رائے ونڈ لاہور میں دہشت گردی

ایڈیٹوریل  جمعـء 16 مارچ 2018
ملک کے اندر موجود انتہا پسند تنظیموں اور گروہوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

ملک کے اندر موجود انتہا پسند تنظیموں اور گروہوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

گزشتہ کافی عرصے سے ملک بھر خصوصاً پنجاب میں دہشت گرد حملوں اور دھماکوں وغیرہ کے سلسلے پر نمایاں طور پر قابو پا لیا گیا تھا تا آنکہ نئے سال کے تین ماہ گزرنے کے بعد لاہور میں رائے ونڈ میں تبلیغی جماعت کی اجتماع گاہ کے باہر حفاظتی پولیس چوکی پر خودکش حملہ ہو گیا۔اس دہشت گردی  میں 5 پولیس اہلکاروں سمیت 9 افراد شہید جب کہ 29 زخمی ہو گئے۔

زخمیوں میں اے ایس پی، ایس ایچ او اور متعدد پولیس اہلکار شامل ہیں، اطلاعات کے مطابق دھماکا اتنا شدید تھا کہ کئی کلومیٹر تک اس کی آواز سنی گئی، دھماکے کے بعد جائے وقوعہ پر آگ لگ گئی ۔

اخباری اطلاعات کے مطابق دہشت گرد  نے اس جگہ پہنچنے کی کوشش کی جہاں تبلیغی جماعت کا اجتماع جاری تھا، پولیس اہلکاروں نے فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے روکا تو اس نے خود کو اڑا لیا، اگر یہ دہشت گرد وہاں سے آگے جانے میں کامیاب ہوجاتا تو اس صورت میں شہید ہونے والوں کی تعداد بے شمار ہوتی مگر پنجاب پولیس کے جوانوں نے اپنی جان قربان کر کے سیکڑوں لوگوں کی زندگی بچا لی۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ رائیونڈ دھماکا رواں سال میں ہونے والا دہشت گردی کا پہلا واقعہ ہے حالانکہ گزشتہ پانچ سال میں دہشت گردی کے 11 واقعات میں حساس اداروں اور پولیس افسران و اہلکاروں سمیت 200 سے زائد شہری جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔

تازہ اطلاع کے مطابق رائیونڈ خود کش دھماکے کے دو سہولت کاروں کو گرفتار کر لیا گیا جن میں سے ایک کا تعلق سوات اور دوسرے کا افغانستان سے بتایا گیا ہے۔اطلاعات کے مطابق انھیں لاہور سے ہی گرفتار کیا گیا ہے۔گرفتار ملزموں نے اپنا تعلق ٹی ٹی پی سے بتایا ہے۔ مبینہ سہولت کار نے خود کش حملہ آور کو جائے وقوعہ تک پہنچایا تھا۔

ابتدائی تحقیقات کے مطابق خودکش حملہ آور کا ٹارگٹ پولیس افسران اور جوان تھے لیکن مقام تشکر ہے کہ دہشت گرد اپنے اصل ٹارگٹ تک نہیں پہنچ سکا ورنہ خون کا دریا بہنے لگتا۔ جہاں تک حملہ آوروں میں سے ایک کا تعلق افغانستان سے بتایا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاک افغان سرحد کو مکمل طور پر سیل کر دیا جائے تو دہشت گردی پر بہت حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔

رائے ونڈ لاہور میں ہونے والا دہشت گردی کا واقعہ ثابت کرتا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان کا نیٹ ورک فاٹا‘ خیبرپختونخوا‘ بلوچستان میں ہی نہیں بلکہ کراچی‘ اندرون سندھ اور پنجاب میں بھی موجود ہے‘ اس کے علاوہ کئی اور ایسی تنظیمیں اور گروہ بھی ملک کے اندر متحرک ہیں جو شہر شہر انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہیں اور وہ سوشل میڈیا کو بھی آزادانہ طور پر استعمال کر رہی ہیں.

یوں دیکھا جائے تو پاکستان میں آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد کے باوجود دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا نیٹ ورک موجود اور فعال ہے‘ کچھ عرصہ پہلے لاہور کے مال روڈ پر چیئرنگ کراس کے مقام پر بھی خود کش حملہ کیا گیا تھا‘ اس کا سہولت کار بھی خیبرپختونخوا سے متصل فاٹا کے کا باشندہ تھا جب کہ اس کے پاس پہنچنے والا خود کش حملہ آور افغانستان کا رہنے والا تھا۔ یہ وہ حقائق ہیں جن پر ہمارے ارباب اختیار اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کرتا دھرتاؤں کو سوچنا چاہیے۔

یہ امر اطمینان بخش ہے کہ پنجاب پولیس نے خود کش حملہ آور کے مبینہ سہولت کار کو فوری گرفتار کر لیا ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ اب یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کو جتنا جلد ہو سکے‘ واپس افغانستان بھیجا جائے جب کہ فاٹا کے حوالے سے بھی کوئی آئین سازی اور قانون سازی کی جائے۔

ادھر خیبرپختونخوا کی پولیس کو بھی اپنا انٹیلی جنس نظام مزید بہتر بنانا چاہیے تاکہ افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کو سیٹلڈ ایریا میں داخل ہوتے ہی گرفتار کیا جائے‘ اس کے ساتھ ساتھ فاٹا میں انٹیلی جنس کے ذمے داروں کو بھی اپنی کارکردگی پر غور کرنا چاہیے کہ کیسے افغانستان سے چلنے والے خود کش حملہ آور‘ خود کش جیکٹیں اوردیگر سامان فاٹا سے بغیر کسی رکاوٹ کے پہلے خیبرپختونخوا کے بندوبستی علاقے میں آتے ہیں اور وہاں سے پورے ملک میں پھیل جاتے ہیں۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فاٹا اور خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کا نظام کمزورہے۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے دہشت گرد گروپوں کے خلاف مسلسل آپریشن بھی ضروری ہے اور ملک کے اندر موجود انتہا پسند تنظیموں اور گروہوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ یہ مراحل بہت کٹھن ہیں جن کے لیے متعلقہ اداروں کو مسلسل چوکسی کی ضرورت ہے نیز سراغ رسانی کے نئے اور جدید طریقوں کا استعمال بھی ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔