکر انسانی دماغ کا طلسم ہوشربا مسخر کرسکیں۔

یہی وجہ ہے، آئے دن انسانی دماغ میں کارفرما نیورونز (دماغی خلیوں) اور نظام چلانے والے دیگر ننھے منے جانداروں کے متعلق انکشافات ہونے لگے ہیں۔ ماہرین مستقبلیات کا تو دعویٰ ہے کہ اگلے 50 برس میں انسان اپنے دماغ کی ہوبہو نقل تیار کرلے گا۔ مزید برآں آنے والے وقت میں یہ بھی ممکن ہوگا کہ قریب المرگ آپ کے کسی پیارے مثلاً دادا، والد یا والدہ کا سارا دماغ کاپی کرکے ایک روبوٹ میں رکھ دیا جائے۔ یوں پھر دادا یا والد اس روبوٹ کی صورت شاید ہمیشہ زندہ رہیں۔

مصنوعی ذہانت سے مالامال روبوٹ یا مشینی انسان یقینا انسانیت کو فوائد بھی بہم پہنچائیں گے مگر بہت سے ماہرین خصوصاً عصر حاضر میں سب سے ذہین سمجھے جانے والے سائنس داں، اسٹیفن ہاکنگ کو خطرہ ہے کہ مستقبل میں روبوٹ انسانوں سے ذہین اور جسمانی طور پر بھی طاقتور ہوکر بنی نوع انسانوں کو اپنا غلام بناسکتے ہیں۔ جیسے پچھلی دو تین صدیوں میں کرہ ارض پر انسان اتنا طاقتور ہوگیا کہ اس نے شیر، ہاتھی جیسے خونخوار درندوں پر بھی قابو پالیا، اسی طرح ایک دن روبوٹ بھی خود مختار و آزاد ہوکر انسان کو اپنا مطیع بناسکتے ہیں۔ اسی لیے اسٹیفن ہاکنگ کا کہنا ہے کہ روبوٹ معین حدود و قیود کے اندر رہ کر تیار کیے جائیں تاکہ وہ کبھی خود مختار نہ بن سکیں۔

فی الوقت دنیائے مغرب میں ماہرین کو یہ فکر لاحق ہے کہ انسانوں سے ملازمتیں ہتھیانے والے روبوٹوں اور سافٹ ویئرز کا مقابلہ کیونکر کیا جائے؟ یہ طے ہے کہ 2025ء تک یورپی ممالک میں لاکھوں ملازمتوں پر مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹ یا کمپیوٹر سافٹ ویئر قبضہ کرلیں گے۔ اس حملے سے بچاؤ کی خاطر مغربی دانشور مختلف تجاویز و تدابیر پیش کررہے ہیں۔

مثال کے طور پر یہ کہ ملازمین کو ازسرنو تربیت دی جائے تاکہ وہ جدید ترین آلات و سامان سے روشناس ہو سکیں یا پھر عالمی آمدن کا پیمانہ وضع کیا جائے تاکہ اخراجات کی گاڑی رواں دواں رہے۔ بعض ماہرین مالکان اور ملازمین کے درمیان ’’نیا عمرانی معاہدہ‘‘ تشکیل دینا چاہتے ہیں تاکہ ملازموں کے حقوق کو تحفظ دیا جاسکے۔ حال ہی میں یہ دلچسپ تجویز سامنے آئی ہے کہ انسان کو ’’کھیل‘‘ کی جانب راغب کیا جائے تاکہ وہ روبوٹ کا بخوبی مقابلہ کرسکے۔

اس تجویز کے حامی ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف کھیل کھیلنے سے بچے اس قابل ہوں گے کہ وہ بالغ ہوکر معاشرے ہی نہیں کام کی جگہ (دفتر/ فیکٹری) سے بہتر طور پر ہم آہنگ ہوسکیں۔ یہ تجویز سائنسی لحاظ سے بھی معقول ہے۔ پچھلے پچاس برس کے دوران بچوں پر کیے گئے تجربات سے ثابت ہوچکا کہ جو بچے مختلف کھیل کھیلیں، وہ معاشرتی، جذباتی اور تعلیمی لحاظ سے کھیل نہ کھیلنے والے بچوں کی نسبت زیادہ بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔ کھیل کھیلنے سے بچوں میں تخلیقی صلاحیتیں بڑھتی ہیں، ان کی جذباتی ذہانت اور استعداد کار میں اضافہ ہوتا ہے، نیز وہ مل جل کر رہنا اور ہمدردی کرنا سیکھتے ہیں… اور یہ تمام خصوصیات انسان سے خاص ہیں، فی الحال روبوٹ یہ صلاحیتیں نہیں رکھتے۔

چین میں آج کل مصنوعی ذہانت پر بہت کام ہورہا ہے۔ اس تحقیق میں پروفیسر کائی فولی پیش پیش ہیں مگر انہیں بھی خطرہ ہے کہ روبوٹ کہیں انسان پر غالب نہ آجائے۔ اس خطرے سے بچنے کی خاطر وہ کہتے ہیں ’’بنی نوع انسان کو چاہیے کہ وہ ایسی صلاحیتوں و خصوصیات کو ترقی دے جو انسانوں سے مخصوص ہیں۔ انسان چار ایسی صلاحیتیں رکھتا ہے جو ابھی روبوٹ نہیں رکھتے یعنی… تخلیقی قوت (creativity) ہنرمندی (dexterity) ہمدردی (ompassion) اور پیچیدگی دور کرنے کی طاقت (complexity) میرے نزدیک ان میں ہمدردی سب سے اہم صلاحیت ہے جو بنی نوع انسان کو آنے والے خطرات سے بچاسکتی ہے۔‘‘

کھیل وہ عمل ہے جو ایک بچے میں چاروں درج بالا خصوصیات جنم دینے میں مدد دیتا ہے۔ بچے کی ذہنی، جسمانی ، جذباتی اور معاشرتی نشوونما میں کھیل اہم حصہ لیتے ہیں۔ ماہرین کے نزدیک اصل کھیل وہ ہے جس میں بچہ خود دلچسپی لے، اسے جوش وجذبے سے کھیلے اور نت نئے تصورات اپنائے۔ اگر والدین بچوں کو کوئی مخصوص کھیل کھیلنے پر مجبور کریں تو اس کا خاص فائدہ نہیں ہوتا۔

ماہرین کھیلوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر چکے ہیں مثلاً تصّوراتی کھیل جیسے ڈرائنگ کرنا، ناچ، پانی سے کھیلنا۔ یہ کھیل بچے میں تخلیقی قوت بڑھاتے ہیں۔ ان کی مدد سے بچہ اظہار جذبات اور دوسروں سے گفتگو کرنا سیکھتا ہے۔ اسے حقائق کے بھی تجربے ہوتے ہیں۔ کارڈ بورڈ یا بلاکس والے کھیل کھیلنے سے بچہ اپنی حرکات وسکنات پر قابو پانا(fine motor skills) سیکھتا ہے۔ اس میں لچک آتی ہے اور (بلاک ٹاور گرنے پر)تحمل وصبر بھی! وہ مسئلہ حل کرنے کا سوچتا ہے: ایسا بلاک ٹاور کیسے بناؤں کہ وہ گر نہ سکے؟

چھپن چھپائی ،کیڑا کاڑا ،برف پانی اور پٹھو جیسے کھیل کھیلنے سے بھی بچوں کی جسمانی نشوونما ہوتی ہے اور دماغی بھی کہ ورزشی کھیل یادداشت طاقتور بناتے ہیں۔ کہانیاں سننے،پسندیدہ کرداروں کا بھیس اختیار کرنے اور ڈراموں میں حصہ لینے سے بچے کی جذباتی تربیت ہوتی ہے۔وہ ہمدردی وایثار اور مل جل کو کام کرنا سیکھتا ہے۔

مشہور برطانوی ماہر تعلیم،کین رابنسن کا کہنا ہے ’’ایک بچہ سب سے پہلے کھیلوں کے ذریعے ہی اردگرد کی پُراسرار دنیا کو سمجھتا اور دیکھتا بھالتا ہے۔ کھیل اسے یہ صلاحیت عطا کرتے ہیں کہ وہ مسائل حل کرنے کی قوت حاصل کر سکے۔ عام سے کھیل کھیلنے پر بھی بچے کی اندرونی تخلیقی صلاحیتیں جلا پاتی ہیں اور وہ غوروفکر کرنے لگتا ہے۔ یوں نہ صرف بچوں کو اپنا آپ دریافت کرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ وہ ایسی صلاحیتیں بھی پاتے ہیں جو زندگی اچھی طرح گذارانے کے قابل بنا دیں۔

زوال پذیر ہوتے کھیل

دنیا بھر میں دانشور یہ دیکھ کر پریشان ہیں کہ اب بیشتر بچے بہت سے کھیل نہیں کھیلتے خصوصاً ان کا وقت گھر کے اندر گذرتا ہے۔ وہ اکثر موبائل، کمپیوٹر ، ٹیب یا ٹی وی سے چمٹے رہتے ہیں۔ پھر دگرگوں حالات کی وجہ سے بھی والدین بچوں کو باہر نہیں نکلنے دیتے مگر اس غیر فطری چلن سے بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما صحیح طور پہ انجام نہیں پا رہی۔

اسی لیے ڈاکٹر و ماہرین نفسیات والدین پر زور دے رہے ہیں کہ وہ بچوں کو مختلف کھیل کھیلنے دیں تاکہ ان کی ذہنی وجسمانی نشونما موثر طریقے سے ہو سکے۔ کھیلوں کے باعث ہی ایک بچہ تندرست ومفید شہری میں ڈھلتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم بچے کے لیے ضروری ہے مگر اسے اپنی ذہنی وجسمانی تندرستی کی خاطر مختلف کھیل بھی کھیلنے چاہیں۔

عنقریب دنیا میں روبوٹ یا مشینی انسانوں کا دور شروع ہونے والا ہے۔ اس نئی جنس کا مقابلہ کرنے کی خاطر اب بنی نوع انسان کے لیے کھیل پہلے سے زیادہ اہم ہو چکے۔ وجہ یہ کہ کھیل ہی انسانوں میں وہ قیمتی ذہنی وجذباتی خصوصیات پیدا کرتے ہیں جنھیں روبوٹ شاید کبھی نہ پاسکیں۔ یہی خصوصیات مستقبل میں انسان کا پلّہ بھاری رکھیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔