پاکستان کے نام سے عزت پانے والے

عبدالقادر حسن  جمعرات 15 مارچ 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میری پیدائش پاکستان کے قیام سے پہلے کی ہے یوں میری عمر پاکستان کی مجموعی عمر سے زیادہ ہے مجھے وہ تمام مناظر یاد ہیں جب پاکستان بننے کے بعد میرے علاقے سے غیر مسلم ہجرت کر کے بھارت روانہ ہوئے ۔ خوش قسمتی سے میں ان لوگوں میں شامل ہوں جن کو ہجرت نہیں کرنی پڑی اور نہ ہی میں ان دکھوں اور مصیبتوں سے آشنا ہوں جو ہجرت کرنے والوں پر بیت گئیں۔

مجھے اگر کچھ معلوم ہے تو وہ داستانیں ہیں جو میں نے اپنے ملنے جلنے والوں سے لاہور میں رہائش پذیر ہونے کے بعد سنیں یا پھر اخبارات اور کتابوں میں پڑھیں، یہ دلدوز داستانیں اپنے اندر ایک منفرد طرز کا کرب لیے ہوئے ہیں ان کے تذکرے سے آج بھی زخم تازہ ہو جاتے ہیں، ایک ہجرت کا دکھ اور دوسرا ہجرت کا سفر دونوں کچھ ایسے معاملے تھے جو مسلمانوں پر ایسے بیتے کہ ان کی نسلیں یا تو ختم کر دی گئیں یا پھر وہ لٹے پٹے اپنے نئے وطن پاکستان پہنچے اور ایک نئی زندگی کا آغاز کیا جو کہ ان کی اپنی پسند اور اپنے اختیار میں تھی ۔

آزادی کے یہی مزے ہیں جن کو محسوس کرنے اور لوٹنے کے لیے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت وقوع پذیر ہوئی اور اپنے ساتھ کئی المناک داستانیں بھی لے کر چلتی رہی اور آج بھی سرحد کے دونوں اطراف لوگ بٹے ہوئے ہیں، رشتہ داریاں موجود ہیں۔

ہجرت کرنے والوں نے اپنی مرضی سے اپنے نئے وطن کا انتخاب کیا اور پاکستان کی سر زمین جو کہ خالصتاً اسلام کے نام پر حاصل کی گئی یہاں پر مذہبی اور معاشرتی قیدو بند سے آزاد زندگی گزارنے کو ترجیح دی اور جنہوں نے بھارت میں رہنے کو پسند کیا ان کی زندگی کیسے گزر رہی ہے اس سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں اور مسلمانوں پر بھارتی مظالم کی داستانیں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔

میں نے بات اپنی عمر سے شروع کی تھی جو کہ پاکستان کی ستر سالہ عمر سے زائد ہے، پاکستان بننے سے پہلے بھی اپنی جوانی کے دنوں میں ایک غریب علاقے سے تعلق کے باوجود میری زندگی آسودہ زندگی بن کر گزر رہی تھی اور وجہ یہ تھی کہ میرے بزرگوں کی آبائی زمینیں ہماری زندگی گزارنے کی مناسب ضروریات پوری کرنے کے لیے بہت تھیں اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بھی جب میں نے اخبار نویسی شروع کی تو لاہور جیسے بڑے اور جدید شہر میں زندگی بڑے آرام اورمزے سے گزرتی رہی اور جب تک اللہ تبارک و تعالیٰ نے زندگی عطا کر رکھی ہے زندگی کی جائز ضروریات بدستورجائز طریقے سے پوری ہو رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے کبھی ان میں کمی نہیں آئی۔

صحافت کی ابتدا میں اگر تنخواہ کم تھی تو بھی ضروریات کے سلسلے میں کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور اب جب کہ ضروریات بڑھ چکی ہیں اور مہنگائی میں اضافہ ہو چکا ہے تو اُس ذات پاک کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ پہلے سے بہتر زندگی گزر رہی ہے، یہ سب اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور پاکستان کی نعمتیں ہیں جن سے ہم سب سرفراز ہو رہے ہیں، اس آزاد وطن نے ہمیں اتنا کچھ عطا کیا ہے جس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے ورنہ ایک محکوم زندگی کا تصور بھی محال ہے۔

مجھے اپنے پاکستان سے کوئی گلہ نہیں مجھے میرے وطن نے اتنی عزت دی جس کا شائد میں حق دار بھی نہیں لیکن یہ سب ایک آزاد ملک کی برکتیں اور نعمتیں ہیں جن کی برکت سے ہم آزادی سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور آخر میں اسی وطن کی مٹی میں آسودہ خاک ہو جانا ہے۔

میرا ضمیر مطمئن ہے کہ میں نے اپنے ملک کے حق میں ڈٹ کر بات کی اور اس کے لیے کسی کو خاطر میں نہ لایا لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جنھیں اس ملک نے میرے جیسوں سے بہت زیادہ نوازا لیکن وہ پھر بھی اس ملک سے شاکی نظر آتے ہیں ان کو اس ملک نے اتنی عزت اور دولت دی کہ وہ نہ صرف ملک میں امیر ترین کہلائے بلکہ ان پاکستانیوں نے بیرون ملک بھی اپنی بے پناہ دولت سے کاروبار شروع کیے اور اگر حقیقت میں بات کی جائے تو اس اشرافیہ کا ہر فرد پاکستان کے ساتھ کسی غیر ملک کی شہریت بھی رکھتا ہے یعنی دوہری شہریت جس کی اسے کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے دنیا کے کسی بھی ملک کے ویزے کا حصول ان کی بے پناہ دولت کی وجہ سے ناممکن نہیں البتہ یہ دوہری شہریت وہ کسی مشکل وقت کے لیے رکھتے ہیں تا کہ اگر کبھی ان کو پاکستان میں مشکلات کا سامنا ہو تو وہ اپنے دوسرے وطن روانہ ہو جائیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس ملک کے وسائل کا پہلے تو اپنے مفادات کے لیے بے دردی سے استعمال کیا اور پھر ان وسائل سے لوٹ مار کر کے بیرون ملک اپنی جائیدادیں بنا ڈالیں اور اب وہ اس ملک سے باغی ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔

کتنی شرم کی بات ہے کہ میاں نواز شریف جن کو اس ملک کے عوام نے اتنی عزت دی جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے اگر وہ جاتی عمرہ بھارت میں ہی رہ جاتے تو شائد ان کی زندگی بھی ایک بھارتی مسلمان سے زیادہ بہتر نہ ہوتی، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے بزرگوں نے پاکستان آکر بہت محنت و مشقت کے بعد اپنا ایک نمایاں مقام بنایا ۔ اس پاکستان نے ان کو ایک علیحدہ شناخت دی وہ ایک بڑے کاروباری خاندان کے طور پرسامنے آئے ۔ کاروبار میں اتار چڑھاؤ کے باوجود وہ کامیاب رہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کوکامیابی عطا کی، وہ پاکستان میں بھی جاتی عمرہ کے نام سے ایک بستی بسانے میں کامیاب ہو گئے ۔

اس ملک کے عوام نے ان کو اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچایا وہ اس ملک کے مالک و مختار بنا دئے گئے، ان کے ایک اشارے سے اس ملک کی تقدیر کے فیصلے ہوتے رہے انھوں نے اس ملک میں اقتدار اعلیٰ کے خوب مزے لیے اوراب میاں نواز شریف جب یہ کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ستر سالہ نظام سے باغی ہونے کا اعلان کرتے ہیں تو دراصل وہ نظام سے نہیں اس پاکستان سے باغی ہونے کا اعلان کر رہے ہیں حالانکہ وہ ایک طویل مدت تک وقفے وقفے سے اس ملک کے مختار کل رہے ہیں جس میں ان کی دوتہائی اکثریت والی حکومتیں بھی شامل ہیں اس وقت ان کو یہ خیال کیوں نہ آیا کہ اس نظام کو بدل ڈالیں۔ اب جب کہ وہ ایک بار پھر الیکشن میں جا رہے ہیں تو ان کو ملک کے مسائل اور ظلم کا نظام یاد آگیا ہے اور وہ بھی تب آیا ہے جب وہ اقتدار سے باہر کر دیے گئے ہیں مجھے تعجب اس بات پر ہے کہ جس ملک نے ان کو اتنا نوازا جس کے شائد وہ حق دار بھی نہیں تھے۔

وہ اس ملک کا اپنے ذمے حق ادا کرنے کے بجائے اس سے باغی ہونے کا ہی اعلان کر رہے ہیں ان کے اس بیان پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے ورنہ میں جس میاں نواز شریف کو جانتا ہوں وہ اس ملک کا وفادار شخص تھا لیکن معلوم نہیں اب ان کے مشیر کون ہیں جو ان کو ان کے اپنے وطن سے ہی باغی ہونے کے مشورے دے رہے ہیں۔

یہ بات درست کہ ان کو وزیر اعظم کی کرسی سے الگ کر دیا گیا لیکن یہ بات بھی ان کو ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اس ملک نے ان کو دنیا بھر میں ایک پہچان دی ہے اور اس پہچان کی حفاظت کی ذمے داری ان کی اپنی ہے ان کو اپنے نادان مشیروں اور لکھی ہوئی تقریروں سے جان چھڑا کر اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے باغی کے بجائے پاکستان زندہ باد کانعرہ بلند کرنا ہوگا اسی میں ان کی عزت ہے جو انھیں اس ملک نے دی ہے یعنی ایک مہاجر کو مقامی سے زیادہ رتبہ دے دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔