والدین کے حقوق

عبد المنان معاویہ  جمعـء 16 مارچ 2018
قرآن کریم اور احادیث نبویؐ میں ماں باپ کے حقوق کی پاس داری کی تعلیم و ترغیب کی تاکید گئی ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

قرآن کریم اور احادیث نبویؐ میں ماں باپ کے حقوق کی پاس داری کی تعلیم و ترغیب کی تاکید گئی ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

مسلمانوں کی زندگی اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری اور رسول رحمت ﷺ کی اطاعت میں بسر ہونی چاہیے، اسی میں دنیا کی کام یابی ہے اور اُخروی نجات کا راز مضمر ہے۔ لیکن اغیار کے طرز حیات کی نقالی نے ہمیں صرف اپنے دین سے ہی نہیں دور کیا بل کہ مشرقیت سے بھی پَرے کردیا۔

ہمیں تو پیغمبر اسلام ﷺ نے زندگی بسر کرنے کا مکمل طریقہ بتایا ہے، جس کے مطابق ہم اگر ہم زندگی بسر کریں تو ہماری دنیا بھی پرسکون ہوگی، اور روزِ محشر بھی شفاعت ِ نبویؐ کے مستحق بن سکیں گے۔

والدین، انسان کے لیے دنیا میں ہی محبت و رحمت کا شجر سایہ دار ہیں۔ والدین بچے لیے شفقت و محبت کا مظہر ہوتے ہیں۔ وہ اسے چلنا سکھاتے ہیں، بولنے کے لیے الفاظ سکھاتے ہیں، اس کی توتلی زبان سے نکلنے والے جملوں کو بار بار اس کی زبان سے نکلوا کر جہاں لفظوں کی تصحیح ہوتی ہے وہیں ماں باپ اپنے بچے سے محبت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

بچہ بولتا ہے لیکن کسی کو سمجھ میں نہیں آرہا ہوتا ہے کہ بچہ کیا کہہ رہا ہے لیکن اُس وقت بھی ایک ماں ہوتی ہے کہ فوراً کہتی ہے کہ میرا بچہ یہ کہہ رہا ہے، بچہ رنگ کا کالا ہے لیکن ماں کہتی ہے میرا چاند، میرا لعل۔ باپ سارا دن کماتا ہے، محنت مزدوری کرتا ہے، شام کو تھکا ماندا جب گھر پہنچتا ہے تو بچہ گلے میں بازو ڈالتا ہے تو باپ کی ساری تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے۔ بچہ ضد کرتا ہے کہ ابو مجھے یہ کھلونا چاہیے، اُس وقت باپ بیمار ہے اُس کے پاس رقم اتنی ہی ہے کہ یا تو بیٹے کے لیے کھلونا خرید لے یا اپنی دوا لے تو اس وقت باپ اپنی بیماری کو چھوڑ دیتا ہے لیکن بیٹے کے لیے کھلونا خریدتا ہے کہ میرے بیٹے کی خواہش ہے۔ اس طرح کی بے شمار حقیقتیں ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

قرآن پاک کی سورۂ بنی اسرائیل میں والدین کے حقوق کے بارے میں ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ’’ اور آپ کے رب نے حکم دیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو، اور اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور اگر دونوں میں سے ایک زندہ ہو یا وہ دونوں زندہ ہوں اور وہ بڑھاپے میں پہنچ جائیں، تو انہیں اُف تک نہ کہو اور ان کو مت جھڑکو، اور ان سے اچھے طریقے سے بات کرنا، ان کے لیے شفقت کے پَر پھیلا دینا، اور اپنے رب سے یوں عرض کرنا کہ اے میرے رب میرے ماں باپ کے ساتھ اس طرح رحم کا معاملہ فرما، جس طرح انہوں نے مجھ پر بچپن میں رحم کیا۔‘‘

ان دو آیتوں میں جو حکم ربانی موجود ہے، اگر اُن پر غور و فکر کیا جائے اور ان آیتوں پر عمل کیا جائے تو یقین مانیے ہمارا گھروں میں جو آج کل بے سکونی و پریشانی اور لڑائی جھگڑے ہیں، سب ختم ہوسکتے ہیں۔

پہلی بات اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمائی کہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا، یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات خاصہ میں کسی مخلوق کو اُس کا شریک نہ سمجھنا، پریشانی کے عالم میں غیر خدا کو حاجت روا نہ مان بیٹھنا، اولاد کے حصول کے لیے اس کے سامنے سر جھکا کر زکریا علیہ السلام کی طرح اسی سے دعا کرنا۔

دوسری بات یہ فرمائی کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ حسن سلوک کیا ہے؟ حسن سلوک وہی ہے کہ جب بچپن میں تجھے بولنا نہیں آتا تھا، تُو غلاظت کے بعد اپنے جسم کو صاف اور کپڑوں کو بدل نہیں سکتا تھا تو والدین بغیر تنگ آئے تیرے کپڑے تبدیل کرتے تھے، تیرے جسم سے گندگی دھوتے تھے۔ اگر سردیوں کا موسم ہے تو تیرے لیے گرم پانی کا بندوبست کرتے تھے، تُو ایک بات دس بار پوچھتا تھا تو والدین بغیر تنگ آئے جواب دیتے تھے۔ اب جب وہ بوڑھے ہوچکے ہیں تو انہیں اسی طرح تمہارے حسن سلوک کی ضرورت ہے جس طرح تمہارے بچپن میں انہوں نے تمہارے ساتھ کیا تھا۔

تیسری بات حق تبارک و تعالیٰ نے یہ فرمائی کہ اگر اُن میں سے ایک یا دونوں زندہ ہوں اور عمر رسیدہ ہوجائیں تو ایسی حالت میں اُن کو ’’اف‘‘ تک نہ کہو، اور نہ ہی جھڑکو، اس مقام پر قابل غور بات یہ ہے کہ جب فر ما دیا کہ اف نہ کہو، تو جھڑکنا کیا معنی رکھتا ہے تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں کوئی کلمہ ’’اف‘‘سے کم درجے کا ہوتا تو حق جل مجدہ یہاں وہ فرماتے۔ ( تفسیر در منثور)

چوتھی بات یہ فرمائی کہ ان سے نرم لہجے میں بات کرنا اور ان کے لیے شفقت کے پَر پھیلا دو، نرم لہجے میں بات کا مقصد یہ ہے کہ اگر وہ ایک بات کئی بار پوچھیں تو جھنجھلا کر مت بولنا اور یہ نہ کہنا کہ اباجی ہزار بار تو بتا چکا ہوں۔ ایسا نہ کرنا بل کہ جس طرح انہوں نے تمہارے بچپن میں تمہارے ساتھ شفقت کا معاملہ کیا تھا، آج ان کی باری ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ شفقت سے بات کرو۔ اور فرمایا کہ ان کے لیے شفقت کے پَر پھیلا دو، اس کا معنی بھی یہی ہے کہ جس طرح بچے کے بچپن میں ماں باپ اپنی شفقت و رحمت کے پَر پھیلا دیتے ہیں، بچے کے بچپن میں ماں باپ اس کی انوکھی خواہشوں کی تکمیل میں لگ جاتے ہیں، اس کی شرارتوں سے بے اعتنائی برتتے ہیں، اس کے لیے سوائے محبت و شفقت کے اور کچھ نہیں ہوتا، آج ماں باپ بڑھاپے کے اس مقام پر ہیں کہ جہاں انہیں بھی اب اسی طرح کی شفقت و رحمت چاہیے۔

پانچویں بات یہ فرمائی کہ اُن کے لیے رب العالمین سے یوں دعا کرنا، اے میرے رب! میرے ماں باپ پر اُسی طرح رحم فرما، جس طرح انہوں نے بچپن میں میرے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا تھا۔ اس کے معنی یہ ہے کہ اگر ماں باپ کا دنیائے فانی سے انتقال ہوجائے تو ان کے لیے دعائے رحمت کرتے رہنا چاہیے۔ اور اس آیت میں بچپن کا تذکرہ کرنا دراصل بتانا ہے کہ بچپن میں جس طرح بچے اپنی بات کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں، اور اپنی کم عقلی کو عقل کل سمجھتے ہیں، بڑھاپے میں آکر ماں باپ کے بھی دنیاوی مشاغل سے تھکے ماندے مسافر کی طرح اعضائے رئیسہ جواب دے جاتے ہیں، عقل میں ضعف آجاتا ہے، اور ماں باپ بھی اپنے تجربات کی وجہ سے اپنی رائے کو حرف آخر سمجھتے ہیں، تو اب ضرورت ہے کہ جس طرح تمہارے بچپن میں ماں باپ نے تمہاری کم عقلی کی باتوں سے درگزر کیا اب تم بھی اُن کی رائے کو اہمیت دو اور ان کی تلخ باتوں سے درگزر کرو، بل کہ ان کے تجربات سے فائدہ بھی اٹھاؤ اور ان کی دل جوئی کے لیے ان کا کہا مانو، اسی میں تمہارے لیے دنیا و عقبیٰ کی کام یابی ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کون سا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وقت پر نماز ادا کرنا، اللہ کے ہاں پسند یدہ عمل ہے۔ میں نے پوچھا کہ اس کے بعد کون سا عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں پسند یدہ ہے؟ آ پ ﷺ نے فرمایا کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کرنا، اللہ تعالیٰ کے ہاں پسند یدہ ہے۔ ( البخاری و المسلم )

حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ نے پو چھا کہ یارسول اللہ ﷺ ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ دونوں تمہاری جنت یا جہنم ہیں۔ یعنی ان کی فرماں برداری کرکے اللہ کو راضی کرلو اور جنت کے مستحق ہوجاؤ یا ان کو ناراض کرکے اللہ کو ناراض کرلو اور جہنم کے مستحق ہوجاؤ۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ماں باپ کی رضا مندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی ماں باپ کی ناراضی میں ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)

قرآن کریم اور احادیث نبویؐ میں ماں باپ کے حقوق کی پاس داری کی تعلیم و ترغیب کی تاکید گئی ہے، اور ماں باپ کی فرماں برداری میں رضائے حق تعالیٰ پوشیدہ ہے اور ماں باپ کی نافرمانی میں حق تعالیٰ کی ناراضی مضمر ہے۔ یہی دین اسلام کی تعلیم ہے۔ ماں باپ کی فرماں برداری سے روزی میں برکت، عمر میں اضافہ جیسی بشارتیں موجود ہیں، جن کی موجودہ زمانے میں ہر ایک کو ضرورت ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔