پہلی خواب دیکھنے والی (آخری حصہ)

زاہدہ حنا  بدھ 14 مارچ 2018
zahedahina@gmail.com

[email protected]

روئے زمین پر  پہلا خواب دیکھنے والی حضرت حوا جو عبرانی زبان میں ’حیات‘ کے معنی رکھتی ہیں‘ ان کی بیٹیاں  ہزار ہا سال سے خواب دیکھ رہی ہیں۔آزادی اور کامرانی کے خواب ۔ ہم اگر ایک نظر ان چند عورتوں پر ڈالیں جو اپنے اپنے زمانے میں باکمال اور بے مثال تھیں تو یقین نہیں آتا کہ وہ عورت جو ناقص العقل اور جاہل کہی گئی‘اس میں اتنی ذہانت بھی ممکن ہے۔

ان میں سے قبل مسیح کی چند وہ عورتیں ہیں جو کنیز سے ملکہ بنیں اور جنہوں نے اپنے آقاؤں کی تقدیر بدل ڈالی۔ ہم اشوک کو اشوک اعظم بنانے والی بندو متی سے ملتے ہیں۔ چوتھی صدی عیسوی کی ہپتاشیا ہے جو ریاضی، فلسفے اور سائنسی علوم میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی ۔ یہ ریاضی داں اور فلسفی، عیسائیت کے ابتدائی برسوں میں سخت گیر  عیسائیوں کے غیض وغضب کا شکارہوئی۔اسکندریہ کی اس بیٹی کو سنگسارکیا گیا ‘اس کی لاش گلیوں میںگھسیٹی گئی‘ نادر و نایاب کتابوں پر مشتمل اس کی لائبریری جلا دی گئی اور اس کے ایجاد کیے ہوئے سائنسی آلات توڑ دیے گئے۔

عہد نامہ قدیم میں ہمیں بہت سی ان عورتوں کا قصہ ملتا ہے جنہوں نے اپنے اپنے زمانوں میں اپنی ذہانت اور حسن کا سکہ جمایا ‘ اسی طرح ہماری ملاقات ملکہ سبا  سے ہوتی ہے ۔ تاریخ کے صفحے ان عورتوں کے ذکر سے بھرے ہوئے ہیں ‘ جوکنیز سے ملکہ بنیں، بادشاہ گر ہوئیں ۔

ان میں ہمیں ملکہ زبیدہ ، ملکہ شجرۃ الدر، رضیہ سلطانہ ، چاندبی بی، ملکہ نورجہاں اور ملکہ الزبتھ اول ایسی عورتیں ملتی ہیں جنہوں نے اپنی ذہانت اور سیاست میں بازی گری سے وسیع وعریض سلطنتوں پر حکومت کی۔ ان میں جھانسی کی رانی اور بیگم حضرت محل ہیں جن کی آٓنکھوں میں آزادی کے خواب تھے اور ان خوابوں کی تعبیر کے لیے انھوں نے اپنی جان نثارکردی۔ ان ہی میں  جون آف آرک ایسی دلیر اور داد شجاعت دینے والی تھی جس نے نوعمری میں برطانوی فوج کوشکست دی، فرانس کو برطانوی تسلط سے آزاد کرایا ‘شومئی قسمت کہ برطانوی فوج کے ہاتھوںگرفتار ہوئی اور صرف19برس کی عمر میں ’جادوگرنی‘  قرار دے کر زندہ جلادی گئی۔

انیسویں صدی کے نصف آخر سے حوا کی بیٹیوں نے اپنے حقوق کے لیے سیاسی جنگ لڑنی شروع کی ۔ ایک نہایت مشکل اور صبرآزما جنگ ۔ یہاں ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ آزادی اور جمہوری حقوق کی جنگ غلام اور نیم غلام مردوں نے بے جگری سے لڑی ہے ۔اس لڑائی میں ان کے ساتھ عورتیں بھی شریک رہی ہیں ۔ ہندوستان ‘ افریقا ‘ امریکا اور دنیا کے دوسرے حصے‘ ہرجگہ مقامی باشندے نو آباد کاروں کے زیرتسلط رہے۔ یہ سیکڑوں برس پر پھیلی ہوئی ایک ایسی جنگ تھی جس میں کروڑوں مرد ، عورتیں اور بچے مارے گئے۔ یہ سب لوگ اس عورت کا خاندان تھے جو دنیا میں پہلی خواب دیکھنے والی کہی گئی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ہی یہ ہوا ہے کہ عورتوں کے حقوق جدوجہد میں بہت سے مرد بھی شامل ہوگئے ہیں ۔ یہ سلسلہ انیسویں صدی میں اسٹوارٹ مل سے شروع ہوا اور اب ان مردوں کا شمار مشکل ہے جو ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھتے ہیں ، جہاں عورتیں ان کے شانہ بشانہ ہوں اور ایک ایسی دنیا وجود میںآسکے جہاں رنگ ، نسل، زبان کے ساتھ ہی ساتھ صنف کی بنیاد پرکوئی تفریق نہ ہو۔

ہماری لڑکیاں اور عورتیں آزادی کے خواب دیکھتی ہیں۔ انفرادی طور پر اب ان کے بہت سے خوابوں کو تعبیر ملتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گلوبل جینڈرگیپ کے اشاریے پر نگاہ ڈالیے توگزشتہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان آخری نمبر سے صرف ایک سیٹرھی اوپر ہے ۔ پاکستان کی عاصمہ جہانگیر جو بیس برس کی عمر سے اپنے ملک اور اپنے لوگوں کے جمہوری حقوق کے لیے خواب دیکھتی رہی جس کی تمام زندگی  عورتوں ‘ بچوں اور محروم طبقات کو مٹھی بھر انصاف دلانے کے لیے لڑائی لڑتے گزری اور جو ابھی چند ہفتوں پہلے اس دنیا سے چلی گئی ہے، وہ حوا کی‘ ایک ایسی بیٹی تھی جس کی ہر سانس جمہوریت ، انصاف اور مساوی حقوق کی لڑائی کے لیے وقف تھی ، اگرعالم بالا میںکوئی ایسی بیٹھک موجود ہے جہاں  عاصمہ کے لیے حضرت حوا کی قدم بوسی کے بعد ان سے مکالمہ ممکن ہو تو انھوں نے اس کی پیشانی چوم لی ہوگی اور اسے اس کی جرأت کے لیے کتنی داد  دی ہوگی۔

ہم بیس برس کی ملالہ یوسف زئی کوکیسے بھول سکتے ہیں جس نے تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کی تھی اور جس کے لیے زندگی کا سب سے حسین خواب دوسری لڑکیوں کوتعلیم سے آشنا کرنا تھا ۔ یہ ایک ایسی خواہش تھی جس کی سزا اسے گولیوںکا  نشانہ بنا کر دی گئی۔آج وہ ڈاکٹروں کی ہنرمندی اور طبی سائنس کی معجزہ نمائی کے سبب زندہ ہے۔

اس کی زندگی پاکستان کوایک نوبل امن انعام سے نوازنے کا سبب بن گئی ، وہ عالمی سطح پر منزلیں مار رہی ہے۔ آکسفرڈ یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے اور چند دنوں پہلے اس نے مشہور و معروف ٹی وی اینکر ڈیوڈ لیٹرمین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ ہمیں پاکستان میں اس نقطہ نظرکے خلاف لڑنا ہے جو عورتوںکومساوی حقوق دینے کے لیے تیار نہیں اور جو انھیں تعلیم کا حق نہیںدینا چاہتے ۔ ملالہ اس بات پرایمان رکھتی ہے کہ صرف تعلیم وہ ہتھیار ہے جوہماری دنیا کی نوجوان نسل کو انتہا پسندی اور تعصبات سے لڑنے کی طاقت دے سکتی ہے۔

پوری دنیا میں خواتین اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی قربانیاں رنگ لا رہی ہیں ۔ اس کی ایک بڑی مثال سعودی عرب ہے۔آج جب پاکستان میں لوگوںکا ایک بڑا حلقہ ‘ بعض جماعتیں اور چند دانشور‘خواتین کے عالمی دن کے منائے جانے کے خلاف ہیں ‘ ان پر یہ خبر بجلی بن کر گری ہوگی کہ جدہ میں مسکراتی ہوئی خواتین نے یہ عالمی دن سڑکوں پر جاگنگ کرتے ہوئے منایا۔ اس سے پہلے خواتین کو گاڑی چلانے‘ بغیرمحرم کے سفرکرنے اورکاروبار اور نوکری کرنے سمیت کئی امتیازی قوانین کا سامنا تھا  جنھیںاب ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ سعودی عرب میں سینما پر35 سال سے پابندی عائد تھی ۔

اب یہ پابندی اٹھالی گئی ہے، بہت جلد درجنوں سینما گھر مختلف شہروں میں کھلنے والے ہیں۔ یوم خواتین کے موقعے پر جاگنگ کرنے والی یونیورسٹی میں پڑھنے والی ایک نوجوان لڑکی سماکنسارا کا کہنا تھا کہ وہ فلم کے موضوع پر تعلیم حاصل کررہی ہے‘ اب وہ اپنی صلاحیتوںکواپنے ملک میںآزما سکے گی۔ عورتوں کو کھیلوں میں حصہ لینے اور اسٹیڈیم میں جاکر میچ دیکھنے کی آزادی ہوگی ۔ کاش ہمارے ملک کے عورت بیزار حلقے بھی اپنا رویہ تبدیل کرلیں کیونکہ دنیا میں اب کسی بھی انسان کے ساتھ کسی بھی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنا  ایک غیر مہذب اور قابل مذمت فعل تصورکیا جاتا ہے۔

انسان اپنے حقو ق کے لیے ہزاروں سال سے جدوجہد میں مصروف ہے۔عورتوں کے حقوق بھی بنیادی انسانی اورجمہوری حقوق کا ایک ناگزیر حصہ ہیں۔21ویںصدی میں اس عظیم جہدوجہد کے ثمرات تیزی سے سامنے آنے شروع ہوچکے ہیں ۔ آج کی دنیا پر نظر ڈالیے توآپ کو عورتوں کی کامیابیوں کی چند نہیں بلکہ بہت سی مثالیں ملیںگی ۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل، برطانیہ کی وزیراعظم تھریسامے، فیس بک کی شریک بانی ملینا گیٹس ، فیس بک کی سی ای او شرل سینڈ برگ ، جنرل موٹرز کی سی ای او میری بارا، یوٹیوب کی سوسن وززکچی محض چند نام ہیں ۔ فوربس نے 2017کی دنیا کی طاقتور ترین عورتوں کی ایک فہرست مرتب کی ہے۔

سیاست، حکومت، میڈیا، انٹرٹینمنٹ، فنانس اور ٹیکنالوجی سمیت وہ کون سا شعبہ ہے جہاں عورتیں تیزی سے اپنی جگہ نہیں بنا رہی ہیں ۔دنیا کی طاقتور عورتوں میں صرف امریکا  یا یورپ ہی نہیں بلکہ دیگرملکوںکی عورتیں بھی شامل ہیں۔ان ملکوںمیں تائیوان، چلی، سنگاپور، بنگلہ دیش، انڈیا، میانمار، چین ، ہانگ کانگ، روس، ویت نام، ترکی، سعودی عرب، انگولا، یواے ای اور جنوبی کوریا، شامل ہیں ۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ پاکستانی عورتوں کو ابھی وہ مقام اورمواقعے نہیں مل سکے ہیں جن کی وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔ایک نہایت اہم بات جسے ہمارے دانشوراور طاقت ور مقتدر حلقے سمجھنے کے باوجود ماننے اورعمل کرنے پر آمادہ نہیں وہ یہ ہے کہ آپ پوری دنیا کے تقریباً دو سو ملکوںکا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ عورتوں نے جن ملکوںمیں نسبتاً کم مشکلات سے کامیابیاں حاصل کی ہیں ان کی غالب ترین اکثریت جمہوری ملکوں پر مشتمل ہے۔

پاکستان اور کئی دیگرملکوں میں عورتوںکے آگے نہ بڑھنے کی بنیادی وجہ جمہوریت کا نہ ہونا یا اس کے تسلسل کا فقدان ہے۔ یہاں یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ عورتوں سمیت کسی بھی طبقے کے حقوق کی لڑائی جمہوریت کی بالادستی کی جدوجہد کا ایک لازمی اور ناگزیر حصہ ہے۔ پاکستان میں جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے 70برس سے جاری جدوجہد اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے ۔ خواتین تنظیموں کو بھی اس حوالے سے اپنا موثرکردارادا کرنا  ہوگا۔ حقیقی جمہوریت ہوگی تو امتیازی اور غیرمساوی  قوانین کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا اور پاکستانی عورت زیادہ تیزی سے ترقی کرسکے گی۔ روئے زمین پر پہلاخواب دیکھنے والی جناب حوا کی بیٹیاں اور بیٹے سنہرے روپہلے خواب دیکھ رہے ہیں اور ان کی تعبیر کی تلاش میں ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔