طلبا تحریک کی داستان

انیس باقر  جمعـء 16 مارچ 2018
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

طلبا یونینوں پر پابندی کے 40 برس سے زائد وقت گزرنے کے بعد ایک چونکا دینے والی خبر سامنے آئی کہ پاکستان کے طلبا تحریک پر ایک دلکش اور مستند کتاب  ’’سورج پہ کمند‘‘ کے نام سے سامنے آگئی ہے جو 600 صفحات پر مشتمل ہے اور جس میں 110 جانبازوں کی کہانی درج ہے۔

سرورق و صورت گری سید علی واصف کی فنکاری کا جمال ہے جو عالمی شہرت یافتہ مصور صادقین کے شاگرد تھے اسی لیے اس میں تجریدی و نیم تجریدی آرٹ کا حسین امتزاج موجود ہے کہ سورج جو سرخ ہے اس پر کمند ڈالی جا رہی ہے اور انگلیاں فگار ہونے کے باوجود طالب علم کی ہمت میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی ہے۔

اس کتاب کے ان گنت اوصاف ہیں، پہلا وصف تو اس کے مورخین حسن جاوید اور محسن ذوالفقار نے الفاظ سے مزین کیا ہے جو این ایس ایف کے دو مختلف گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ حسن جاوید کا تعلق رشید گروپ سے ہے۔ عام طور پر اس گروپ کو چین نواز کہا جاتا تھا۔

دوسرے گروپ کو کاظمی گروپ کے نام سے پہچانا جاتا ہے کیونکہ قومی اور بین الاقوامی امور پر سوویت یونین کے ہم خیال تھے۔ یہ دو دھڑے اکتوبر 1965ء میں الگ ہوئے اور اب جب دونوں گروپ عملاً ختم ہوگئے اور وقت اور سیاست کی ہوائیں رخ بدل چکی ہیں نہ روس کا وہ کمیونسٹ بلاک رہا اور نہ چین ماؤ نواز، تو آپس میں منطقی طور پر الگ الگ سوچ اور راہ کا کوئی جواز باقی نہ رہا۔

سورج پہ کمند عہد بہ عہد کی بولتی مسکراتی گرجتی اور جگمگاتی تصویر ہے۔ این ایس ایف یا ڈی ایس ایف دراصل ایک ہی تنظیم کے دو رخ ہیں۔ ان طالب علم رہنماؤں کی چشم بینا صرف اپنے ملک کے عوام تک محدود نہ تھی بلکہ پیٹرس لوممبا، جبلپور میں کیے جانے والے مظالم ہوں یا ویت نام و فلسطین، حق کی آواز کراچی سے اٹھتی رہی اور پھر اس کی دھوم ملک بھر میں مچتی رہی۔

کتاب کھولتے ہی پہلے رہنما ڈاکٹر محمد سرور کے انداز گفتگو منصوبہ بندی اور اس وقت کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین پر اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ڈاکٹر سرور نہ صرف پرجوش و بہادر شخص تھے بلکہ ان کی گفتگو سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ شہر کراچی جو ملک کا دارالحکومت تھا یہاں کے عوام ان کے ساتھ تھے اور اسٹوڈنٹس لیڈر ملک کی عوامی قیادت سے جڑے ہوئے تھے اور جیسے جیسے وقت گزرتا گیا حکمرانوں نے عوام کو کچلنا شروع کردیا پھر ایک بار طالب علم متحد ہوئے۔

جس کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کو بام عروج نصیب ہوا مگر عوامی راج پھر بھی ایسا آیا کہ دونوں گروپ کمزور ہوگئے لہٰذا حکومت نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا کے اشارے پر ملک میں مارشل لا لگانے کا پروگرام بنا لیا اور ذوالفقار علی بھٹو گوکہ نہایت ہوشیار سیاستدان تھے ان کو بھی زیر دست بنانے کا پروگرام بنالیا مگر بھٹو صاحب اور این ایس ایف کے دونوں گروپ اس سے ناواقف تھے، اگر آپ کو موقع ملے تو اس کتاب کے اس حصے کو غور سے پڑھیں جو حسام الحق پر لکھے گئے ہیں تو آپ کو محسوس ہوجائے گا کہ رشید حسن خان تو این ایس ایف کے صدر ہونے کے باوجود پنجاب اور خیبرپختونخوا پر اپنا سیاسی اثر و رسوخ اتنا نہ رکھتے تھے جتنا کہ حسام الحق رکھتے تھے بلکہ ایک موقعہ ایسا آیا کہ بھٹو  نے حسام کو پنجاب کا گورنر بنانا چاہا مگر حسام نے کسی سیاسی وجہ سے انکار کردیا (یہ جملے کتاب میں درج نہیں)۔

حسام کے علاوہ صلاح الدین گنڈا پور بھی ایک بااثر کارکن تھے جن کا اثر خیبر پختونخوا تک پھیلا ہوا تھا اور انھی دو سیاسی کارکنوں کی بنیاد پر رشید گروپ براہ راست پنجاب اور پختونخوا علاقوں میں 1983-1984ء میں بھی خاصا سرگرم تھا جب کہ کاظمی گروپ جس کو روس نواز کہا جاتا تھا وہ ہر صوبے میں وہاں کی مقامی تنظیم سے تعاون کرکے ان سے مربوط انداز میں کام کرتا تھا جیساکہ پختون علاقے میں مطیع اللہ ناشاد اور بلوچستان میں عبدالحئی بلوچ اور پنجاب میں غزالہ شبنم جو کبھی رشید گروپ میں ہوا کرتی تھیں۔

اندرون سندھ میں سندھ این ایس ایف کے روح رواں جام ساقی جو ایک دیو مالائی شخصیت کے مالک تھے غریب طبقات کے لیے کام کرنے میں ان کا مقام ہمیشہ بلند تر رہے گا۔ بات جب سندھ کے اندرونی علاقوں کی ہوگی تو اردو زبان کے معروف شاعر یونس شرر بھی یاد کیے جائیں گے جو امریکا میں مقیم ہیں انھوں نے سندھی زبان کی تعلیم جو ایوب خان نے ختم کردی تھی اس کے لیے قریہ بہ قریہ کو بہ کو مہم چلائی۔

یہ بھی این ایس ایف کے رکن تھے اور سندھی زبان کو آخر کار پڑھائے جانے کا اہتمام ایوب خان کو کرنا پڑا۔ انھوں نے سندھیوں کے دل جیتے اور سندھی اردو میں ملاپ کا دیا جلایا مگر بھٹو صاحب کے برسر اقتدار آنے کے بعد جو توقعات این ایس ایف رشید گروپ نے لگا رکھی تھیں وہ پوری تو دورکی بات چند باتیں ہی بمشکل پوری ہوئیں اور طرفہ تماشا کہ سندھ میں کوٹہ سسٹم نے عوام کو تقسیم کردیا جو پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام دو متضاد نام پیپلز کے ساتھ اسٹوڈنٹس کا الحاق ایک لسانی عمل تھا خصوصاً ان ترقی پسند اردو دانشوروں کے لیے جو سندھی زبان کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے پس زنداں گئے۔

ممتاز بھٹو جب سندھ کے وزیر اعلیٰ بنے تو انھوں نے اردو کے ساتھ بھونڈا مذاق کیا اردو کو سندھ بدر کرنے کی کوشش کی جس پر رئیس امروہوی نے ایک مشہور نظم لکھی جو آگ پر تیل کا کام کرگئی جس کا ایک مشہور مصرعہ یہ ہے ’’اردو کا جنازہ ہے بڑی دھوم سے نکلے‘‘ کراچی صوبہ تحریک پر غور و فکر شروع ہوا اور اردو داں طبقے میں اپنی شناخت کا تصور پیدا ہوا۔ جس کو ضیا الحق نے کمک پہنچائی اور کراچی میں ایم کیو ایم کے تصور کو تقویت ملی اور این ایس ایف کمزور ہوتی گئی ایک تو بشریٰ زیدی کی موت نے کراچی کو سوگ می نہلا رکھا تھا اس کے بعد پھر حکومتی سطح پر پٹھان مہاجر تنازعہ بھی پھوٹ پڑا تو این ایس ایف کا مرکز کمزور ہوگیا اور پورے ملک کو لسانی اور صوبائی عفریت نے حکومتی شے پر جکڑ لیا، طبقاتی تحریک کو لسانی اور افغان مسئلے کی وجہ سے مذہبی گروہی سیاست کو فروغ ملا۔

سورج پہ کمند جیسی اس برس ایک اور کتاب بھی سامنے آئی تھی جس کو محترم عزیزی نے اس ملک کے ترقی پسند دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں کے تذکرے شامل کیے ہیں جو عوامی انقلاب کی راہ میں جاں سے گئے یا دربدر ہوئے ان میں 37 جانبازوں کے نام ہیں جو ’’رفیقان صدق و صفا‘‘ کے نام سے موجود ہے۔ جن میں شہید حسن ناصر کے علاوہ اور بھی اکابرین کی تفصیل ہے مگر سورج پہ کمند زیادہ ضخیم ہے اور طلبا اور طالبات کا فرداً فرداً انٹرویو ہے۔

سورج پہ کمند میں ڈاکٹر سرور کے علاوہ اور بھی شخصیات ہیں جنھوں نے ملک میں عوامی کام کا نیا رنگ پیش کیا ان میں ایس آئی یو ٹی کے روح رواں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور خواتین میں بہت سے گراں قدر نام ہیں جن کو نظرانداز کرنا بڑا مشکل ہے۔

مسز ذکیہ سرور، انیتا غلام علی، خواتین کی نمایندہ رہنما تھیں۔ صفہ جارچوی دلیر اور جانباز پٹ فیڈر تحریک کی مایہ ناز کسان رہنما تھیں۔ بقیہ ہر ایک اپنے کام اور نام میں مختلف نگینوں کے اوصاف رکھنے والی لڑکیاں لالہ رخ انصاری، بیگم زین الدین، حمزہ واحد، مہ ناز رحمن، زلیخا واحد جو میرے ساتھ ایک جلوس میں ویت نام کے لیے گئیں اور ان کی ساتھیوں نے ویت نام کی حمایت میں امریکا کا پرچم صدر قونصلیٹ آفس سے اتار دیا تھا جب یہ آفس میرٹ ہوٹل کے قرب میں تھا مجھے یہ کہنے میں کوئی عذر نہیں کہ این ایس ایف کی تقسیم میں کاظمی کے ساتھ ڈاکٹر قمر عباس ندیم، ڈاکٹر مظہر حیدر اور سیاسی وابستگی سے لبریز روس نواز ڈاکٹر شیر افضل ملک ساتھ تھے اور کاظمی صاحب عبدالباری خان کی سیاسی رہنمائی کرتے رہے۔

جس طرح ابتدا میں ڈاکٹر رشید حسن کے لیے معراج کی قربانیوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح کاظمی صاحب کے ذاتی اور فکری دوست راشد تقی کو بھی  نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کتاب کا آخری مضمون عاصم علی شاہ پر جنھوں نے نامساعد حالات میں بھی رشید گروپ کو زندہ رکھنے کی کوشش کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ 600 صفحات پر مشتمل کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ طلبا نے بھٹو صاحب کو اپنی منزل کی سمت موڑنے کی کوشش کی مگر ایسا نہ ہوسکا اور طلبا کی آپس کی نظریاتی جنگ نے این ایس ایف میں دھڑے بندی کے انبار لگا دیے جو این ایس ایف کے زوال کا سبب بنی ۔

ہم اگر اب غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ سیاسی خلا ملک میں عروج پر ہے اور کراچی سیاسی اعتبار سے ایک بڑے خلا سے گزر رہا ہے جہاں عوام کو سکھ پہنچانے والی جماعت کی ضرورت ہے اور اب نئی کمندیں بنانے اور ڈالنے والوں کی اشد ضرورت ہے تاکہ موروثی جمہوریت کا خاتمہ ہو اور عوام کو حقوق ملیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔