نیرنگیٔ سیاست تو دیکھیے

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 16 مارچ 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

جمہوریت کا ایک دلچسپ اور عبرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اس نظام میں ایک بار عوام کے ووٹ سے جو شخص قانون ساز اداروں کا رکن منتخب ہوجاتا ہے تو پھر وہ ذاتی مفاد کے گورکھ دھندے میں اس طرح پڑجاتا ہے کہ اسے یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ عوام سے اس نے ووٹ کن وعدوں پر لیے تھے اور عوام نے اسے ووٹ کن شرائط پر دیے تھے۔

سرمایہ دارانہ جمہوریت کا اعجاز یہی ہے کہ اس جمہوریت میں منتخب نمایندوں کی ترجیح ذاتی مفادات بن جاتی ہے اور عوام کے مسائل ثانوی حیثیت حاصل کرلیتے ہیں۔ مثال کے طور پر انتخابات لڑنے والی پارٹیاں عوام کے سامنے اپنا ایک منشور پیش کرتی ہیں جن میں عوام کے مسائل کا اور ان کے حل کا ایک پروگرام پیش کیا جاتا ہے اس کے بعد انتخابی مہم کے دوران بھی عوام سے ان کے مسائل حل کرنے اور ان کی تقدیر سنوارنے کے بے شمار وعدے کیے جاتے ہیں۔ ان وعدہ خلافیوں ان بددیانتیوں کی ایک پوری تاریخ ہے۔

ستر سال پہلے عوام کے مسائل حل کرنے کے اہل سیاست نے جو وعدے کیے تھے جن میں بھوک، بیماری، بیروزگاری، غربت تعلیم اور علاج جیسی سہولتوں کی فراہمی سرفہرست تھی۔ اس دوران میں کتنے منتخب نمایندے آئے اور گئے کتنی منتخب حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن عوام کے مسائل روز اول کی طرح تر وتازہ عوام کے سامنے موجود ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ووٹ لینے سے پہلے عوام کی زندگی بہتر بنانے کے وعدے کرنے والے سارا وقت اپنی زندگی بہتر بنانے میں صرف کردیتے ہیں۔ عوام بے چارے اس بددیانتی کو دیکھتے ہیں لیکن حرف شکایت زبان پر نہیں لاتے کیونکہ ان کے ووٹوں پر پل کر جوان ہونے والے اس قدر طاقتور ہوجاتے ہیں کہ اگرکوئی ووٹر ان کے خلاف زبان کھولے تو اس کی زبان کاٹ دی جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ منتخب نمایندوں کو خدا کا خوف ہو لیکن اکثریت وعدہ خلاف، مفاد پرست اور خودغرض ہی ہوتی ہے۔

چیئرمین سینیٹ ایوان بالا کا سربراہ ہوتا ہے اس کی بڑی ذمے داریاں ہوتی ہیں، چیئرمین سینیٹ رضا ربانی پچھلے عرصے میں غیر متنازعہ ہی نہیں بلکہ ساری جماعتوں کے لیے قابل قبول رہے۔ جب ان کی مدت ختم ہو گئی تو نئے چیئرمین کے انتخابات کا مرحلہ پیش آیا ہے ابھی حال میں سینیٹروں کا انتخاب ہوا اور میڈیا سینیٹروں کی خرید وفروخت کی داستانوں سے اٹ گیا، ایک ایک سینیٹر کی قیمت کروڑوں تک پہنچ گئی۔

میڈیا میں آنے والی خبروں میں بتایا گیا کہ بلوچستان کی ساری سینیٹ بک گئی۔ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں بھی خرید و فروخت کی خبریں آتی رہیں جمہوریت کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ قابل مذمت ہی نہیں قابل شرم ہے لیکن شرم ہو تو شرم کی بات کی جاسکتی ہے ہم تو ایسے شرم پروف ہیں کہ شرم کو بھی ہم پر شرم آتی ہوگی۔

ارکان سینیٹ ہوں، ارکان قومی اسمبلی ہوں یا صوبائی اسمبلیوں کے ارکان ہوں، ان کے دو بنیادی کام ہوتے ہیں اول عوام کی خدمت عوام کے مسائل کا حل دوسرے عوام کے مفادات کے تناظر میں قانون سازی۔ کیا ہمارے منتخب نمایندے اپنی یہ ذمے داریاں پوری کر رہے ہیں؟ اس کا جواب دیتے ہوئے شرم آتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کی زندگی بہتر بنانے کے ذمے دار صرف اپنی زندگی بہتر بنانے میں کیوں مصروف ہو جاتے ہیں؟

اس سوال کا آسان سا جواب یہ ہے کہ جو لوگ انتخابی مہم پر اگر 10 کروڑ روپوں کا خرچہ کریں گے تو لازمی بات ہے کہ وہ دس کروڑ کے پچاس کروڑ حاصل کرنا چاہیں گے اور اس چاہیں گے میں عوام کے مسائل عوام کی ذمے داریاں ڈوب جاتی ہیں اور بے چارے عوام حسرت سے جمہوریت کے نام پر لگنے والے یہ تماشے دیکھتے رہتے ہیں۔

اخبار کی لیڈ تھی ’’چیئرمین سینیٹ، نواز شریف رضا ربانی کے حامی، زرداری مخالف نواز شریف صاحب نے فرمایا ہے کہ ربانی پر اتفاق نہ ہوا تو اپنا امیدوار لائیں گے۔ فضل الرحمن زرداری سے ملے سابق صدر نے ان کی تجویز مسترد کردی۔ کل جو اپنے تھے سیاسی مفادات نے انھیں پرایا کردیا۔

سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو یہ حق ضرور حاصل ہے کہ وہ اس قسم کے الیکشن کے وقت اپنی طرف سے کسی بھی زید بکر کو اپنا نمایندہ مقرر کرسکتے ہیں۔ لیکن کیا یہ نمایندگی میرٹ پر ہوتی ہے؟ یا اس میں سیاسی ضرورتوں سیاسی مفادات کا دخل ہوتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ہماری پوری جمہوری تاریخ پڑی ہوئی ہے۔

ان ساری خرابیوں ان ساری برائیوں کو افراد اور جماعتوں میں تلاش کریں گے تو کچھ نہیں ملے گا ان برائیوں کو تلاش کرنا بھی ضروری ہے اور انھیں دور کرنا بھی ضروری ہے اور ہماری  عدلیہ ان حوالوں سے کوششیں بھی کر رہی ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں عدلیہ کی کوششوں سے کچھ بہتری بھی آئی ہے لیکن وہ کہا جاتا ہے نا کہ جس عمارت کی بنیاد ہی ٹیڑھی رکھی گئی ہو اس پر عمارت کو سیدھا کھڑا کرنا خیال است محال است و جنوں کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے؟

سرمایہ دارانہ جمہوریت کی بنیادوں میں سرمایہ دارانہ نظام کی طرح کرپشن موجود ہوتی ہے۔ آپ لاکھ کوششیں کرلیں لاکھ اصلاحات لائیں کرپشن سرمایہ دارانہ جمہوریت کی بنیادوں میں ضرور موجود ہوگی۔ اس کو کرپشن سے پاک کرنا ہو تو دنیا کو سرمایہ دارانہ نظام سے پاک کرنا ہوگا۔

ہم نے عوامی مسائل اور عوام کے منتخب نمایندوں کے کردار کے حوالے سے کالم کا آغاز کیا تھا۔ پاکستان میں بھی وہی سرمایہ دارانہ جمہوریت نافذ ہے جو دوسرے سارے جمہوری ملکوں میں رائج ہے۔ پسماندہ ملکوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان ملکوں کی جمہوریت میں اول سے آخر تک خواص کے مفادات کو ہی اولیت حاصل رہتی ہے عوام کے مفادات سیکنڈری ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی سرمایہ دارانہ جمہوریت ہی نافذ ہے لیکن وہاں کے عوام کے مسائل بھی حل ہوتے رہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ منتخب نمایندوں میں اخلاقیات اور ووٹ کی ذمے داری کا کچھ نہ کچھ احساس ہوتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کے عوام میں ڈھائی سو سال کے دوران سماجی اور سیاسی شعور پیدا ہوگیا ہے وہاں کے عوام ووٹ دینے سے پہلے امیدوار کی خدمات اس کی پارٹی کا منشور دیکھتے ہیں۔ ماضی میں پارٹی کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔ اور ہر طرح سے مطمئن ہوکر اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہیں دوسری اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ان کا منتخب نمایندہ ان کی آبادی کا باشندہ ہوتا ہے اور ہمیشہ عوام کی دسترس میں رہتا ہے۔

ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہمارا کوئی لیڈر کراچی میں رہنے والے کو بھاولپور سے الیکشن لڑواتا ہے اور جتواتا ہے کیونکہ کراچی کی طرح بھاولپور پر بھی اس کی بالادستی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اشرافیہ نام کی جو چیز بستی ہے اس کی جڑیں سارے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں اور وہ جس علاقے سے چاہے اپنی بات منوا سکتی ہے۔ بھٹو صاحب نے کہا تھا اگر میں کھمبے کو بھی ووٹ دینے کے لیے کہوں تو عوام کھمبے کو ووٹ دیں گے۔ یہ جمہور کی طاقت نہیں بلکہ اشرافیہ کی طاقت ہے جو ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔