اسوہ صدیق اکبرؓ

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  جمعـء 16 مارچ 2018
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

حضرت ابوبکر صدیقؓ کو تمام اصحاب رسول ﷺ میں بڑی عظمت و بزرگی حاصل ہے۔ آپؓ کا نام عبداللہ، لقب صدیق و عتیق اورکنیت ابو بکر تھی۔ آپؓ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں رسول اکرم ﷺ سے جا ملتا ہے۔ صدیق اکبرؓ اپنی قوم میں ہر دل عزیز اور علم الانساب کے ماہر تھے۔ قریش مکہ کے تمام خاندانوں کے نسب انھیں زبانی یاد تھے۔ آپ خلیق، ایماندار اور ملنسار تاجر تھے۔ لوگ آپ کے اعلیٰ اخلاق اور عمدہ برتاؤ کے معترف تھے۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ رسول کریم ﷺ سے تقریباً سوا سال چھوٹے تھے۔ آپؓ کا خاندان بنی تیم مکہ کے معزز خاندانوں میں سے تھا۔ اخلاق و عادات کے اعتبار سے آپ حضور ﷺ سے بہت مشابہ تھے۔ بچپن ہی سے رسول اکرم ﷺ کے مخلص دوست تھے، پوری عمر نبی رحمت دوجہاں ﷺ کے ہمدم و ہم نشین رہے، یہ خصوصیت کسی اور صحابی کو حاصل نہیں۔ آپؓ مکہ کے باوقار، معزز اور سنجیدہ ترین لوگوں میں سے تھے۔ تجارت آپ کا ذریعہ معاش تھی، کاروبار نہایت دیانتداری کے ساتھ کرتے تھے۔ شہر کے مال دار لوگوں میں آپ کا شمار تھا۔ جب رسول مکرم ﷺ نے اسلام کی تبلیغ شروع کی تو سب سے پہلے صدیق اکبرؓ کو قبول اسلام کی دعوت دی جسے آپؓ نے بلا جھجک قبول کرلیا۔

صدیق اکبرؓ کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے خود فرمایا ’’میں نے جسے بھی اسلام کی دعوت دی، اسے قبول کرنے میں کچھ نہ کچھ جھجک ضرور ہوئی، سوائے صدیق اکبرؓ کے۔‘‘

قبول اسلام سے پہلے بھی حضرت ابو بکر صدیقؓ نہ باطل عقیدہ میں مبتلا رہے اور نہ کبھی جھوٹ بولا، نہ کبھی شرک کیا اور نہ ہی کبھی شراب پی، دل و زبان کی اس سچائی کی بدولت آپؓ کا لقب صدیق قرار پایا۔ سب سے پہلے آپؓ ہی نے واقعہ معراج کی تصدیق کی۔

ابو بکرؓ بذات خود، آپ کے والد، آپ کے بیٹے اور پوتے، سب رسول کریم ﷺ کے زمانے ہی میں ایمان لاچکے تھے، گویا آپؓ کی چار پشتیں صحابی ہیں، یہ امتیاز کسی اور صحابی کو حاصل نہیں ہے ۔ قبول اسلام کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ ہر دور اور ہر حال میں نبی کریمﷺ کے ساتھی اور مددگار رہے۔ اپنا تمام مال و متاع اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے لیے وقف کردیا۔

حضرت ابو بکرصدیقؓ کا شمار عشرہ مبشرہ میں کیا جاتا ہے۔ آپؓ نے اسلام کی ترویج و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آپؓ کی مساعی سے بہت جلد بہت سے لوگ اسلام لے آئے۔ حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ، حضرت طلحہ بن عبداللہ، حضرت زبیر بن العوام اور حضرت سعد بن زیدؓ آپ ہی کی کوششوں سے اسلام لائے۔ صدیق اکبرؓ نے اپنا مال ومتاع غریب لوگوں پر دل کھول کر خرچ کیا۔

ہجرت کے بعد حضرت ابوبکرؓ تمام غزوات میں شریک ہوئے، غزوہ بدر میں آپؓ نے اسیران بدر کی سفارش کی۔ نبی رحمت ﷺ نے آپ ہی کے مشورے پر تمام قیدی زرفدیہ کے عوض رہا کردیے، غزوہ تبوک کے موقعے پرگھر کا سارا سامان اٹھا لائے فتح مکہ کے دوسرے سال رسول کریمﷺ نے صدیق اکبر کو امیر حج مقرر فرمایا ۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی علالت کے دوران حضرت ابو بکرؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔

نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد جانشینی کا مسئلہ فتنے کی صورت اختیار کرنے والا تھا کہ صدیق اکبرؓ نے ذاتی تدبر اور سمجھداری سے کام لیتے ہوئے اسے حل کیا۔ مسلمانوں نے باہمی اتفاق رائے سے آپ کو مسند خلافت کے لیے منتخب کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا ’’لوگو! مجھے تمہارا امیر منتخب کیا گیا ہے، حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں، میں نے حکومت اور امارات کی کبھی خواہش نہیں کی، نہ خلوت میں نہ جلوت میں، اب جب کہ میں تمہارا امیر بنایا گیا ہوں تو میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر میں اچھے کام کروں تو تم میری مدد کرنا اور اگر مجھے برائی کی طرف دیکھو تو میری اطاعت تم پر لازم نہیں، بلکہ مجھ سے باز پرس کرنا۔

سچائی امانت ہے جب کہ جھوٹ خیانت ہے۔ جو قوم خدا کی راہ میں جہاد ترک کردیتی ہے، خدا اسے ذلیل و خوار کردیتا ہے۔ جس قوم میں برائیاں اور گناہ پھیل جاتے ہیں، خدا کی جانب سے اس پر آفتیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں۔ اگر میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی پیروی کروں تو تم بھی میری پیروی کرنا، اگر میں اس کے خلاف چلوں تو تم پر میری پیروی لازم نہیں۔‘‘

خلیفہ بننے کے بعد آپ کے فیصلوں نے جو حکمت و بصیرت سے بھرپور تھے، تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ ڈالا۔ صدیق اکبر نے پہلے خلیفہ کی حیثیت سے سب سے پہلا حکم یہ دیا کہ لشکر اسامہ شام کی جانب روانہ ہو حالانکہ اس موقعے پر صحابہ کرام نے یہاں تک کہ حضرت عمر فاروقؓ نے بھی مخالفت کی لیکن آپ کے عزم اور استقلال میں کوئی فرق نہیں آیا اور اس لشکر کی کامیابی کے بعد آپ دوسرے مسائل کی طرف متوجہ ہوئے۔

دوسرا مسئلہ اسلام سے پھرنے والے مرتدین یا فتنہ ارتداد کا تھا۔ آپ نے سب کو ایک ایک کرکے راہ راست پر لانے کی کوشش کی، جنھوں نے آپ کا حکم نہیں مانا، ان کے خلاف جہاد کیا۔ مرتدین کے خلاف جنگوں میں ’’جنگ یمامہ‘‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، ان میں اکابرین صحابہ اور حفاظ قرآن کی ایک بڑی تعداد شامل تھی آپ نے مدعیان نبوت کے خلاف بھی جہاد کیا اور ان کی سرکوبی کی، ان میں مسلیمہ کذاب طلیحہ اسری، اسود عنسی اور ایک خاتون سباح شامل تھی۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ کے سامنے منکرین زکوٰۃ کا مسئلہ بھی تھا، آپ نے ان کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ غرض صدیق اکبر نے اپنے مختصر دور خلافت میں ملک میں امن و امان قائم کیا اور بہترین انتظام سلطنت کے ساتھ ساتھ ایسی اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالی جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ آپ نے اسلامی سلطنت کی سرحدوں کی طرف خصوصی توجہ دی اور انھیں دشمنوں سے محفوظ کرنے کے لیے فتوحات کا سلسلہ شروع کیا۔

آپ کے دور خلافت میں قیصر کسریٰ یعنی روم اور ایران کی عظیم الشان سلطنتوں کی جانب مسلمانوں کی پیش قدمی شروع ہوئی اور آپ کے بعد آنے والے خلفا نے ان فتوحات کو مزید آگے بڑھایا اور ایشیا اور افریقہ کا بہت بڑا علاقہ اسلامی قلم رو میں شامل کیا۔

ابو بکر صدیقؓ کے عہد کا ایک اہم کارنامہ جمع و تدوین قرآن حکیم ہے۔ جنگ یمامہ میں حفاظ قرآن کی ایک بڑی تعداد شہید ہوگئی تھی۔ یہ ایسا نقصان تھا جس کی تلافی ممکن نہ تھی اور یہ اندیشہ پیدا ہوگیا تھا کہ قرآن محفوظ نہیں رہے گا۔ ان حالات میں حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو یہ مشورہ دیا کہ قرآن حکیم کی تمام تحریریں جو رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے ہڈیوں، لکڑی، پتھر اور پتوں وغیرہ پر لکھی گئی تھیں، انھیں اسی ترتیب سے جمع کردیا جائے تاکہ قرآن حکیم محفوظ ہوجائے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے یہ مشورہ قبول کرلیا اور رسول کریم ﷺ کے کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ کو اس کام پر مقرر کیا اس طرح قرآن حکیم کتابی شکل میں جمع ہوگیا۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ رسول مکرم ﷺ کی وفات کے بعد صرف دو برس تین ماہ اور گیارہ دن زندہ رہے۔ 22 جمادی الآخر 13 ہجری، پیر کے دن عشا اور مغرب کے درمیان آپؓ خالق حقیقی سے جا ملے، وفات کے وقت عمر مبارک 63 سال تھی۔ آپ کی مدت خلافت دو برس، تین ماہ اور گیارہ دن رہی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور نبی آخر الزماں ﷺ کے پہلو میں دفن ہوئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔