ووٹ کا تقدس

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 15 مارچ 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

اس وقت ووٹ کے تقدس کا مسئلہ سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے ۔ اشرافیہ کا ارشاد ہے کہ عدلیہ ووٹ کے تقدس کا احترام نہیں کر رہی ہے، کرپشن کے الزامات کا مطلب یہ ہے کہ ووٹ کے تقدس کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ بلاشبہ جمہوری کلچر میں ووٹ کی اہمیت ہوتی ہے لیکن اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو عوام نے ووٹ دیے ہیں، اس کا مقصد کیا ہے ووٹ مختلف جماعتوں کے اکابرین کو اس لیے دیے جاتے ہیں کہ وہ عوام کے اہم اور بنیادی مسئلے حل کریں۔ یہی ووٹ کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔

حیرت ہے کہ 70 سال سے کم ازکم نصف حصہ جمہوری دور پر مشتمل رہا ہے اس ستر سالہ دور میں کیا عوامی مسائل حل ہوئے ہیں۔ ہمارا حکمران طبقہ غیر ضروری اور غیر اہم مسائل کو حل کرکے یہ اعلان کرتا ہے کہ عوام کے مسائل حل کیے جا رہے ہیں، حالانکہ عوام کے حقیقی مسائل میں سے ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔

مثال کے طور پر مہنگائی ہے، کیا مہنگائی میں کوئی کمی ہوئی ہے؟ دوسرا اہم مسئلہ بے روزگاری ہے، آج لاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لے کر روزگارکی تلاش میں خوار ہو رہے ہیں ۔ روزگار میرٹ کے بجائے محض ذاتی حوالوں سے نا اہل نوجوانوں کو دیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں کارکردگی میں بدترین ناانصافی پیدا ہو رہی ہے۔

اہل لوگ دھکے کھاتے پھررہے ہیں اور نا اہل لوگوں کے ہاتھوں میں ملک کا مستقبل آگیا ہے جس کا نتیجہ پورا انتظامی سیٹ اپ تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔ انتظامی سیٹ اپ کی خرابی سے ہر طرف افراتفری اور نا انصافی کا دور دورہ ہے ۔ رشوت نچلی سطح سے اعلیٰ سطح تک طاعون کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔

ترقی یافتہ دنیا ہی میں نہیں بلکہ بعض پسماندہ ملکوں میں بھی تعلیم اور علاج کو اولیت حاصل ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں تو تعلیم اور علاج مفت فراہم کیے جاتے ہیں لیکن بعض پسماندہ ملکوں میں بھی تعلیم اور علاج عوام کو مفت فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کیا ہمارے ملک میں عوام کی یہ بنیادی ضرورتیں مفت فراہم کی جارہی ہیں۔ پانی ایک سب سے بڑی انسانی ضرورت ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔

ہمارے ملک میں انسانی فضلہ ملا پانی عوام کو سپلائی کیا جارہاہے۔یہ ہیں وہ ضرورتیں جن کے لیے عوام اشرافیہ کو ووٹ دیتے ہیں اور ان ضرورتوں کی تکمیل سے ہی ووٹ کا تقدس برقرار رہتا ہے۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ووٹ کے تقدس کی باتیں وہ لوگ کررہے ہیں جن پر اربوں روپوں کی کرپشن کے نہ صرف الزامات ہیں بلکہ ان الزامات میں مقدمات چل رہے ہیں۔ جن محترمین پر اربوں روپوں کی کرپشن کے الزامات ہیں اور الزامات کے ثبوت پیش کیے جارہے ہیں ان کے خلاف احتساب کو ووٹ کے تقدس کی پامالی کہا جارہا ہے۔ کیا ووٹ کی اور عوام کی اس سے بڑھ کر توہین ہوسکتی ہے؟

ہر ملک میں اپوزیشن حکومت کی سب سے بڑی ناقد ہوتی ہے لیکن یہاں حکمرانوں اور اپوزیشن کا عالم یہ ہے کہ ’’من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی‘‘ والی صورتحال ہے۔ ایک اپوزیشن جماعت دوسری ایسی حکمران جماعت کو اقتدار کی مدت پوری کرنے دیتی ہے جو کرپشن کے حوالے سے گلی گلی بد نام ہے اس سیاسی بد دیانتی کو مفاہمتی سیاست کا نام دیا جاتا ہے اور مفاہمتی سیاست کے اداکاروں پر فخرکیا جاتا ہے۔

اس بد ترین کارکردگی کے باوجود احتسابی اداروں کے وقار کی جس طرح پامالی کی جارہی ہے عدلیہ ہی کی نہیں معزز جج صاحبان کی جس طرح تذلیل کی جارہی ہے پاکستان ہی کی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہمارے محترم سیاست دانوں نے یہ دلچسپ طریقہ اختیار کرلیا ہے کہ صاف لفظوں میں یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم عدالت عظمیٰ کے فیصلے نہیں مانتے۔ اس موقف کی حمایت میں یہ چال چلی جارہی ہے کہ 20 کروڑ عوام عدالت عظمیٰ کے فیصلے ماننے کے لیے تیار نہیں۔

اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ مختلف ذرایع اور سرمائے کے ذریعے 25،30 ہزار لوگوں کو جمع کرکے ان سے سوال کیا جاتا ہے عدالت کے فیصلے منظور ہیں؟ سادہ لوح اور مجبور عوام کے گروہوں سے کہلایا جاتا ہے عدالت کے فیصلے نا منظور۔

اپنے ذاتی جماعتی مفادات کے لیے یہ جو خطرناک کھیل کھیلا جارہاہے کیا ہماری اشرافیہ اس کے انجام سے واقف ہے۔ اس ملک کو 70 سالوں سے لوٹ مار کا بازار بناکر رکھ دیا گیا ہے اپوزیشن کا ڈھونگ رچانے والے معززین آج جو منفی اور غیر جانبدارانہ کردار ادا کررہے ہیں کیا وہ جانتے ہیں کہ اگر عدالت کو بے توقیر اور بے دست و پا کردیاگیا توکیا پورا ملک ایک افرا تفری اور بد ترین انارکی کا شکار نہیں ہوجائے گا۔

ہوسکتا ہے اشرافیہ کا یہ خیال ہو کہ اس طرح کا شدید دباؤ ڈال کر عدلیہ کو احتساب سے روکا  جائے یا اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جائیں لیکن اس کا ایک انتہائی خطرناک پہلو یہ خدشہ ہے کہ 70 سال سے زندگی کی معمولی معمولی ضرورت، معمولی معمولی خوشیوں سے محروم عوام ظالموں کے خلاف باہر نہ نکل آئیں تو کیا انقلاب فرانس کی تاریخ نہیں دہرائی جاسکتی؟

اشرافیہ کی بد قسمتی یہ ہے کہ میڈیا میں اشرافیہ ان کے خاندانوں کی لوٹ مارکی داستانیں ملک کے چپے چپے میں پھیل گئی ہیں اور عوام میں آئے دن اشتعال میں اضافہ ہورہاہے۔ اشرافیہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں۔ اشرافیہ کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ اس خطرناک صورتحال میں اپنے مستقبل اور اپنی بقا کا تو خیال کرے۔ جب آپ کہتے ہیں کہ 20 کروڑ عوام ہمارے ساتھ ہیں تو آپ کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ لاکھ ڈیڑھ لاکھ (زیادہ سے زیادہ) عوام کا جو مجبوریوں اور نا سمجھی میں آپ کے جلسوں میں آجاتے ہیں کیا یہی ہمارے ملک کی کل آبادی ہے؟

ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور ہیں وہ 70 سال سے ایک عذاب ناک زندگی گزار رہے ہیں، ہمارے ملک میں دیہی آبادی کا 60 فی صد حصہ ہاریوں اورکسانوں پر مشتمل ہے، ہمارے ملک میں چھوٹے تاجر طبقات ہیں۔ ہمارے ملک میں ہزاروں  لاکھوں اساتذہ ، سرکاری ملازمین ، وکلا ، ڈاکٹرز، صحافی،انجینئرز ہیں۔ کیا یہ اپنی زندگیوں سے خوش ہیں، خدانخواستہ اگر حالات انارکی کی طرف چلے جاتے ہیں تو ان کروڑوں عوام کا رویہ کیا ہوگا؟ اشرافیہ آج عوام ہمارے ساتھ ہیں کہ مفروضات پر اتنی بڑی اور خطرناک لڑائی لڑرہی ہے کیا اس ملک کے اکیس کروڑ عوام اس اشرافیہ کے ساتھ ہوںگے جس نے 70 سال سے ان کی زندگی کو عذاب بنایا ہوا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔