سیاسی شکستیں

محمد سعید آرائیں  جمعـء 16 مارچ 2018

ملک کی تاریخ میں عوام نے چھ نشستوں کے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن اتحاد کے امیدوار کو سینیٹ کا چیئرمین منتخب ہوتے دیکھا وہیں حکومتی اتحاد کے امیدوار کی شکست بھی دیکھی ۔ قوم نے یہ بھی دیکھا کہ دو روز قبل پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے امیدوار کوکسی صورت بھی ووٹ نہ دینے کا اعلان کرنے والے عمران خان بھی ڈپٹی چیئرمین کے عہدے پر پی ٹی آئی کے ووٹ دلانے پر مجبور ہوئے کہ کہیں مسلم لیگ یہ چھوٹا عہدہ ہی حاصل نہ کرلے۔

عمران خان اسی سلسلے میں اتنے تو ضرورکامیاب ہوئے کہ حکومت کے دونوں امیدوار ہار گئے مگر ڈپٹی چیئرمین پیپلزپارٹی کا منتخب کراکر اپنی بائیس سالہ جدوجہد پر بھی سوالیہ نشان لگوالیا اور ان پر پیپلزپارٹی کی حمایت کا الزام بھی لگ گیا جب کہ انھوں نے چند ماہ بعد مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے خلاف انتخاب بھی لڑنا ہے۔

اصولوں کے برخلاف خفیہ سمجھوتے سیاست میں ہونا کوئی نئی بات نہیں بلکہ اصولوں پر تو سیاست ہو ہی نہیں سکتی۔ اصولوں کے محض دعوے کرنے والوں میں صرف عمران خان ہی نہیں بلکہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری بھی شامل ہیں اور ان تین بڑے سیاست دانوں کے اصول بدلتے وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں اور امید یہی ہے کہ مستقبل میں بھی بدلتے رہیںگے۔

میاں نواز شریف پاناما کی بجائے اقامہ پر اپنی نااہلی کے بعد وزارت عظمیٰ کے بعد مسلم لیگ ن کی صدارت چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو انھوں نے سیاست میں رہنے کے لیے قوم کو، ووٹ کوعزت دو کا بیانیہ دے دیا جو واقعی مقبول بھی ہورہا ہے اور ملک میں بدلتی صورتحال پر عوام بھی اپنی مرضی کی رائے زنی کررہے ہیں اور وہ بھی اب اتنی سیاسی سوجھ بوجھ کے حامل ہوگئے ہیں کہ سمجھ سکیں کہ کون درست ہے اور کون غلط اور کون اپنے مفاد کے لیے کیا کر رہا ہے۔

عوام کو یہ بھی مسلم لیگ ن کی طرف سے بتایا جارہاہے کہ سارے فیصلے ان کے خلاف آرہے ہیں اور ان کے قائد کو اپنی بیرون ملک زیر علاج بیگم کی عیادت سے روک لیا جاتا ہے اور عمران خان کو حاضری سے استثنیٰ مل جاتا ہے۔ عدالتی اور بالاتروں کے فیصلے اپنی جگہ میں شکستوں سے دو چار نواز شریف بھی سیاست میں رہنے کے لیے جو فیصلے کررہے ہیں وہ بھی غلط ثابت ہو رہے ہیں۔

مسلم لیگ کی صدارت جانے کے بعد انھوں نے تو اپنا نام بھیچھین لینے کی بات کی تھی جو ہو نہیں سکتا کیونکہ یہ نام سیاست میں آنے سے قبل ان کے والدین نے رکھا تھا اور انھیں یہ بھی پتا نہیں تھا کہ نواز شریف تین بار وزیراعظم بننے کے بعد برطرف ہوگا۔ نواز شریف کے والدین نے انھیں جو نام دیا تھا وہ تو محفوظ رہے گا مگر ان کی سیاست انھیں کیا نشیب و فراز دکھائے گی وہ ڈکٹیشن نہ لینے کے دعویدارکو بھی توقع نہیں تھی۔

نااہلی کے سات ماہ گزرنے کے بعد ماضی کا وزیراعظم وفاق اور پنجاب میں بھاری اکثریت رکھنے کے باوجود مشکلات اور شکستوں سے دو چار ہے اور حیرت انگیز طور پر مستقبل کی منصوبہ بندی میں مختلف چیلنجز نظر آ رہا ہے۔

عدالتوں ، چیف الیکشن کمشنر سے انھیں کوئی ریلیف نہیں مل رہا جیسا ریلیف ملک کے عوام ان کے دور اقتدار میں چاہتے تھے۔ سینیٹ میں نواز شریف کی حالیہ شکست میں جہاں بھاری اور بالادست کا کردار موثر ثابت ہوا ہے وہاں مسلم لیگ ن بلوچستان میں اپنی حکومت کے اچانک صدمے ہی میں تھی، ان کے اپنوں کی بغاوت سے مسلم لیگ ق کا وہاں وزیراعلیٰ آگیا جس نے پیپلزپارٹی کی قربت حاصل کرکے ن لیگ کے خواب چکنا چور کرا دیے اور سینیٹ میں ن لیگ بلوچستانی بغاوت کے باعث اکثریت نہ لے سکی۔

اور بالادستوں نے سینیٹ میں اس شخص کے نعرے لگوادیے جو انھیں ماضی میں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا خواہاں تھا مگر اس نے آنے والے حالات کا ادراک کرکے نہ صرف خود کو بچایا بلکہ اپنی پارٹی کی سیاست بھی بچالی جب کہ نواز شریف سے یہ بھی نہ ہوسکا اور وہ شکستوں کے بعد اپنے خلاف آنے والے فیصلوں کے منتظر ہیں۔ غلط فیصلوں سے میاں صاحب کا اقتدار اور ن لیگی صدارت تو گئی مگر بعدازاں وہ اپنی پارٹی کی قیادت کرتے رہیںگے یا کوئی ان کی قیادت کو بھی عدالت میں چیلنج کردے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

آصف زرداری نے اپنے فیصلوں سے جہاں اپنے لیے راہ ہموار کرلی اور عمران خان کے اصول ختم کرادیے وہاں نواز شریف کے لیے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کا الیکشن بہت اہم تھا جو آصف زرداری کی سیاست سے پیپلزپارٹی دونوں عہدے لینے میں کامیاب رہی۔ میاں رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ بنوانے والے آصف زرداری نے مسلم لیگ کی حمایت کے باوجود دوبارہ نامزد نہیں کیا اور چھ سینیٹروں کے گروپ کو چیئرمین بنواکر بلوچستان کو پہلی بار یہ عہدہ دلادیا ، نواز شریف کو بھی چاہیے تھا کہ وہ راجا ظفر الحق کی بجائے بلوچستان ہی کے اپنے اتحادی حاصل بزنجو کو نامزد کرتے۔

بلوچستان میں پہلے ہی حق نہ ملنے کا احساس ہے ایسے میں پنجاب کے راجا ظفر الحق کو نامزد نہ کیا جاتا تو شاید بہتر ہوتا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت یہاں بھی اس بلوچ سے مات کھاگئی جس نے اپنی صدارت میں بلوچستان سے معافی ضرور مانگی تھی مگر دیا کچھ نہیں تھا اور پنجاب ہی کو چیئرمین سینیٹ بنوایا تھا مگر آج وہ سرحد کو کے پی کے بنواکر اور اب بلوچستان چیئرمین سینیٹ منتخب کراکر بلوچستان میں بھی اپنے نمبر بڑھاچکے ہیں جب کہ پنجاب کے دعویداروں کو پنجاب میں بھی سیاسی وفاداریاں بدلتی نظر آ سکتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔