معصوم ذہانت

فریدہ فرحت آغازئی  جمعـء 16 مارچ 2018

میری چھوٹی بہن گڑیا ، جو ہم سب بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی واقعی ایک گڑیا ہی تھی، خوبصورت گول مٹول اور معصوم۔ جی ہاں وہ ایک اسپیشل چائلڈ تھی۔آج اس کے جیسے کچھ بچوں کو دیکھا تو وہ بہت یاد آئی اور پھر اس سے متعلق ہر بات یاد آتی چلی گئی۔

سب سے زیادہ اپنی ماں کا صبر ، برداشت اور اللہ پر توکل یاد آیاکہ اس کی پرورش کے دوران امی کو بحیثیت ماں کے کون کون سی دشواریاں پیش آئیں۔ شروع میں وہ چل نہیں سکتی تھی، چلنا تو دور وہ کھڑی بھی نہیں ہوسکتی تھی،کوئی چھ آٹھ سال تک گود میں یا پھر پکڑ کر چلایا جاتا تھا، بولنا بھی اس کا صاف نہیں تھا۔

وہ ایک ایسی لینگویج بولتی تھی جو صرف ہم گھر والے ہی سمجھ سکتے تھے، پھر وہ بڑی ہوگئی اور سمجھدار بھی۔رویے پہچانتی تھی اور لوگوں سے اسی حساب سے پیش آتی تھی۔بہت ہنس مکھ اور ملنسار تھی۔پھر ہوا یوں کہ ایک ایک کرکے بہن بھائی گھر سے رخصت ہونے لگے کوئی دوسرے شہر چلا گیا تو کوئی دوسرے ملک۔ہم بہنیں بھی شادی کے بعد دوسرے شہر آگئیں سوائے باجی کے۔ گڑیا بجھتی چلی گئی اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ سب کیوں اورکہاں چلے گئے۔امی کے بعد گڑیا چند سال زندہ رہی شدید بیماری کی حالت میںاکتیس سال کی عمر میں رخصت ہوگئی۔گو کہ باجی اور ان کے بچوں نے اس کا بے حد خیال رکھا مگر شاید اس کو جانا ہی تھا ۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن گھروں میں ایسے بچے اللہ تعالی بھیجتا ہے ۔ ان لوگوں کو ایسے بچوں سے قدرتی طور پر ایک قلبی لگاؤ ہوتا ہے،چند روز پہلے میرا ایک ایسے ادارے میں جانے کا اتفاق ہوا جو ایسے ہی بچوںکی skill development  کے لیے کام کررہا ہے ۔ میری درخواست پر وہاں کی انتظامیہ نے مجھے اجازت دی کہ ادارے کا وزٹ کرسکتی ہوں اور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کے ادارہ کس طرح ان بچوں کے اندر مخفی ذہانت اور اہلیت کو ان کے اندر سے نکالتا ہے۔

سب سے پہلے تو میں وہاں کی صفائی ستھرائی اور ڈسپلن سے ہی متاثر ہوگئی۔میں نے بچوں کی کلاسوں کا وزٹ کیا اور انھیں مختلف ہنر اپنے ہاتھوں سے کرتے ہوئے دیکھا۔کچھ بچیاں مشین پر سلائی اور کڑھائی سیکھ رہی تھیں اور کچھ اڈے پر ہاتھ کا کام یا ہاتھ کی کڑھائی جو ہم عموماََ باہر سے مہنگے نرخوں میں بنوایا کرتے ہیں۔ یہاں پر ایک اور شعبہ بھی موجود تھا جو بچوں کو بلاک پرنٹنگ اور اسکرین پرنٹنگ کی تربیت دے رہا تھا۔ کچھ بچے ابھی سیکھنے کے مراحل میں جب کہ کچھ بڑی مہارت سے کام کررہے تھے ۔

پھر آجائیں کمپیوٹر پروگرامنگ کی طرف ، وہاں بھی بچے مختلف پروگرام سیکھتے دکھائی دیے ۔ اسپرے پینٹنگ کا شعبہ مجھے کافی انٹرسٹنگ لگا وہاں کے انچارج نے بتایا کہ ہمارے بچے کئی گاڑیاں پینٹ کرچکے ہیں، بچوں کے ذہنی معیارکا خاص خیال رکھا جاتا ہے ، اگر ہم سیلف گرومنگ کی بات کریں تو ہر بچہ اس کا منہ بولتا ثبوت نظر آیا۔وہاں پرفی الوقت 130بچے اور بچیاں زیر ِتربیت ہیں۔وہاں جاکر میں بہت متاثر ہوئی اور پھر میں نے کافی وقت وہاں گزارا۔ چھٹی کے وقت قطاریں بنائے ایک ڈسپلن میں ان کی گھروں کو روانگی کا منظر بھی دیکھا اور مجھے پل پل گڑیا یاد آتی رہی۔

کراچی ووکیشنل ٹریننگ سینٹر اپنی نوعیت کا سندھ میں واحد ادارہ ہے جو بہترین طریقے پر نہ صرف ان بچوں کی ذہنی اور فنی صلاحیتوں کو نکھار رہا ہے بلکہ بہترین زندگی گزارنے کے لیے مختلف امور کے متعلق آگاہی اور مطلوبہ امداد بھی فراہم کررہا ہے۔ان بچوں کو معاشرے کا کارآمد شہری بنانے اور انفرادی طور پران کی خصوصیات کو اجاگر کرنے کے لیے پوری ٹیم جس میں ٹیچرز ، ٹرینر،کوچ ، سائیکاٹرسٹ ، ڈاکٹر، غرض بہت سے افراد کی انتھک محنت سے ایک بچے کی تمام تر صلاحیتیں باہر آتی ہیں اور بلا شبہ یہ لوگ مثالی کردار ادا کررہے ہیں اور ان میں سے بیشتر ٹرینیز کو بڑے ادارے جاب بھی آفر کرتے ہیں۔

اس وقت kvtcکے ٹرینڈ کیے ہوئے تقریباََ پانچ سو ہنر مند مختلف اداروں میںکام کررہے ہیں جن میں اینگرو، یونی لیور، اٹک پٹرولیم، ایچ ،ایس ، بی، سی، مسٹر برگر،ایکسپریسو شامل ہیں۔ ان بچوں کے درمیان رہ کر انسان خود کو زندگی کے بہت قریب محسوس کرتا ہے، اور جان لیتا ہے کہ یہ ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں ، جو ملک کی تعمیر اور ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیارکیے جا رہے ہیں۔ واپسی سارے سفر میں ، میں یہی سوچتی رہی کہ گڑیا کو ایسا ادارہ مل جاتا تو اس کی زندگی کتنی الگ ہوتی، عمر تو بہرحال جتنی لکھوا کر آئی تھی اتنی ہی رہتی مگر زندگی بہت الگ انداز سے گزارتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔