پاک ایران تعلقات اور خطے کی سلامتی

ایڈیٹوریل  جمعرات 15 مارچ 2018
یہ بات حقائق پر مبنی ہے کہ مغربی ایشیا میں علاقائی امن کا انحصار وسیع تر تعاون پر ہے۔ فوٹو: فائل

یہ بات حقائق پر مبنی ہے کہ مغربی ایشیا میں علاقائی امن کا انحصار وسیع تر تعاون پر ہے۔ فوٹو: فائل

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کے درمیان منگل کو اہم ملاقات ہوئی جس میں باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سلامتی اور دو طرفہ تعلقات پر بات چیت ہوئی۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ نے حالیہ مہینوں میں دو طرفہ سیکیورٹی انتظامات کی تعریف کی اور پاک ایران سرحد کی سیکیورٹی بہتر بنانے کے لیے اقدامات کو بھی سراہا۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ مغربی ایشیاء میں علاقائی امن کا انحصار وسیع تعاون پر ہے۔

جرائم کے خطرات کو ختم کرنے اور سلامتی کے لیے باہمی تعاون کی ضرورت ہے، آئی این پی کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے مشیر قومی سلامتی ناصر خان جنجوعہ سے بھی ملاقات کی جس میں پاکستان اور ایران کے بہتر ہوتے تعلقات پر اطمینان کا اظہار ، تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لیے رکاوٹیں دور کرنے کی ضرورت پر زور اورخطے میں پائیدار امن کے لیے تعاون پر مبنی فریم ورک پر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا‘ اس کے علاوہ دونوں ممالک کو لاحق مشترکہ خطرات اور مواقع کی نشاندہی کی گئی، اے پی پی کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے قازقستان کی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل ریمبرادی ڈیوشنباوی نے بھی ملاقات کی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق جی ایچ کیو راولپنڈی میں ہونے والی ملاقات کے دوران دوطرفہ فوجی تعلقات ،علاقائی سلامتی کی صورتحال اور دفاعی تعاون بڑھانے کے امور زیر غور آئے۔ خطے کو درپیش چیلنجز اور بدلتے ہوئے جغرافیائی حالات کے تناظر میں پاک فوج کے سربراہ اور قومی سلامتی کے مشیر کے ساتھ ایرانی وزیر خارجہ کی ملاقات انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اسی طرح قازقستان کی مسلح افواج کے سربراہ سے پاک فوج کے سربراہ سے ملاقات بھی دوررس اثرات کی حامل ہے۔

یہ بات حقائق پر مبنی ہے کہ مغربی ایشیا میں علاقائی امن کا انحصار وسیع تر تعاون پر ہے۔ مغربی ایشیا جسے مشرق وسطیٰ کہا جاتا ہے‘ اس کا بحران کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہ سارا خطہ ایک دو ممالک کو چھوڑ کر مسلم ممالک پر مشتمل ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک اور ایران بھی اس خطے میں واقع ہیں ۔

اس کے ساتھ ساتھ شام‘ یمن میں خانہ جنگی کی صورت حال ہے جب کہ لبنان اور مصر سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں۔ اس خطے میں اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جو سیاسی طور پر بھی مستحکم ہے جب کہ معاشی و عسکری اعتبار سے بھی مضبوط ہے۔ اس خطے کے مسلم ممالک کے باہمی اختلافات بہت شدید ہیں۔ بلاشبہ مختلف ممالک کے درمیان مختلف نوعیت کے اختلافات بھی ہیں لیکن مغربی ایشیا یا مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کے درمیان مسلک اور عقیدے کا اختلاف بھی سیاست کا حصہ بن گیا جس کی وجہ سے ان کے درمیان مصالحت کا عنصر انتہائی کمزور پڑ گیا اور ان کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوششیں بارآور نہیں ہو رہیں۔

مشرق وسطیٰ  کے ممالک سے گہرے تعلقات ہونے کے سبب وہاں جنم لینے والے بحران کے اثرات پاکستان پر بھی محسوس ہو رہے ہیں۔ ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے ہمسایہ ممالک ہیں اور ان کے درمیان گہرے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی رشتے بھی ہیں۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ نے حالیہ مہینوں میں دو طرفہ سیکیورٹی انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

پاک فوج کے سربراہ کا یہ کہنا صائب ہے کہ مشرقی وسطیٰ یا مغربی ایشیا میں علاقائی امن کا انحصار وسیع تعاون پر ہے۔ بلاشبہ اس خطے کے ممالک کو اپنے اختلافات ختم کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہو گا۔ایران اور پاکستان اس خطے کے انتہائی اہم ممالک ہیں،یہ امر خوش آیند ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کی ترجیحات اور ضروریات کو بخوبی سمجھ رہے ، ایران اور پاکستان کو اپنے سرحدی معاملات پر مسلسل رابطے میں رہنا چاہیے۔

پاکستان کے لیے بھی صورتحال خاصی توجہ طلب ہے، پاکستان کو اپنی شمال مغربی سرحد کو مزید مضبوط اور محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔مشرق وسطیٰ کی سیاست میں بھی پاکستان کو ایسا کردار ادا کرنا چاہیے جو اس خطے کے کسی ملک کے لیے تشویش کا باعث نہ ہوں ، بہرحال سب سے زیادہ ذمے داری مشرق وسطیٰ کے ممالک کی قیادت کی ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اور عملی کوششیں کریں۔

ایران اور عرب ممالک کے درمیان جو تناؤ موجود ہے ، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، عرب ممالک کو اپنے باہمی اختلافات کی وجوہات کا بھی علم ہے، ان اختلافات کو ختم بھی وہی کرسکتے ہیں ، یہ اسی صورت ممکن ہے جب اس خطے کے تمام ممالک ایک دوسرے کے ساتھ وسیع تر تعاون کا آپشن اختیار کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔