بلوچستان، سینیٹ کے انتخابات

جاوید قاضی  جمعرات 15 مارچ 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

عام انتخابات ملک کی دہلیز پر دستک دے رہے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات ہوں  یا سینیٹ چیئرمین کے،  یہ سب عام انتخابات کے تناظرمیں ہے اور میاں صاحب محمد علی جناح کے سیاسی وارث! ایسا بھی ہوا کہ ان کے داماد کیپٹن صفدر نے پارلیمنٹ میں تقریرکرتے ہوئے میاں صاحب کو ذوالفقارعلی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کا تسلسل قرار دیا۔

مجھے تو ایسا بھی لگنے لگا ہے کہ کہیں انتخابات کے بیانیے میں ان کو چی گوویرا یا فیڈل کاسترو نہ قرار دے دیا جائے، ایسا سب کچھ ہوتا ہے۔ گھوڑے دوڑتے بھی ہیں اور پائوں کے بل گر بھی جاتے ہیں۔کل میاں صاحب خود گھوڑے دوڑاتے تھے آج کوئی اور۔ چہرے وہ ہی ہیں کردار تبدیل ہو چکے ہیں۔

عمران خان نے کرپشن کے خلاف جو بیانیہ دیا تھا وہ سینیٹ کے الیکشنز میں اپنے آپ پروف نہ کر سکے اور کرتے بھی کیسے، یہ کوئی عام انتخابات یا عام ووٹرکا سوال نہ تھا یہ کوئی بلاواسطہ الیکشنز نہیں بلکہ بلواسطہ الیکشنز تھے، یہاں معاملات کچھ اور ہیں۔ بڑی انرجی کے ساتھ میاں صاحب سینیٹ کے میدان میں اترے تھے اور یہ یقین تھا کہ وہ اپنا چیئرمین منتخب کروا لیں گے۔ آخری وقت تک حاصل بزنجو ان کے چہیتے امیدوار تھے پھر نہ جانے کیا ہوا گیم ہاتھ سے نکل گئی۔

سنا ہے حاصل بزنجو کو نہ اچکزئی کی حمایت حاصل تھی نہ اختر مینگل کی اور ان حالات میں جماعت اسلامی نے بھی اپنا رخ بدل لیا۔ حاصل بزنجوکو کسی اور نے نہیں بلوچستان نے ہی پیچھے ہٹا دیا اور اس طرح پوری PML-N نے شکست کھائی۔ ایک بزنجو ہار گئے اور ایک بزنجو جیت گئے ۔ ایک بزنجو بیانیہ کی بات کرتے تھے اور دوسرے گھوڑوں کی بات کرتے تھے۔

ہم اُس ارتقائی منزل پر ہیں جہاں عام انتخابات میں برداریوں اور پنچائیتوں کی روایات تھیں وہ بہت حد تک تحلیل تو ہوئی ہیں مگر بلواسطہ انتخابات یعنی سینیٹ کے انتخابات کی شکل ایسی نہیں بن رہی۔ یہاں پر ایسے ممبران کو بھی چنا گیا جن کے انتخاب سے پارٹی کے فنڈز بڑھے اور کہیں اپنی جیبیں بھی بھریں۔

برطانیہ میں تو Upper House کو House of Lords کہا جاتا ہے یعنی شرفاء کا ہائوس مگر یہاں ماجرا  تو یہ ہے کہ دونوں ہائوسز میں شرفاء بھرے ہوئے ہیں۔ اِن دونوں ایوانوں میں اگرکہیں متوسط طبقے سے آتے تھے تو وہ صرف متحدہ  لاتی تھی۔ اس دفعہ پیپلز پارٹی نے ایک غریب دلت  لڑکی کرشنا کماری کوہلی سینٹر منتخب کروا کر چکمہ ضرور دیا ہے مگر آج کی پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے بیانیے سے بہت دور جا چکی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کونسا حلقہ ہے عام انتخابات میں جہاں الیکشنز لڑنے کے لیے دس کروڑکی ضرورت نہ ہو، اگر یہ بات ٹھیک ہے تو یہ کہنا کہ بیانیہ مضبوط ہو رہا ہے برادری اور پنچائیتی سیاست کمزور ہو رہی ہے تو  غلط ہو گا یا پھر ایسا کہیے کہ بیانیہ تو مضبوط ہو رہا ہے اور شرفاء بھی کہیں نہیں جا رہے تو پھر ایسا ہوا نہ کہ جیسے م ۔ ن راشد کہتے ہیں۔

’’کہ محبت کرنا امیروں کی بازی ہے‘‘

اس طرح سیاست کرنا بھی امیروں کا کھیل ہے، اگر پاکستان کی سیاست کو اِن سینیٹ الیکشنز کے تناظر میں دیکھا جائے یعنی سینیٹ کا چیئرمین ایک ایسا شخص بنا جو کہ آزاد امیدوار تھا۔ ان کا تعلق کسی پارٹی سے نہیں، نہ کوئی نظریہ، نہ آئین نہ منشور۔ اس حقیقت میں جو اہم بات ہے وہ ہے بلوچستان کی تاریخ، یہ نہیں کہ ایک آزاد امیدوار سینیٹ کا چیئرمین کیسے بنا۔ ایک قبائلی، پسماندہ اور بے ترتیب سیاسی روایات کا مجموعہ بلوچستان نے اپنی پسماندگی سے پاکستان کی تمام سیاست پر گہرے اثرات چھوڑے۔ جو بات قدوس بزنجو کہتے ہیں کہ ہم وزیر اعظم بھی بلوچستان سے ہی لائیں گے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ ہو گا بلکہ تشویش اور زیادہ بڑھے گی۔

کیونکہ بلوچستان، پاکستان کا ایک پسماندہ صوبہ ہے، اُن کی سیاست بھی پس ماندہ ہے اور وہاں سے آزاد امیدواروں نے بھی آنا ہے جن کا نہ کوئی نظریہ ہے نہ منشور۔ بلوچستان سے صرف دو پارٹیاں ہیں جو کہ نظریے اور سیاسی سوچ رکھنے کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں۔ ایک حاصل بزنجو کی پارٹی اور دوسری  محمود خان اچکزئی کی پارٹی۔ مگر ان دونوں پارٹیوں کا سیاسی اثر محدود طبقے تک ہے نہ کہ پورے بلوچستان پر۔

ہمارا دیہی سندھ یا سائوتھ پنجاب کتنا ہی برادری والا اور روایتی ہو مگر فاٹا اور بلوچستان سے کم۔ جو بات میاں صاحب کو سمجھنی چاہیے کہ جس طرح آصف زرداری اور عمران خان نے سینیٹ کے الیکشنز میں کردار ادا کیا ہے وہی گیم نواز شریف نے ثناء اللہ زہری کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے کھیلا تھا۔

عام انتخابات جو کہ صرف چند ماہ دور ہیں وہ اپنے نوعیت کے نایاب انتخابات ہونگے اور اگر شفاف ہوئے تو ان انتخابات میں بہت Upsets دیکھنے کو ملیں گے۔ میری نظر میں شفاف انتخابات کی تشریح وہ ہی ہے جو چیف جسٹس کی نظر میں ہے۔

افسر شاہی ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں منتقل کی جائے گی اور سرکاری اشتہاروں میں کسی پارٹی لیڈر کی تصویر شایع نہیں کی جائے گی۔ ترقیاتی فنڈز پر پابندی لگائی جائے گی تا کہ الیکشنز میں رشوت کے طور پر یہ فنڈز استعمال نہ کیے جائیں۔

ہم سینیٹ کے انتخابات کو جمہوری روایات کے مطابق تو نہیں پاتے مگر جمہوریت رواں ہے، نہ نواز شریف جناح ہیں، نہ وہ بھٹو ہیں، نہ بینظیر ہیں مگر وہ ایک عوامی لیڈر ہیں اور ان کی یہ حیثیت اب بھی برقرار ہے۔ اُن کی اس حیثیت کا احترام کرنا بھی چاہیے کیونکہ بالآخر طاقت کا سرچشمہ تو عوام ہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔