چینی پاکستانیوں کو ’’پاتھیئے‘‘ کیوں کہتے ہیں؟

عمران علی ورک  جمعـء 16 مارچ 2018
چین نے پاکستان سے دوستی کو صرف اعلانات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس پر عمل بھی کر کے دکھایا ہے۔ فوٹو:انٹرنیٹ

چین نے پاکستان سے دوستی کو صرف اعلانات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس پر عمل بھی کر کے دکھایا ہے۔ فوٹو:انٹرنیٹ

پاکستان اور چین نظریاتی لحاظ سے دو مختلف ملک، مگر ان کی دوستی دنیا کےلیے مثال ہے۔ دونوں نہایت قریبی اور مضبوط سیاسی و معاشی تعلقات کے لحاظ سے دنیا بھر میں جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ یہ تعلقات کوئی نئے نہیں بلکہ گزشتہ سات دہایوں پر محیط ہیں اور ان کی جڑیں بہت گہری اور مضبوط ہیں۔ پاکستان اور چین دکھ سکھ کے ساتھی ہیں۔ دونوں ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ عوام بھی ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور دوستی کا دم بھرتے نظر آتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہر خاص و عام پاکستانی کی زبان پر صرف یہ ہی الفاظ ہوتے ہیں ’’پاک چین دوستی سمندر سے گہری، ہمالیہ سے اونچی اور شہد سے میٹھی ہے‘‘ جبکہ چینی لوگ پاکستانیوں کے بارے میں ’’پاتھیئے’ پاتھیئے‘‘ کہتے نہیں تھکتے، جس کا مطلب ہے کہ لوہے جیسا دوست۔ پاکستان اور چین کی اس دوستی، ان الفاظ اور نعروں کے بارے میرے دماغ میں ہر وقت ایک ہی سوال گردش کرتا رہتا ہے کہ کیا یہ دوستی واقعی اتنی ہی مضبوط، بے مثال اور لازوال ہے۔ چینیوں کے بارے میں پاکستانیوں کی رائے جاننے کےلیے میں نے بہت سے دوستوں اور عام شہریوں سے پوچھا تو ہر ایک کی اپنی رائے تھی لیکن کوئی بھی تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔

بلآخر یہ جاننے کےلیے مجھے چین جانے کا موقع ملا۔ میرے ساتھ مختلف صحافتی اداروں سے تعلق رکھنے والے اور ساتھی بھی تھے۔ جب ہم چین جانے کےلیے ایئرپورٹ پہنچے تب بھی میرے دماغ پر یہ سوال سوار تھا، لیکن خوشی یہ تھی کہ جس دوستی کے بارے میں سنتے ہیں کہ پاک چین دوستی سمندر سے گہری، ہمالیہ سے اونچی، شہد سے زیادہ میٹھی اور لوہے سے زیادہ مضبوط ہے، اس کی حقیقت دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔ خیر ہمارا سفر شروع ہو گیا۔ جہاز میں سوار ہو ئے تو ہمارے زیادہ تر ہمسفر چینی باشندے تھے جو پاکستان سے واپس اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔ یہاں پر دل میں خیال آیا کہ پیارے نبیۖ کا فرمان ہے کہ ’’اگر کسی کے بارے میں جاننا ہو تو اس کے ساتھ سفر کرو، یا پھر اس کے ساتھ رہ کر دیکھ لو۔‘‘ سوچا کہ دونوں مواقعے مل گئے، سفر بھی کر رہے ہیں اور اکٹھے رہنا بھی ہے۔

طیارے نے بیجنگ کےلیے اڑان بھر لی، تمام مسافر اپنی اپنی نشستوں پر خاموشی سے بیٹھ گئے۔ جہاز میں مکمل سناٹا سا چھا گیا، سب ایک دوسرے کےلیے اجنبی تھے، ہر بندہ اپنی سوچ میں مگن تھا، لیکن میں یہ سوچ رہا تھا کہ جہاں ہم جا رہے یں آخر وہ محبوب نگری کیسی ہو گی۔

تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد کپتان نے اعلان کیا کہ اب ہم پاکستان کی حدود کو چھوڑ کر چین میں داخل ہو گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی تمام چینی مسافرسناٹا، خاموشی اور اجنبیت ختم کر کے اپنی نشستوں سے اٹھے اور ہمیں گلے لگا کر ’’چین میں خوش آمدید‘‘ کہنے لگے۔ ان کے ان الفاظ سے میرے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور مجھے میرے پاک چین دوستی کے حوالے سے سوال کا آدھا جواب مل گیا۔

اب چین کے بارے میں مزید جاننے کےلیے میرے اندر جستجو اور بڑھ گئی۔ جہاز جوں جوں اپنی منزل کی جانب بڑھ رہا تھا، میں اپنی سوچوں میں مگن تھا کہ جس محبوب نگری کے باشندے اتنے ملنسار ہیں وہ خود کتنی خوبصورت ہو گی۔ تقریباً تین سے چار گھنٹے کی مسافت کے بعد کپتان نے پھر اعلان کیا کہ اب سے کچھ ہی دیرمیں ہم بیجنگ لینڈ کر جائیں گئے۔ اس کے بعد تو چینی مسافروں نے مزید جوش و خروش کیساتھ ہمیں گلے لگایا اور کہا کہ بیجنگ میں ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اور جب ہم جہاز سے نیچے اترے تو ہر چینی شہری کی یہ ہی کوشش تھی کہ ہم ان سے پہلے اتریں۔

ان کی جانب سے اس عزت افزائی اور محبت پر ہم سب دوست حیران تھے اور سوچ رہے تھے کہ آخر یہ لوگ پاکستانیوں کی اتنی عزت کیوں کرتے ہیں، ہم میں ایسا کیا ہے۔ خیر تمام مسافر اپنی اپنی منزل کی طرف چل نکلے، ہمیں بھی چین کی مشہور درسگاہ رینمن یونیورسٹی آف چائنا کا طالبعلم اوکائے لینے کےلیے آیا ہوا تھا۔ وہ ہمیں یونیورسٹی لے گیا جہاں ہمیں غیر ملکی طلبا کے ہاسٹل میں ٹھہرا دیا گیا۔ ہاسٹل میں ہم نے تقریباً دس ماہ کا عرصہ گزارا۔ اس دوران مختلف مصروفیات کے ساتھ میں اپنے سوالوں کا جواب اور پاک چین دوستی کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرتا رہا۔ مجھے اپنے تمام سوالوں کے جواب ایک اک کرکے ملتے گئے۔ سب سے پہلے مجھے میرے سوال کا جواب ہاسٹل سے ہی ملا جہاں تقریباً سب غیر ملکی رہائش پذیر تھے۔ اصول سب کےلیے ایک تھے لیکن ہاسٹل کا عملہ دوسرے غیرملکیوں کی نسبت ہماری عزت زیادہ کرتا تھا۔ جب ہم پاکستان کا نام لیتے تو سب چینی ہمیں سلام کرتے اور پاک چین دوستی ہمیشہ کےلیے کا نعرہ لگاتے۔

ہمارے ہاسٹل آنے جانے کے اوقات پر کوئی پابندی نہیں تھی، عملے سے لیکر چینی طالبعلموں، اساتذہ اور دیگر لوگوں کا ہمارے پاس ہجوم لگا رہتا اوران سب کی گفتگو کا محور صرف پاک چین دوستی، کلچر اور ثقافت ہوتی، جس پر بعض اوقات دیگر غیر ملکی ناراض بھی ہوتے کہ آخر یہ چینی پاکستانیوں کی اتنی عزت کیو ں کرتے ہیں۔

یہا ں میں ایک اور بات بتاتا چلوں کہ ہمیں ایک پاکستانی دوست، جو کافی عرصہ سے چین میں مقیم ہیں نے بتایا کہ بیجنگ سے چار سو کلو میٹر کے فاصلے پر ساحلِ سمندر ہے جس کا نام بیداخہ ہے۔ ہم دوستوں نے سوچا کیو ں نہ اس کی سیر کی جائے۔ میں اور ایک دوست صبح سویرے بیداخہ کےلیے نکلے۔ ہم بیجنگ ریلوے اسٹیشن پہنچے، بلٹ ٹرین کے ٹکٹس خریدے اور ٹرین کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ ہم نے ریلوے اسٹیشن دیکھ کر سوچا کہ ایسے تو ہمارے ائیرپورٹ بھی نہیں جتنے بڑے ان کے ریلوے اسٹیشنز ہیں۔

ہم بلٹ ٹرین میں سوار ہو گئے۔ یہ میرا بلٹ ٹرین کا پہلا سفر تھا، بہت ہی پُرسکون اور لطیف۔ ٹرین تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے۔ ہم تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد بیداخہ ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ یہ اسٹیشن آبادی سے ذرا ہٹ کر تھا۔ ہم اسٹیشن سے باہر نکلے تو ایک ٹیکسی والے سے بات کی، اس نے بیس یوآن کے عوض ہمیں ساحل سمندر پر پہنچایا۔ یہ جگہ بہت پیاری اور پرسکون تھی۔ ہم سہ پہر تین بجے تک وہیں رہے۔ ساحل پر ہماری ملاقات ایک چینی خاتون سے ہوئی جواپنے بھائی اور ماں کے ساتھ بیجنگ سے آئی ہوئی تھی۔ اس نے ہمیں کہا کہ آپ ہمارے ساتھ چلیں۔ ہم آمادہ ہوگئے، کیونکہ ہم علاقے سے زیادہ واقف نہیں تھے، لہٰذا سفر اچھا گزر جائے گا۔

لیکن جب ہم ساحل سے نکلے تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ اپنی گاڑی پر تھے۔ ہمیں لگا اب ہمیں ٹرین پر ہی جانا ہوگا، کیونکہ گاڑی میں تو اتنے لوگ نہیں آسکتے۔ لیکن لڑکی کے بھائی نے اسرار کیا تو میں اور میرا دوست بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ اس فیملی نے ہماری بہت خاطر مدارت کی، پہلے تو وہ لوگ ہمیں اس جگہ لے گئے جہاں سے دیوارِ چین شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ہمیں ہوٹل سے کھانا کھیلایا اور تقریباً رات دس بجے ہمیں یونیورسٹی میں ہمارے ہاسٹل میں اتار گئے، ہم لوگ ان کی مہمان داری سے بہت متاثر ہو ئے۔

ہم یونیورسٹی میں اکثر لوگوں سے پاک چین دوستی کے حوالے سے سوال کرتے جہاں بعض اوقات ہمیں شرمندگی کا بھی سامنا کرنا پڑتا، کیونکہ اکثر لوگ ہمیں پاکستانیوں کی بجائے فلسطینی سمجھتے۔ بھارتیوں سے ہماری شکلیں ملتی تھیں، پاکستاننیوں کووہ فلسطینی سمجھتے تھے۔ چینی شہری پاکستان کو باجستان اور فلسطین کو پالسطین بولتے ہیں۔ خیر، جب انہیں پاکستان کی سمجھ آتی تو بس ان کی زبان پرایک ہی لفظ ہوتا، اور وہ تھا ’’پاتھیئے‘‘ یعنی ’’لوہے جیسا دوست۔‘‘ اس کے بعد ہمیں سب چینی پاکستان کی بجائے پاتھیئے کہہ کر مخاطب کرتے۔

اب میرے پاس ایک نیا سوال آگیا کہ یہ لوگ ہمیں پاتھیئے تو کہتے ہیں لیکن اس میں ایسا کیا ہے؟ اس سوال کا جواب مجھے چین کے صوبے سیچوآن کے دارالحکومت چھنگدو سے ملا جو لاہور کا جڑواں شہر بھی ہے۔ سیچوآن میں ایک چینی دوست کے گھر پر میں پانچ دن رہا۔ اس دوران ایک دن میں ایک پارک گیا جہاں پر کچھ چینی بزرگ تاش کھیل رہے تھے اور خواتین کشیدہ کاری میں مصروف تھیں۔

میں ٹہلتا ٹہلتا ان کے پاس جاکر کھڑا ہو گیا، سب نے میری طرف دیکھا اور آپس میں چینی زبان میں باتیں کرنے لگے کہ یہ ہندوستانی ہے۔ میں چونکہ تھوڑی بہت چینی زبان سمجھتا تھا لہٰذا فوراً کہا کہ میں ہندوستانی نہیں پاکستانی ہوں۔ بس میرے یہ الفاظ سننے تھے کہ چینی بزرگوں نے اٹھ کر مجھے گلے لگا لیا اور سب یک زبان ہو کر بولے ’’پاتھیئے‘‘ میں نے ان چینی بزرگوں سے سوال کیا کہ آپ پاکستان کو پاتھیئے کیوں کہتے ہیں؟ اس پر ایک بزرگ نے بتایا کہ جو دوست مصیبت میں کام آئے اور دکھ سکھ کی گھڑی میں ساتھ ہو اس سے بڑھ کر اور کون لوہے جیسا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان ہمیشہ سے ہمارے ساتھ ہے، اس نے کبھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑا، اس لیے یہ ہمارا لوہے جیسا مضبوط دوست ہے اور صرف چینی لوگ پاتھیئے صرف پاکستان کےلیے ہی استعما ل کرتے ہیں۔

بزرگ نے بتایا کہ پاکستان نے شروع دن سے ہر جگہ ہمارا ساتھ دیا۔ جب 1949 میں چین آزاد ہوا تو امریکہ اور چین کے تعلقات اتنے بہتر نہیں تھے، بلکہ کشیدگی کی طرف مائل تھے۔ لیکن پاکستان کی کئی سالوں پر مشتمل مسلسل کوشش اور مخلصانہ جدوجہد کے نتیجہ میں اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے چین کا دورہ کیا۔ اس طرح امریکہ اور چین کے تعلقات بہتر ہونا شروع ہوگئے، اور چین کا عالمی برادری میں ایک مقام پیدا ہونا شروع ہو گیا۔

چین کو اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت اور ویٹو پاور کا حق مل گیا۔ پاکستان کے اِس کردار کی وجہ سے چین کی نظر میں پاکستان کا وقار بہت بلند ہو گیا۔

جون 2006 میں چین میں بڑا زلزلہ آیا۔ لاکھوں لوگ ہلاک، زخمی اور بے گھر ہو گئے۔ اس سے چند ماہ قبل پاکستان اور آزاد کشمیر میں بھی بہت تباہ کن زلزلہ آیا تھا اور پاکستان ابھی اس آفت کے اثرات سے پوری طرح سے نکلا بھی نہیں تھا، اس کے باوجود پاکستان نے ہمارے لیے امدادی سامان، خوراک اورڈاکٹرز بھیجے، اپنا دکھ چھوڑ کر ہمیں سنبھالا۔ اب پاکستان پہ جیسا بھی وقت آئے ہم اسے کبھی نہیں چھوڑ سکتے۔

اس بزرگ نے بتایا کہ پاکستانی بہادر لوگ ہیں اور چینی احسان فراموش نہیں۔ اگرچہ دنیا ہمیں دوسری بڑی معاشی طاقت کہتی ہے، لیکن ہم اپنا ماضی اور اچھے دوستوں کو نہیں بھول سکتے۔ اس لیے ہم پاکستان کےلیے پاتھیئے کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ان کے یہ الفاظ سن کر مجھے دلی خوشی ہوئی اور سوچا کہ دنیا میں کوئی تو ایسا ملک ہے جو پاکستان کی دل سے عزت کرتا ہے، اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ہر مشکل میں پاکستان کے ساتھ ہے۔

چینی لوگ صرف پاکستانی عوام کی ہی نہیں بلکہ ہمارے مذہب اسلام کی بھی عزت کرتے ہیں۔ یہ پہلی بار میں نے تب دیکھا جب میرے چند چینی دوستو ں نے مجھے دیوار چین چلنے کی دعوت دی، میں نے خوشی سے ان کی دعوت قبول کرلی۔ صبح سویرے وہ دوست اپنی گاڑی پر مجھے میری یونیوسٹی لینے آگئے، میں ان کے ساتھ سوار ہو گیا۔

تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم لوگ ایک ہوٹل کے سامنے پہنچ گئے جہاں اور بھی چینی دوست ہمارا انتظار کر ہے تھے۔ ان سب سے پہلی ملاقات تھی، دوستوں نے ہمارا آپس میں ایک دوسرے سے تعارف کروایا۔ ہم بالکل اس جگہ پر تھے جہا ں دیوار چین کے صرف آثار باقی تھے اور ایک سائن بورڈ پر لکھا تھا کہ ’’یہاں سے دیوار پر چڑھنا منع ہے‘‘ کیونکہ اس جگہ سے دیوار بلکل ختم ہو چکی تھی اور جگہ جگہ سے اینٹیں اکھڑی ہوئی تھیں، اس کے اوپر درخت اور کانٹے دار جھاڑیا ں اگی ہوئی تھیں لیکن اس کے باوجود سب چینی دوستوں کے پیچھے چلنا اور اس جگہ سے دیوار پر چڑھنا میری مجبوری تھا۔ یہاں پر میرے ذہن میں خیال آیا کہ قانون توڑنا صرف پاکستان میں ہی نہیں، چینی لوگوں کےلیے بھی معمولی بات ہے۔

ہم بڑی مشکل سے اس جگہ سے دیوار پر چڑھ گئے۔ چلتے چلتے تقریباً ہم نے دس کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں سے ہمیں باقاعدہ دیوار نظر آنے لگی۔ اس جگہ پر میری ملاقات ایک ایسے چینی شہری سے ہوئی جو بہت پیاسا تھا، مگر اس کے پاس پانی نہیں تھا۔ میں نے اپنی پانی کی بوتل اسے دے دی، اس نے میرا شکریہ ادا کیا اورمجھ سے پوچھا کہ آپ کا تعلق کہا ں سے ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ میں پاکستانی ہوں۔ یہ سن کر اس نے فوراً پاک چین دوستی زندہ باد کا نعرہ لگایا اور بتایا کہ میں ایک ریٹائرڈ چینی فوجی ہوں اور زیادہ عرصہ میں نے خنجراب بارڈر پرگزارا ہے۔ مجھے پاکستانی بہت اچھے لگتے ہیں، اور میں پاکستان کو اپنا گھر سمجھتا ہوں۔ یہ سن کر مجھے خوشی ہوئی۔ میرے دوست کافی آگے جا چکے تھے، میں نے اس دوست کو خدا حافظ کہا اور آگے بڑھ گیا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں سے دیوار چین کو دوبارہ مرمت کر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنایا گیا ہے۔ یہ چند کلومیٹر کا مخصوص علاقہ ہے جہاں پر پہنچ کا سیاح دیوار چین کا نظارہ کر تے ہیں اور یہاں سے پہاڑوں کے اوپر سانپ کی طرح بل کھاتی دیوار چین کو دیکھا جا سکتا ہے۔

یہاں پر چیئرلفٹ بھی لگائی گئی ہے جس پر بیٹھ کر دیوار چین کی سیر کی جا سکتی ہے، یہاں پر ہر وقت سیاحوں کا رش رہتا ہے۔ دیوارِ چین کی سیر کرنے کے بعد شام کو چار بجے کے قریب ہم واپس وہاں پر پہنچ گئئے جہاں ہماری گاڑیاں پارک تھیں۔ سب چینی دوستوں نے فیصلہ کیا کہ اب کھانا یہاں سے ہی کھا کر جائیں گے۔ ہم تقریبا بیس لوگ تھے، سب ہوٹل میں داخل ہو گئے۔ چینی دوست اپنی شراب کی بوتلیں ساتھ لائے ہوئے تھے، سب نے کھانے کا آرڈر کر کے اپنی شراب کی بوتلیں اپنے اپنے سامنے میز پر رکھ لیں۔ اس دوران اچانک ایک دوست نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ مسلمان ہو؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو سب چینی دوستوں نے اپنی بوتلیں میز سے اٹھا کر اپنے اپنے بیگ میں ڈال لیں اور ساتھ ہی کھانے کےلیے گوشت کی بجائے سبزی کا آرڈر کر دیا۔ میں بہت حیران ہوا کہ یہ لوگ تو صرف پاکستانی عوام کی نہیں، بلکہ ہمارے مذہب کا بھی حترام کرتے ہیں۔

ان دوستوں نے بتایا کہ ہم آپ کے سامنے کوئی ایسی چیز نہیں کھا پی سکتے جس سے آپ برا محسوس کریں۔ ہمیں معلوم ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک یہ حرام ہے اور ہم اپنے آئرن فرینڈ کے سامنے یہ سب نہیں کر سکتے۔

اس کے بعد دوسری بار رمضان شریف کا مہینہ شروع ہوا تو ہم روزہ رکھنے کےلیے سحری کا سامان رات گیارہ بجے تک تیار کرکے رکھ لیتے، کیونکہ ہاسٹل کے کچن کی لائٹ گیارہ بجے بند ہو جاتی تھی اور صبح چھے بجے آن ہوتی تھی، جبکہ رات گیارہ بجے کے بعد کسی کو کھانا بنانے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن جب ہاسٹل کے عملے کو اس بات کاعلم ہوا تو انہوں نے اسپیشل ہمارے لیے لائٹ آن کر دی اور ساتھ ہی کہا یہ آپ لوگوں کےلیے کی ہے۔

چین نے پاکستان کے ساتھ دوستی کو صرف زبانی اعلانات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس پر عمل بھی کر کے دکھایا ہے۔ اس کی ایک مثال جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو بھارت کی جانب سے عالمی دہشت گرد قرار دلوانے کی کوشش کو ناکام بنانا، جبکہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں اتفاق رائے کے بغیر بھارتی شمولیت کی متواتر مخالفت ہے۔ حالیہ مثال جب امریکی صدر نے پاکستان کو افغانستان میں امریکی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے سخت پالیسی اپنائی اور بھارت کو پاکستان کی جگہ ہیرو بناتے ہوئے افغانستان میں اہم کردار دینے کی بات کی تو ہمارے حکمرانوں سے بھی پہلے وفادار دوست اپنی لوہے جیسی مضبوط دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے سب سے پہلے میدان میں آیا۔

چین نے امریکی بیان پر نہ صرف خود دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو سراہا بلکہ دنیا کو کہا کہ وہ پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف قربانیوں کا اعتراف کرے۔ چین کی اس حمایت نے ان تمام امکانات کو محدود کردیا جن کے ذریعے پاکستان پر کسی بھی قسم کی پابندی کا معاملہ زیرِبحث آسکتا تھا۔ ان اہم ایشوز پر چین کے دوٹوک موقف سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں کہیں پاکستان کے اہم مفادات کا سوال اٹھے گا چین پوری قوت اور ثابت قدمی کے ساتھ پاکستان کا ساتھ دے گا۔ اس سے پاکستان اور چین کی دوستی کی گہرائی اور پائداری کا پتہ چلتا ہے۔

سچ میں پاک چین دوستی سمندر سے گہری، ہمالیہ سے اونچی، شہد سے زیادہ میٹھی اور لوہے سے زیادہ مضبوط ہےجسے دنیا کی کوئی طاقت الگ نہیں کر سکتی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔