سینئر سٹیزنز یا بڈھے بابے

سعد اللہ جان برق  بدھ 14 مارچ 2018
barq@email.com

[email protected]

پچھلے کچھ کالموں میں ہم نے اپنے نظام اور معاشرے بلکہ شف شف کرنے کے بجائے شفتالو کہیں تو حکومت میں ’’ عدم تحفظ ‘‘ کے ایک بھیا نک جان لیوا ، اور بہت ہی وسیع خلا کا ذکر کیا ہے جس سے ساری بلائیں نکل کر جرائم کی صورت میں انسان کو شکار کرتی ہیں لیکن اس میں ہم نے دانستہ ایک خاص پہلو کو نظر انداز کیا تھا ۔ اور وہ تھا جن کو حکومتی اداروں، اہل کاروں اور سیاست کاروں نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے سینئر سٹیزنز یا بزرگ شہری نام کا ’’ وکٹوریہ کراس ‘‘ دیا ہوا ہے اور یہ باعزت نام ہی ان بچاروں خدائی خواروں کا کل اثاثہ ہے ۔

بس اک داغ سجدہ میری کائنات

جبینیں تری آستا نے ترے

مطلب یہ کہ یہ بھی ان لوگوں کی بہت بڑی کامیابی اور عزت افزائی ہے کہ اتنی صدیوں میں کم از کم ایک باعزت (بظاہر ) نام تو ملا حالانکہ سب جانتے ہیں کہ حقیقت میں اب بھی وہی بڈھے ہی ہیں، جن کی اپنی زندگی ساٹھ پر ختم ہو جاتی ہے اور باقی مانگے تانگے کی زندگی جیتے ہیں۔ ’’ جیتے ‘‘ کیا ہیں ’’تہمت ‘‘ کی طرح گھیسٹتے ہیں کیونکہ تمام تر سرکاری، درباری سیاسی لفاظیوں اور فلمی ڈائیلاگز کے باوجود

ابھی ہوس کو میسر نہیں ’’ دلوں ‘‘ کا گداز

ابھی یہ لوگ مقام نظر سے گزرے ہیں

وہ بھی غالباً کسی دانا دانشور سیاسی کو خیال آگیا ہوگا کہ یہ کم بخت ہر طرح سے اذکار رفتہ اور ڈیٹ ایکسپائر ہونے کے باوجود ایک ’’ ووٹ ‘‘کے تو بہر حال مالک ہوتے ہیں۔ وہ کہیں ’’ ضایع ‘‘ نہ کردیں، اس لیے انھیں ’’بڈھے‘‘ سے ترقی دے کر سینئر سٹیزنز اور بزرگ شہری کے مرتبے پر فائز کردیا گیا اور لیڈروں بلکہ شاعروں، صورت گروں اور افسانہ نویسوں اور اخبارات کے دانشوروں اور ٹی وی اینکروں کے ہونٹوں پر یہ نام چپکا دیے۔کہ یہ لوگ ’’بڈھے بابے ‘‘ ہوتے ہوئے بھی ’’ بڈھے بابے ‘‘نہیںبلکہ بزرگ شہری اور سینئر سٹیزنز ہیں ۔آیندہ انھیں اسی نام سے پکارا اور لکھا جائے اور ’’سیاسی ‘‘(نہ کہ سرکاری) کاغذات میں بھی درستگی کی جائے ۔ باقی سب کچھ  ویسا  کا ویسا ہی رہے گا۔ وہی  بڈھے بابے  یا پشتو کہاوت کے مطابق ۔ جو ساٹھ کا ہوا گولی مارنے لائق ہوا یا اردو میں ’’سٹھیانے ‘‘ کا خطاب ۔

جدید تعلیم نے البتہ انھیں اچھا خاصا ’’ ممتاز ‘‘ کردیا ہے، اگر کوئی ایسا ہی ’’ بڈھا بابا‘‘ یا سٹھیا یا ہوا شخص کسی بس میں چڑھ جائے تو اگر کوئی گنوار دیہاتی ہوا تو وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کر اسے اپنی جگہ بٹھادے گا لیکن اگر کالج کے پڑھے لکھے نوجوان کہیں سے بس میں چڑھے تووہ سب سے پہلے ان بڈھوں  بابوں سے کہیں گے کہ اپنے ’’وطن ‘‘ چلے جاؤ کب تک ہمارے سینے پر مونگ دلو گے ۔

لیکن خدا نے شاید ان بچاروں کی سن لی ہے کہ سرکاری زبان میں اب یہ سینئر سٹیزنز اور بز رگ شہری ہوگئے ہیں نہ صرف یہ بلکہ اکثر ان کے دلوں میں لڈو پھوٹوانے کے لیے ان کی فلاح و بہبود کے لیے طرح طرح کے ’’ پیکیج ‘‘ بھی لانچ کیے جاتے ہیں جو فی الحال کاغذات میں ’’ پک ‘‘ رہے ہیں لیکن کبھی نہ کبھی پک ہی جائیں گے، اگر کہیں سے ’’ کوئی ‘‘ آ نہ گیا اور ’’ سب کچھ ‘‘ کھا کر ان کو کھانسی کا ڈھول بجانے کے لیے مخصوص نہ کرگیا ۔کیونکہ سنا تو ایسا ہی ہے کہ پک جانے پر ’’ کوئی ‘‘ آجاتا ہے۔

کھیر پکائی جتن سے چرخا دیا جلا

’’ کوئی آیا ‘‘ کھا گیا تو بٹھا ڈھول بجا

ہمیں تو کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ’’ سینئر سٹیزنز ‘‘ یا بزرگ شہریوں کے لیے جو پیکیج لائے جارہے ہیں وہ بھی کسی سینئر اور بزرگ ’’ چھکڑے ‘‘ پر بار کیے گئے ہیں جسے ’’دیر ‘‘ تو لگے لگی لیکن اندھیرے (قبر کے ) سے پہلے پہلے شاید پہنچ جائے، اگر راستے میں اس کی اپنی عمر کا اندوختہ تمام نہ ہوا تو ؟

چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ

ہم اس کے پاس جاتے ہیں مگر آہستہ آہستہ

ویسے بھی جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے، بڈھے بابے‘‘ سوری بزرگ شہریوں کا نہیں، ان کی اپنی عمر یں بجائے خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان ’’ جلدی ‘‘ پسند نہیں ہے ۔ ہر کام سہج سہج کر آرام سے کرنا ہی ان کو پسند ہوتا ہے ۔

ویسے یہ ماننا پڑے گا کہ حکومتی با تدبیر یوں ہی باتدبیر نہیں کہلاتے ان کو پتہ ہے کہ ان ’’ بڈھوں‘‘۔سوری سینئر سٹیزنز کو کچھ دیا گیا تو ان کی آل اولاد ان سے چھین لے گی، اس لیے دینے سے زیادہ اچھا صرف مژدہ جاں فزا ان کے لیے اچھا ہے۔ ہمارے گاؤں میں ایک بڈھا یعنی سینئر سٹیزن تھا ۔

ایک دن ہمارے ساتھ تانگے میں بیٹھا تو اس کے ہاتھوں اور چہرے پر کچھ غیر فطری سے نشانات تھے۔ پوچھا کہیں گر پڑے تھے کیا ؟ آنکھوں میں آنسو آئے۔ بولا ،ہاں گرگیا ہوں، اپنی اولاد کی نظروں سے بلکہ روزانہ گرتا ہوں ۔ تفصیل چاہی تو بولا کہ اس کی تھوڑی سی پنشن ہے جسے لینے کے لیے تین مہینے میں ایک بار مجھے لے جایا جاتا ہے۔ میرا انگوٹھا لگتے ہی وہ میرے ہاتھ کوکھڑکی سے کھینچ کر باہر کردیتے ہیں اور پیسوں کے لیے اپنا ہاتھ گھسا دیتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ میرے ساتھ یہ آنا جانا ان کو پسند نہیں ہے، اس لیے پنشن ہمارے نام کردو لیکن میں تین مہینے میں ایک مرتبہ یہ تھوڑی دیر کی خوشی ان کو کیسے دوں، اس لیے پنشن لینے کے بعد وہ مجھے پیٹتے ہیں  اور تین مہینے بعد پھر منالیتے ہیں، میں بھی مان جاتا ہوں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔