سیتلا مندر

مدثر بشیر  اتوار 7 اپريل 2013
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

ہندوازم اور بدھ ازم میں کئی دیوی‘ دیوتا بیماریوں کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔

جلد کی بیماریوں کے حوالے سے ہندوازم میں مائی سیتلا جو کہ ہندوستان کے کچھ علاقوں میں جوارسرو کے نام سے بھی معروف ہے، تمام دنیا کے ہندوؤں میں انتہائی متبرک مانی جاتی ہے۔ اس طرح بدھ ازم میں جلد کی بیماریوں کے حوالے سے ہران سابری اور وج دیوگنی کا نام انتہائی مقدس جانا جاتا ہے۔

پنجاب کے کئی مقامات پر بزرگان دین کے مزارات کے ساتھ ایسی کرامات منسوب ہیں۔ لوگ ان بزرگوں کے مزارت پر جا کر جھاڑو پھیرتے‘ نمک رکھتے اور ملحقہ کسی تالات کے پانی سے نہاتے ہیں۔ جلد کی بیماریوں کے حوالے سے گڑھی شاہو لاہور میں سید نظام الدین چشتی المشہور پیر موہکہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ کئی مزارات پر موجود درختوں کو بھی متبرک مانا گیا۔ لوگ ان درختوں کے پتوں کو کئی دوائیوں میں استعمال کرتے تھے۔ اس حوالے سے مسجد وزیر خان لاہور میں مدفون حضرت سید اسحاق گاؤزنی کا مزار ایک درخت کے باعث کئی صدیوں تک پیر سبز کے نام سے معروف رہا۔

اب ہم بات کرتے ہیں سیتلا مائی کی جو کہ سیتلا ماں‘ سیتلا اماں‘ ماتا سیتلا اور لاہور میں دودھ والی سیتلا ماں اور دیگر علاقوں میں ماتا سیتلا کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ لغت میں شیتلا کے معنی چیچک کے ہیں۔ آج بھی ہمارے کئی دیہاتوں میں اگر کسی بچے کو چیچک نکل آئے تو استفسار کرنے پر کہا جاتا ہے کہ ماتا نکلی ہوئی ہے۔ اسی طرح ہندوستان‘ بنگلہ دیش کے کئی دیہاتی علاقوں میں چیچک اور دیگر جلدی بیماریوں سے شفاء کے لئے سیتلا ماں کا امتحان‘ سیتلا ماں کا مندر اور سیتلا تالاب کا پانی استعمال کیا جاتا ہے۔

لاہور سرکلرروڈ پر موجود سیتلا مندر کے بارے میں کنیالال ہندی اپنی کتاب تاریخ لاہور ( ص200) پر یوں لکھتے ہیں:
’’یہ متبرک مکان شاہ عالمی اور لوہاری دروازے کے وسط میں‘ شہر کے باہر واقع ہے۔ جس کو ’’سیتلا دیوی کا استھان‘‘کہتے ہیں۔ اگرچہ شب و روز مقتدان ہنود اس دیوی کی پرستش بہ کمال ارادت مندی سے کرتے ہیں۔ مگر خاص پرستش اس حالت میں ہوتی ہے جب چیچک کی بیماری کا زور ہوتا ہے۔ ہزاروں لوگ جن کے بچے چیچک کی بیماری سے اچھے ہوتے ہیں‘ وہ بڑی خوشی کے ساتھ اس دیوی کی آ کر پوجا کرتے ہیں۔ حتیٰ المقدور نذرانہ چڑھاتے ہیں۔ یہ استھان ہندو‘ مسلمان دونوں قوموں کی مرجع ہے۔

ہندوؤں کے بغیر اہل اسلام بھی شفاء پانے عارضہ چیچک کے اپنے بچوں کو یہاں لا کر نذرانہ چڑھاتے ہیں۔ یہ مکان سکھوں کی سلطنت سے پہلے ایک مختصر سا چبوترہ بنا ہوا تھا، سکھی وقت میں بہت بڑا مکان بن گیا اور بہت سی لاوارث افتادہ زمین‘ جو مہنت نے اپنے مکان کے متعلق کر لی تھی‘ وہ اب ملکیت اس استھان کی قرار پا گئی ہے۔ کرایہ اس کا سب مہنت لیتا ہے اور چڑھاوے کی روزمرہ آمدنی علاوہ ہے۔ اس استھان کا احاطہ مربع بہت بڑا بنا ہوا ہے۔ پختہ دیوار سے احاطہ محیط ہے، دروازہ مکان کا شمال کی سمت کو ہے اور دروازے کی دونوں سمت غرب و شرق دکانیں پختہ بنی ہیں‘ جس میں کرایہ دار رہتے ہیں۔

دروازہ مکان کا پختہ مکلف بنا ہوا ہے اور ڈیوڑھی اس کی مستف و مقطع ہے۔ ڈیوڑھی کے اوپر بھی ایک چوبارہ خوش قطع بنا ہے۔ جب ڈیوڑھی سے آگے بڑھیں تو ایک وسیع میدان آتا ہے جس کا غربی حصہ بلند ہے، اس پرزینہ چڑھ کر جاتے ہیں۔ اس چبوترے پر چند درخت پیپل کے اور جنڈی کا ایک درخت ہے جس کو لوگ پوجتے ہیں اور اگر چیچک کی پھنسی کوئی پک جائے تو اسی درخت کے پتوں کا سفوف اس پر ڈالتے ہیں جس سے بیمار اچھا ہو جاتا ہے۔ اس بلند چبوترے کے غربی حصے میں چند کوٹھریاں بنی ہوئی ہیں۔

جس میں مہنت خود رہتا ہے اور اسباب اس کا رکھا رہتا ہے۔ اس چبوترے پر ایک چاہ چرخی دار ہے۔ چاہ کے شرق کی طرف خاص مندر سری دیو جی کا پختہ چوند گچ بنا ہوا ہے۔ اس مندر کا دروازہ بہ سمت شمال ہے اور دروازے کے آگے ایک برانڈہ مقطع بنا ہے۔ مندر کے اندر کی عمارت بھی پختہ چوندگچ و منقش ہے۔ دروازے کے محاذ کی دیوار میں ایک منقش طاق ہے جس میں صورت سنگین سری دیوی جی کی رکھی ہے۔ اسی کو سب لوگ ماتھا ٹیکتے اور پرستش کرتے ہیں۔

مندر کے باہر‘ برانڈے کے اندر ایک پتھر کا شیر ایک چبوترے پر رکھا ہوا ہے۔ اس کی بھی پوجا ہوتی ہے۔ مندر کی سقن قالبوتی ہے اور اوپر خوش نما گنبد بنا ہے۔ مندر سے بدسمت گوشۂ لگنی بہت سے مکانات وکوٹھریاں بنی ہوئی ہیں جس میں سادھو رہتے ہیں یا مہنت کے گائے‘ بیل‘ بھینس وغیرہ باندھے جاتے ہیں۔ مندر کے دروازے سے باہر کے دروازے تک سیدھی سڑک بنی ہے۔ سڑک سے غرب کی سمت کو ایک چاہ چرخی دار اور چند سادھ پختہ بنے ہوئے پہلے مہنتوں کے ہیں اور ایک مندر شوالہ پختہ چوندگچ‘ گبند دار بنا ہوا ہے۔ اس کے اندر شوجی رکھے ہیں۔ جو لوگ دیوی کی پوجا کے لئے آتے ہیں وہ یہاں بھی حاضر ہو کر شیو جی کی پرستش کرتے ہیں۔‘‘

مائی سیتلا کے نام سے ایک اہم اور قدیم مندر اندرون شہر لاہور محلہ پوربیاں میں بھی واقع تھا۔ کراچی میں بھی کبھی ایک مندر مائی سیتلا کے نام سے موجود تھا۔ تقسیم کے بعد یہ مندر اپنی اصل شکل میں نہ رہے۔ لیکن ہندوستان میں ممبئی‘ کوکلکتہ‘ سمتہ‘ مدھیہ پردیش‘ جالندھر میں مائی سیتلا کے مندر موجود ہیں۔ ہریانہ میں ایک گڑگاؤں کے نام سے ایک گاؤں موجود ہے اور یہاں پر ہونے والے میلے کو ہندوستان میں کنب کے میلے کے بعد دوسرا اہم ترین میلہ مانا جاتا ہے۔
مائی سیتلا کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ بے شمار ایسے مندر جو کہ کسی اور دیوی‘ دیوتا کے نام سے منسوب تھے‘ وہاں پر بھی سیتلا تالاب ضرور ہوا کرتا تھا۔ جہاں پر لوگ جلدی بیماریوں کی شفاء کے لئے غسل کیا کرتے تھے۔ پنجاب میں کئی جگہوں پر یہ تالاب ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح کے ایک تالاب کا حوالہ حکیم راحت نسیم سوہدروی نے اپنی کتاب ’’سوہدرہ تاریخ کے آئینے میں‘‘(ص67) دیا ہے۔

سیتلا تالاب:۔ یہ تالاب کالکا دیوی مندر کے جانب شمال میں واقع ہے۔ یہ باغ مغلیہ دور کی چھوٹی اینٹوں کا بنا ہے۔ جس کی ہر جانب سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ اس وقت خستہ حالی کے عالم میں ہے۔ ہم اس تالاب کو دیکھنے گئے تو ہمارے ساتھی محمود احمد نے بتایا کہ اس پر ایک سنگی کتبہ نصب تھا‘ جو معلوم نہیں اب کہاں چلا گیا۔‘‘

تقسیم کے دوران اور بعد میں دونوں دیسوں کے حصے میں آئے پنجاب میں بے شمار بربادیوں نے جنم لیا۔ مذہب کی بنیاد پر دونوں جانب کی قدیم عمارتوں پریا تو بزور طاقت قبضہ کرلیا گیایا ان کی جانب سے آنکھیں موند لی گئیں۔ انہی حالات کے باعث ہندوستان بھر میں مشہور سیتلا مندر کی عمارت رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہورہی ہیں۔ تقسیم کے بعد یہاں پر زیادہ تر دلی‘ سہارنپور‘ انبالہ اور امرتسر سے آئے لٹے پٹے مسلمانوں نے رہائش اختیار کی۔ ان مسلمانوں میں اپنے زمانے کے مشہور پہلوان ’’دنی پہلوان‘‘ بھی شامل تھے جو کہ رستم دہلی رہ چکے تھے۔ مندر میں زیادہ تر کسبی لوگ (گانے بجانے والے) اور مچھیرا برادری نے رہائش اختیار کی جو کہ قریبی مچھلی منڈی میں کام کرتے تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ کچھ خاندان میو برادری کے بھی آن بسے، ساٹھ برسوں میں یہ برادریاں اب آپس کی رشتے داریاں اختیار کر چکی ہیں۔ سو سے زائد خاندانوں کی یہ رہائش گاہ میں اب یاد رفتہ کے دھندلے نشانوں کے سوا کچھ باقی نہیں رہا۔

4

مندر کے ان مسلمان باسیوں کے حوالے سے یہ بات نہایت اہم ہے کہ اسی مندر میں مشہور موسیقار کمال احمد رہائش پذیر رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی بیوہ اور دیگر پسماندگان انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ ٹی وی کے مشہور فن کار جمیل بسمل بھی اسی مندر کے اندر پرانے کمرے میں رہا کرتے تھے۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے سازندوں میں ایک اہم نام رفیق ڈھول والا جو کہ بھیا ڈھول والے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، وہ بھی اسی مندر کا رہائشی تھا۔ اسلم قلندری جو کہ اپنے وقت کے مشہور قوال تھے، انہوں نے بھی اپنے خاندان سمیت اسی مندر میں زندگی بسر کی۔

محمد رفیع کے ا نگ میں گانے والے ایک گائیک جو کہ محمد شریف رفیع کے نام سے معروف ہیں انہوں نے بسنت بہار میوزک فاؤنڈیشن بھی بنائی ہوئی ہے اور ماہانہ بنیادوں پر ناصر باغ کے چوپال میں سنگیت کی محافل منعقد کرتے ہیں، ان کی رہائش اور سنگیت کی بیٹھک دونوں اسی مندر میں ہیں۔ محمد دین طبلے والا‘ اس کی رہائش گاہ بھی ان کے ساتھ ہی ہے۔ محمد شریف رفیع کی بیٹھک کے باہر قریب ایک چبوترے پر کبھی ہنومان جی کا بت ہواکرتا تھا جو کہ اب ناپید ہے۔ جب لاہور پورے پاکستان کی فلم انڈسٹری کا مرکز تھا تو اس وقت کے دو مشہور ڈریس ڈیزائنر محمد یوسف اور آصف بھی سیتلا مندر ہی کے باسی تھے۔

5

مشہور درویش شاعر ساغر صدیقی نے اپنی زندگی کے کئی ماہ و سال پیسہ اخبار کی گلیوں میں بسر کئے جو کہ سیتلا مندر کی عمارت سے ملحقہ ہے۔ مندر کے اولین رہائشی اور باسی زیادہ تر کسبی لوگ تھے۔ ان کے ساتھ دوستی کے باعث ساغر صدیقی کا ایک بڑا وقت اسی مندر کے پیپل کے درخت اور سنگیت کی بیٹھکوں میں گزرا‘ مندر کے ساتھ باہر ایبک روڈ کے ایک گھر میں نوجوان کرکٹر احمد شہزاد نے جنم لیا۔

تقسیم کے کچھ عرصہ بعد اسی سیتلا مندر کی عمارت میں بابو جمیل احمد‘ انوار صاحب‘ اور سردار صاحب نے خواتین کی جوتیوں کے چھوٹے چھوٹے سے کارخانے لگائے۔ عہد حاضر میں یہاں پر رہائش پذیر اسی فیصد لوگوں کے خاندانوں کے روزگار کا انحصار اسی کاروبار پر ہے۔ مندر کی قیمتی اشیاء تو دوران تقسیم ہی لوٹ لی گئی تھیں لیکن بعد میں مندر کی عمارت میں موجود قیمتی سنگ مرمر بھی غربت کے ہاتھوں مجبور افراد نے اتار اتار کر بیچ ڈالا۔ مندر کی عمارت میں موجود ایک کنواں بھی اب یاد ماضی کا حصہ ہے۔ فسادات کے دوران یہاں پر کئی بزرگوں نے سکھوں کی لاشیں دیکھیں جو کہ اس کنوئیں میں پھینک دی گئیں۔

بابری مسجد کے سانحے کے بعد لاہور میں موجود کئی مندر توڑ دیئے گئے اور قبضہ کرنے والوں کے حصے میں جگہیں آ گئیں۔ اس مندر کے بھی کئی حصے توڑ دیئے گئے۔ جس پر بعدازاں کمرے تعمیر کرلیے گئے۔ برجیاں‘ گنبد گرا دیئے گئے اور مکانات سیدھے کر لئے گئے اور یوں تاریخ کے قدیم لقوش بکھرتے‘ گم ہوتے گئے۔ اسی توڑ پھوڑ کے دوران نئے ٹوائلٹ بھی تعمیر کئے گئے۔

وگرنہ اس وقت اور اب بھی کئی گھر مشترکہ ٹوائلٹ استعمال کرتے ہیں۔ پچاس برس تک جوتیوں کی تیاری میں مصروف عمل نسل نے اب اپنی نئی نسل کو پڑھانا بھی شروع کر دیا ہے۔ وگرنہ جو بچہ بڑا ہوا‘ کسی نہ کسی کارخانے میں کمائی کے لئے بیٹھ گیا۔سیتلا ماتا کی مورتیاں عموماً کسی گدھے پر سواری کی صورت میں یا اکیلے بیٹھے کسی مورچھل سمیت ہیں لیکن اس مندر میں ایک انتہائی نایاب مورتی تھی جو یہاں کے بزرگ بتاتے ہیں کہ اس مورتی میں سیتلا ماں کی گود میں ایک بچہ تھا اور دو بچے دائیں اور بائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے۔

عصر حاضر میں جس جگہ پر مورتی رکھی جاتی تھی اس جگہ پر اس گھر کے رہائشی اپنے دھونے والے کپڑے رکھتے ہیں، وہ مورتی بھی مندر کی دیگر یادوں کا حصہ بن کر رہ گئی ہے۔ مندر کی عمارت میں صرف تین قدیم درخت روز اول کی مانند موجود ہیں۔ لوگوں کی اکثریت مندر سے باہر جانا چاہتی ہے لیکن اسباب نہ ہونے کے باعث باہر نہیں جا سکتے۔

تقسیم کے اتنے برس گزرنے کے بعد بھی اگر کوئی زکوٰۃ دینے والا وہاں آ جائے تو ایک بھیڑ لگ جاتی ہے۔ مندر میں گاؤشالہ والی جگہ آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ سرکلرروڈ کی جانب سے داخلی دروازے سے کچھ قدم آگے ایک تختی پر مائی سیتلا کا نام اور مہنت کی جانب سے لگائی تختی بتلاتی ہے کہ کبھی یہاں پر ایک عظیم الشان مندر ہوا کرتا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔