ٹریولرز ڈائیریا؛ سفر سے جُڑا مرض

ندیم سبحان میو  جمعرات 15 مارچ 2018
دوران سفر یا سفر کے بعد ڈائیریا لاحق ہوجائے تو اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے پائے۔  فوٹو: سوشل میڈیا

دوران سفر یا سفر کے بعد ڈائیریا لاحق ہوجائے تو اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے پائے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

بعض افراد کو دوران سفر یا سفر کے بعد پیٹ میں گڑبڑ محسوس ہوتی ہے اور پھر انھیں دست ہونے لگتے ہیں۔

سفر کے آغاز پر وہ بالکل تندرست ہوتے ہیں مگر چند گھنٹے یا چند روز گزرنے کے بعد ان کا پیٹ خراب ہوجاتا ہے۔ مروڑ اٹھنے لگتے ہیں اور اسہال کی شکایت ہوجاتی ہے۔ دست آنے کے ساتھ متلی بھی ہوتی ہے اور پیٹ میں نفخ محسوس ہوتا ہے یعنی اپھارا آجاتا ہے۔ طبی اصطلاح میں اس کیفیت کو ’’ ٹریولرز ڈائیریا‘‘ کہتے ہیں۔ چند گھنٹوں کے سفر کے علاوہ ایک سے دوسرے علاقوں میں جانے والے لوگ اس کیفیت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ خاص طور سے معتدل خطوں کے رہائشی جب دوسر ے علاقوں یا ممالک میں پہنچتے ہیں تو ٹریولرز ڈائیریا کا شکار ہوجاتے ہیں۔

مختلف ممالک میں ٹریولرز ڈائیریا کے لیے مختلف اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ انڈیا میں اسے ’’ دہلی بیلی‘‘ اور مشرق بعید کے ممالک میں ’’ ہانگ کانگ ڈاگ‘‘ کہا جاتا ہے۔

ٹریولرز ڈائیریا کتنا عام ہے؟
بیس سے پچاس فی صد مسافر اس کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس کا انحصار ان ممالک کی آب و ہوا پر ہے جہاں وہ جارہے ہیں۔ امریکی ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول ( سی ڈی سی) کی رپورٹ کے مطابق مسافر سب سے زیادہ ڈائیریا میں مبتلا ہوتے ہیں۔ سی ڈی سی کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ ایک کروڑ افراد دوران سفر اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ اگرچہ کسی بھی خطے کے رہنے والے افراد کو دوران سفر یہ شکایت ہوسکتی ہے، مگر اس کا زیادہ شکار صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک کے شہری لاطینی امریکا، افریقا، مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں پہنچنے کے بعد ہوتے ہیں۔ یعنی ترقی یافتہ اقوام کے باسی جب تیسری دنیا میں پہنچتے ہیں تو ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگ جاتے ہیں۔

ٹریولرز ڈائیریا لاحق ہونے کے امکانات مرد و زن دونوں کے لیے یکساں ہیں۔ عموماً نوجوان اس میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں کیوں کہ وہ الم غلم کھانے کے عادی ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایچ آئی وی ، کینسر اور ذیابیطس مریض اور وہ افراد جو پہلے ہی آنتوں کی خرابی کا شکار اس مرض میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔ جو لوگ تیزابیت کم کرنے کی ادویہ استعمال کررہے ہوں، انھیں بھی سفر کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا ہوگا کیوں کہ وہ اپنی منزل کی جانب بڑھتے ہوئے یا وہاں پہنچ کر ٹریولرز ڈائیریا کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دواؤں کے استعمال کی وجہ سے ان کے معدے میں تیزاب کی مقدار اس حد سے کم ہوجاتی ہے جو انھیں ٹریولرز ڈائیریا بیکٹیریا سے بچانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔

اسباب
عام طور پر اس کی وجہ جراثیم سے آلودہ غذا کھانا یا آلودہ پانی پینا ہے۔ زیادہ تر یہ سمجھا جاتا ہے کہ دوران سفر پیٹ ناقص غذ اکھانے سے خراب ہوتا ہے مگر ماہرین کہتے ہیں کہ ٹھوس غذا سے زیادہ آلودہ پانی اس کا سبب بنتا ہے۔ سی ڈی سی کے مطابق ٹریولرز ڈائیریا کے اسّی فی صد کیسز کا سبب بیکٹیریا ہوتے ہیں۔ مسافروں میں متلی، اسہال اور پیٹ کے مروڑ کا سبب بننے والا سب سے عام بیکٹیریا enterotoxigenic E. coli کہلاتا ہے ۔یہ ای کولی بیکٹیریا کی ایک قسم ہے۔ ای کولی کی بیشتر اقسام بے ضرر ہوتی ہیں، تاہم چھے اقسام معدے اور آنتوں کی خرابی کا باعث بنتی ہیں۔ ان اقسام کو مجموعی طور پر ای ای سی گروپ کہا جاتا ہے۔

علامات
اس کی علامات مختلف ہوتی ہیں۔ عام طور پر یہ سفر کے بعد ایک ہفتے کے دوران ظاہر ہوتی ہیں اور تین سے چار دن تک برقرار رہتی ہیں۔ متأثرہ فرد کو چوبیس گھنٹے میں پانچ بار تک حاجت ہوتی ہے۔ ہر بار پیٹ میں مروڑ اور درد کی شکایت بھی ہوسکتی ہے۔ بعض اوقات بخار ہوسکتا ہے اور اجابت میں خون بھی آسکتا ہے۔

تشخیص اور علاج
اگر کوئی سفر کے بعد اسہال اور متلی وغیرہ میں مبتلا ہوتا ہے تو زیادہ امکان یہی ہوتا ہے کہ وہ ٹریولرز ڈائیریا کا شکار ہوا ہے۔ اگر یہ کیفیت شدید نہیں ہے تو پھر میڈیکل اسٹورز سے عام ملنے والی ادویہ سے اس میں افاقہ ہونے لگتا ہے اور تین سے چار روز میں طبیعت کافی بہتر ہوجاتی ہے۔ اگر طبیعت میں بہتری نہ آئے تو پھر ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ وہ فضلے کا ٹیسٹ تجویز کرے گا جس سے ڈائیریا کا سبب بننے والے بیکٹیریا کی تشخیص ہوجائے گی اور پھر اسی مناسبت سے دوائیں دی جائیں گی۔

دوران سفر یا سفر کے بعد ڈائیریا لاحق ہوجائے تو اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے پائے۔ اس کے لیے جراثیم سے پاک پانی اور مشروبات وقفے وقفے سے پیتے رہیں۔ ٹریولرز ڈائیریا خطرناک مرض نہیں ہے۔ اس کیفیت کا شکار ہونے والے بیشتر افراد دو تین میں بغیر کسی علاج کے ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ نوّے فی صد افراد ایک ہفتے میں صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ بہت کم صورتوں میں یہ مرض خطرناک ثابت ہوتا ہے۔

بچاؤ
غذا چوں کہ انفیکشن کا بڑا سبب بنتی ہے، لہٰذا اس پر خصوصی توجہ دی جائے۔ دوران سفر لب سڑک قائم ہوٹلوں اور ریستورانوں پر کھانے پینے سے گریز کریں۔ سفر زمینی ہو یا فضائی بہتر یہ ہے کہ اپنی طبیعت کی مناسبت سے گھر پر کھانا وغیرہ پکا کر ساتھ لیا جائے۔ اگر آپ کو ہر سفر کے بعد یا کبھی کبھار ٹریولرز ڈائیریا ہوجاتا ہے تو پھر زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ بڑے اسٹورز پر ملنے والی اچھے برانڈز کی ڈبّا بند خوراک عام طور پر محفوظ ہوتی ہے۔ اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ کُھلی غذاؤں، نلکے کے پانی اور کھلے مشروبات کے استعمال سے گریز کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔