در برگِ لالہ و گل

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 15 مارچ 2018

اقبال کے چاہنے والے بہت ہیں اور ان کی شخصیت اورکلام پر لکھنے والے بھی بہت، ان ہی میں ایک افضل رضوی ہیں۔ انھوں نے کلام اقبال کا مطالعہ نباتات کے حوالے سے کیا ہے۔ ان کی کتاب کا عنوان ہے ’’در برگ لالہ و گل‘‘ محمود عزیزکہتے ہیں کہ علامہ اقبال نے اپنے کلام میں نباتات کا ذکر حقیقی اور مجازی دونوں معنوں میں کیا ہے۔ گل و لالہ کو ان کے کلام میں اسی طرح مرکزیت حاصل ہے جیسے ان کے فلسفیانہ افکار میں خودی کو ہے۔

افضل رضوی سائنس کے استاد ہیں۔ بہت وقت مشرقِ وسطیٰ میں درس وتدریس میں گزرا ہے۔ آپ آسٹریلیا میں تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ وہاں اردوکو زندہ اور متحرک رکھنے میں مصروف ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ علامہ اقبال سے ان کی روحانی وابستگی اسکول کے زمانے سے ہے۔ جب وہ نویں جماعت کے طالب علم تھے تو چھٹی کے دن صبح سویرے کرکٹ کھیلنے دوستوں کے ساتھ مینار پاکستان جاتے تھے اور واپسی میں علامہ کے مزار پر حاضر ہوکر شکوہ اور جواب شکوہ کے اشعار پڑھاکرتے تھے۔ یہ دونوں نظمیں انھیں ازبر تھیں۔

افضل رضوی نے ’’دربرگ لالہ وگل‘‘ پر ایک لمبے عرصے تحقیقی کام کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’علامہ اقبال اگرچہ فکر و فلسفہ کے شاعر ہیں لیکن ان کی فکر وفلسفے میں بھی قدرت کے پیدا کردہ جمادات و نباتات کو ایسے ایسے انداز میں قرطاس ابیض پر بکھرتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ان کے تخیل کی بلند پروازی جب لفظوں کو موتیوں میں پرونے لگتی ہے تو وہ قدرت کے ان حسین اور دلکش پھولوں اور بیل بوٹوں کو اپنے اشعارکی اس طرح زینت بناتے ہیں کہ قاری ہو یا محقق اس سے استفادہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘

علامہ اقبال نے سو سے زیادہ مختلف قسم کے پھولوں، پھلوں، جڑی بوٹیوں، درختوں کو اپنے اشعارکی زینت بنایا۔ افضل رضوی ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کلام اقبال میں ان نباتات کا استعمال اس خوبی سے کیا گیا ہے کہ مناظر فطرت کی ترجمانی کا حق ادا ہوگیا ہے۔ مثلاً اقبال کا ایک شعر ہے۔

کس قدر اے مے! تجھے رسمِ حجاب آئی پسند

پردۂ انگور سے نکلی تو میناؤں میں تھی

اس شعر میں زور لفظ ’’مے‘‘ پر ہے اور اس سے مراد شراب نہیں عشق حقیقی ہے۔ انگور ان لوازمات میں سے ایک ہے جن سے شراب تیار ہوتی ہے۔ اصل مدعا یہ ہے کہ جیسے شراب پہلے رس کی صورت میں انگور کے اندر پنہاں تھی اور ایک مرتبہ پھر صراحیوں کے اندر پنہاں ہوگئی اسی طرح عشق حقیقی بھی پردوں میں پنہاں رہے تو اچھا ہے۔

تلاش دانہ در صحرا گراں است

یعنی یا رسول اﷲؐ جس پرندے یعنی امت کی پرورش آپ نے انجیر سے کی تھی اس کے لیے صحرا میں دانہ تلاش کرنا گراں گزرتا ہے۔ گویا اقبال عارض ہیں کہ مسلمان ذلت اور غلامی کی زندگی بسر کررہے ہیں کیونکہ انھوں نے محنت کی عظمت کا سبق بھلادیا ہے۔‘‘

اشعار میں توجہ بھی ہے، افضل رضوی لکھتے ہیں ’’فارسی کلام ہو یا اردو، ہر طرف چراغ و لالہ جلتے نظر آتے ہیں اور شاعر کو اس بات پر ناز ہے کہ اس نے زندگی کا نغمہ چھیڑکر لالے کی آگ کو تیزکیا ہے۔ نیزشاعرکی نظر میں فطرت میں رنگ و بواس پیکر خاکی کے دم سے ہے۔ لالہ و گل کی رنگین جلوہ سامانیاں اور فطرتِ آشفتہ کی شیرازہ بندی اسی کی نگاہِ کرشمہ سازکا نتیجہ ہیں۔ یہ ایک خوبصورت پھول ہے لیکن جب یہ صحرا میں کھلتا ہے تو یہ قوت و طاقت کا مظہر بن جاتا ہے۔ اسی لیے یہ نامساعد حالات میں پرورش پانے کی وجہ سے خودی کی مثبت علامہ بن کر ابھرتا ہے۔

افضل رضوی لکھتے ہیں ’’علامہ اقبال کے اردو کلام میں لالہ کا پہلا استعمال بانگ درا کی نظم ’’درد عشق‘‘ میں ملتا ہے جہاں انھوں نے عشق کو جذبہ ایثار و خدمت کے طور پر پیش کیا ہے۔ علامہ کی خواہش تھی کہ عشق کی وہ حالت جو قرون اولیٰ میں تھی، وہی آج کے دور فساد وانتشار میں پھر سے بیدار ہو جائے۔ علامہ کہتے ہیں کہ اگر درد عشق زمانے کی ناہمواریوں کی وجہ سے الگ تھلگ ہوجائے تو لالے کا پیالہ شرابِ عشق سے محروم ہو جاتا ہے اور شبنم کے آنسو پانی کے قطرے بن جاتے ہیں۔‘‘

خالی شرابِ عشق سے لالے کا جام ہو

پانی کی بوند گریۂ شبنم، کا نام ہو

لالہ کی علامت علامہ نے مومن اور مسلمان کے لیے بھی استعمال کی ہے وہ کہتے ہیں:

ضمیر لالہ میں روشن چراغِ آرزو کر دے

چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے

افضل رضوی اقبال کی ایک رباعی کا جو لالہ طور میں شامل ہے حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

گل لالہ سرخ اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی پتیوں میں عشق کی رنگ آمیزی ہے اور عاشق کی رگ و پے میں عشق کا شور ہوتا ہے، اگر عاشق کا سینہ چیرکر دیکھا جائے تو اس میں اس کے عشق ہی کی خوں ریزی ملے گی۔

یہ رنگ لالہ رنگ آمیزیٔ عشق

یہ جان ما بلا انگیزیٔ عشق

اگر ایں خاکداں مرا واشگافی

درونش بنگری خوں ریزیٔ عشق

افضل رضوی لکھتے ہیں کہ کلام اقبال میں ’’گل‘‘ ایک نئے انداز میں علامت بن کر سامنے آتا ہے۔ ان کے ہاں گل کا استعمال محض شاعرانہ ذوق کی تسکین اور رنگینیٔ بیان کے لیے نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے فطرت کے اس سحر انگیں حسن کو جسے پھول کہتے ہیں جمالیاتی ذوق کی تسکین تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس کا ناتا فکر وفلسفے سے جوڑا ہے اور حقائق زندگی کی پردہ کشائی کا کام لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

علم کے حیرت کدے میں ہے کہاں اس کی نمود

گل کی پتی میں نظر آتا ہے رازِ ہست و بود

علامہ اقبال کے کلام میں جس طرح لالہ اورگل مختلف تراکیب میں جلوہ افروز ہوتے ہیں اسی طرح برگ کو بھی نہایت نادر اور شستہ تراکیب میں استعمال کیا گیا ہے، انھوں نے برگ کے استعمال سے حسنِ فطرت کی عکاسی کی ہے اورکہیں کہیں برگ کا استعارہ افرادِ قوم کے لیے بھی لائے ہیں۔ تصویر درد، میں اپنے ہم وطنوں کی بد قسمتی اور باہمی رنجش کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے پھول چننے والے! اس باغ میں برگ گل تک کا نشان نہ چھوڑنا کیونکہ اس باغ کے رکھوالے ایک دوسرے سے رزم آرائی کے لیے صفیں باندھے ہوئے ہیں۔

نشانِ برگ تک بھی نہ چھوڑا اس باغ میں گلچیں

تری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں

افضل رضوی لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کے کلام میں ’’چمن‘‘ کبھی تو حقیقی معنوں کا لباس زیب تن کیے سامنے آتا ہے اور کبھی مجازی شکل اختیارکر لیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں معنوں میں اس قدر پرکشش بن جاتا ہے کہ قاری اس کی رعنائیوں میں کھو جاتا ہے۔ علامہ نے پھول،کانٹے، پتے، چھال اور شاخ جو درخت کے مختلف حصے ہیں ان کا تذکرہ انفرادی اور اجتماعی ہر دو طرح سے کیا ہے۔ اس تذکرے میں انھوں نے نباتات کے ایک اہم عنصر’’دانہ‘‘ کو بھی فراموش نہیں کیا ہے اور اسے مختلف زاویوں سے اپنے کلام میں لائے ہیں جسے دانۂ خرمن، دانۂ دل، دانۂ گوہر، دانۂ پروین، پیام مشرق میں ایک جگہ زمین پر گرے ہوئے دانے کی بابت کہتے ہیں کہ اس کو چننے والا اور ہے اور دانۂ پروین سے خوراک حاصل کرنے والا اور ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم ایک ہی کھلیان کے دانے ہیں لیکن ایک دوسرے سے جدا اور بیگانگی کا شکار ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

بدلے یک رنگی کے یہ نا آشنائی ہے غضب

ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔