فرمان رسول اکرمؐ ، موت کو کثرت سے یاد کیا کرو

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی  جمعـء 16 مارچ 2018
یہی دنیاوی، فانی اور وقتی زندگی‘ اخروی ابدی زندگی کی تیاری کے لیے پہلا اور آخری موقع ہے۔فوٹو : فائل

یہی دنیاوی، فانی اور وقتی زندگی‘ اخروی ابدی زندگی کی تیاری کے لیے پہلا اور آخری موقع ہے۔فوٹو : فائل

اللہ رب العزت نے ہر جان دار کے لیے موت کا وقت اور جگہ متعین کردی ہے اور موت ایسی حقیقت ہے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص خواہ وہ کافر یا فاجر حتٰی کہ دہریہ ہی کیوں نہ ہو، موت کو یقینی مانتا ہے اور اگر کوئی موت پر شک و شبہ بھی کرے تو اسے احمق شمار کیا جاتا ہے۔

کیوں کہ مادی طاقتیں اور مشرق سے مغرب تک قائم ساری حکومتیں موت کے سامنے عاجز و بے بس ہوجاتی ہیں۔ موت بندوں کو ہلاک کرنے والی، بچوں کو یتیم کرنے والی، عورتوں کو بیوہ بنانے والی، دنیاوی ظاہری سہاروں کو ختم کرنے والی، دلوں کو تھرانے والی، آنکھوں کو رلانے والی، بستیوں کو اجاڑنے والی، جماعتوں کو منتشر کرنے والی، لذتوں کو ختم کرنے والی، امیدوں پر پانی پھیرنے والی، ظالموں کو جہنم کی وادیوں میں جھلسانے والی اور متقیوں کو جنت کے بالاخانوں تک پہنچانے والی حقیقت ہے۔

موت نہ چھوٹوں پر شفقت کرتی ہے، نہ بڑوں کی تعظیم کرتی ہے، نہ دنیاوی ساہوکاروں سے ڈرتی ہے، نہ بادشاہوں سے ان کے دربار میں حاضری کی اجازت لیتی ہے۔ جب بھی حکم خداوندی ہوتا ہے تو تمام دنیاوی رکاوٹوں کو چیرتی پھاڑتی ہوئی مطلوب کو حاصل کرلیتی ہے۔ موت نہ نیک صالح لوگوں پر رحم کھاتی ہے اور نہ ظالموں کو بخشتی ہے۔

اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کو بھی موت اپنے گلے لگا لیتی ہے اور گھر بیٹھنے والوں کو بھی موت نہیں چھوڑتی۔ اخروی ابدی زندگی کو دنیاوی فانی زندگی پر ترجیح دینے والے بھی موت کی آغوش میں سوجاتے ہیں، اور دنیا کے دیوانوں کو بھی موت اپنا لقمہ بنالیتی ہے۔ موت آنے کے بعد آنکھ دیکھ نہیں سکتی، زبان بول نہیں سکتی، کان سُن نہیں سکتے، ہاتھ پاؤں کام نہیں کرسکتے۔

موت نام ہے روح کا بدن سے تعلق ختم ہونے کا اور انسان کا دارفانی سے داربقا کی طرف کوچ کرنے کا۔ ترقی یافتہ سائنس بھی روح کو سمجھنے سے قاصر ہے، حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح طور پر اعلان فرما دیا ہے، مفہوم : ’’ روح صرف اللہ کا حکم ہے۔‘‘

موت پر انسان کے اعمال کا رجسٹر بند کردیا جاتا ہے، اور موت پر توبہ کا دروازہ بند اور جزا و سزا کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کرتا ہے یہاں تک کہ اُس کا آخری وقت آجائے۔‘‘

ہم ہر روز، ہر گھنٹے، بل کہ ہر لمحے اپنی موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ سال، مہینے اور دن گزرنے پر ہم کہتے ہیں کہ ہماری عمر اتنی ہوگئی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایام ہماری زندگی سے کم ہوگئے۔ موت ایک مصیبت بھی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور وہیں تمہیں موت آجائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام کی متعدد آیات میں موت اور اس کی حقیقت کو بیان کیا ہے۔

فرمان الٰہی ہے، مفہوم: ’’ ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور تم سب کو (تمہارے اعمال کے) پورے پورے بدلے قیامت ہی کے دن ملیں گے۔ پھر جس کو دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنّت میں داخل کردیا گیا، وہ صحیح معنی میں کام یاب ہوگیا، اور یہ دنیاوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی کام یابی کا معیار ذکر کیا ہے کہ اس حال میں ہماری موت آئے کہ ہمارے لیے جہنم سے چھٹکارے اور دخولِ جنت کا فیصلہ ہوچکا ہو۔

’’ اس زمین میں جو کوئی ہے، فنا ہونے والا ہے۔ اور (صرف) تمہارے پروردگار کی جلال والی اور فضل و کرم والی ذات باقی رہے گی۔‘‘

’’ ہر چیز فنا ہونے والی ہے، سوائے اللہ کی ذات کے۔ حکومت اسی کی ہے، اور اُسی کی طرف تمہیں لوٹ کرجانا ہے۔‘‘

( اے پیغمبرؐ!) ’’ تم سے پہلے بھی ہمیشہ زندہ رہنا ہم نے کسی فرد بشر کے لیے طے نہیں کیا۔ چناں چہ اگر تمہارا انتقال ہوگیا تو کیا یہ لوگ ایسے ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں؟ ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اور ہم تمہیں آزمانے کے لیے بُری اور اچھی حالتوں میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہمارے ہی پاس لوٹ کر آؤ گے۔‘‘

’’ تم جہاں بھی ہوگے (ایک نہ ایک دن) موت تمہیں جا پکڑے گی۔ چاہے تم مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ رہ رہے ہو۔‘‘

(اے نبیؐ!) ’’ آپ کہہ دیجیے کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو، وہ تم سے آملنے والی ہے۔ یعنی وقت آنے پر موت تمہیں ضرور اچک لے گی۔‘‘

’’ چناں چہ جب اُن کی مقررہ میعاد آجاتی ہے تو وہ گھڑی بھر بھی اُس سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتے۔‘‘

’’ اور نہ کسی متنفس کو یہ پتا ہے کہ زمین کے کس حصے میں اُسے موت آئے گی۔‘‘

ان مذکورہ آیات سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کا مرنا یقینی ہے لیکن موت کا وقت اور جگہ سوائے اللہ کی ذات کے کسی بشر کو معلوم نہیں۔ چناں چہ بعض بچپن میں، تو بعض عنفوان شباب میں اور بعض ادھیڑ عمر میں، جب کہ باقی بڑھاپے میں داعی اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں۔ بعض صحت مند تن درست نوجوان سواری پر سوار ہوتے ہیں لیکن انہیں نہیں معلوم کہ وہ موت کی سواری پر سوار ہوچکے ہیں۔

یہی دنیاوی، فانی اور وقتی زندگی‘ اخروی ابدی زندگی کی تیاری کے لیے پہلا اور آخری موقع ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے، مفہوم: ’’ یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی پر موت آکھڑی ہوگی تو وہ کہے گا کہ اے میرے پروردگار! مجھے واپس بھیج دیجیے تاکہ جس دنیا کو میں چھوڑ آیا ہوں، اس میں جاکر نیک اعمال کروں۔ ہرگز نہیں، یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے، اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ ہے جب تک کہ وہ دوبارہ اٹھائے جائیں۔‘‘

لہٰذا ضروری ہے کہ ہم افسوس کرنے یا خون کے آنسو بہانے سے قبل‘ اس دنیاوی فانی زندگی میں ہی اپنے مولا کو راضی کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہماری روح ہمارے بدن سے اس حال میں جُدا ہو کہ ہمارا خالق و مالک و رازق ہم سے راضی ہو۔ آج ہم صرف فانی زندگی کے عارضی مقاصد کو سامنے رکھ کر دنیاوی زندگی گزارتے ہیں اور دنیاوی زندگی کے عیش و آرام اور وقتی عزت کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، لہذا آئیے دنیا کو دنیا کے پیدا کرنے والے کی ہی زبانی سمجھیں: ’’ اور یہ دنیاوی زندگی تو (جنّت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘ (سورۃ آل عمران) ’’ دنیاوی زندگی کا فائدہ آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، مگر بہت تھوڑا۔‘‘ (سورۃ التوبہ) ’’ کہہ دو کہ دنیا کا فائدہ تو تھوڑا سا ہے۔ اور جو شخص تقویٰ اختیار کرے اس کے لیے آخرت کہیں زیادہ بہتر ہے۔ اور تم پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔‘‘ (سورۃ النساء) ’’ اور یہ دنیاوی زندگی کھیل کود کے سوا کچھ بھی نہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ دارِ آخرت ہی اصل زندگی ہے، اگر یہ لوگ جانتے ہوتے۔‘‘ (سورہ العنکبوت)

’’ لوگوں کے لیے اُن چیزوں کی محبت خوش نما بنا دی گئی ہے جو اُن کی نفسانی خواہش کے مطابق ہوتی ہے، یعنی عورتیں، بچے، سونے چاندی کے لگے ہوئے ڈھیر، نشان لگائے ہوئے گھوڑے، چوپائے اور کھیتیاں یہ سب دنیاوی زندگی کا سامان ہیں۔‘‘ (سورۃ آل عمران)

اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم دنیاوی زندگی کو نظرانداز کرکے رہبانیت اختیار کرلیں، بل کہ مقصد یہ ہے کہ اللہ کے خوف کے ساتھ دنیاوی فانی زندگی گزاریں اور اخروی زندگی کی کام یابی کو ہر حال میں ترجیح دیں۔

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : ’’ پانچ امور سے قبل پانچ امور سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بڑھاپے سے قبل جوانی سے۔ مرنے سے قبل زندگی سے۔ مصروفیت سے قبل فراغت سے۔ غربت سے قبل مال سے۔ بیماری سے قبل صحت سے۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم: ’’ اور اے مومنو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو، تاکہ تم کام یاب ہوجاؤ۔‘‘ (سورۃ النور)

’’ اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، یعنی گناہ کر رکھے ہیں، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ یقینا وہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔‘‘ (سورہ الزمر )

قیامت کے دن کسی انسان کا قدم اللہ تعالیٰ کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتا، یہاں تک کہ وہ پانچ سوالات کا جواب نہ دیدے : ’’ زندگی کہاں گزاری؟ جوانی کہاں لگائی؟ مال کہاں سے کمایا ؟ یعنی حصول ِ مال کے اسباب حلال تھے یا حرام۔ مال کہاں خرچ کیا ؟ یعنی مال سے متعلق اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کیے یا نہیں۔ علم پر کتنا عمل کیا ؟ ‘‘

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ لذتوں کو ختم کرنے والی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔ ‘‘

موت کو یاد کرنے کے چند اسباب یعنی وہ اعمال جن سے موت یاد آتی ہے، یہ ہیں:وقتاً فوقتاً قبرستان جانا۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قبروں کی زیارت کیا کرو، اس سے تمہیں آخرت یاد رہے گی۔ مُردوں کو غسل دینا یا اُن کے غسل کے وقت حاضر رہنا۔ اگر موقع میسر ہو تو انتقال کرنے والے شخص کے آخری لمحات دیکھنا اور اُن کو کلمۂ شہادت کی تلقین کرنا۔ جنازے میں شرکت کرنا۔ بیماروں اور بوڑھوں سے ملاقات کرنا۔ آندھی، طوفان اور زلزلے کے وقت انسانوں کی کم زوری اور اللہ تعالیٰ کی طاقت و قوت کا اعتراف کرنا۔ پہلی امتوں کے واقعات پڑھنا۔

موت کو کثرت سے یاد کرنے والوں کو اللہ کی جانب سے مذکورہ اعمال کی توفیق ہوتی ہے: گناہوں سے توبہ نصیب ہوتی ہے۔ گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے۔ سخت دل نرم ہوجاتا ہے اور وقتاً فوقتاً آنکھوں سے آنسو بہہ جاتے ہیں۔ دل قناعت پسند بن جاتا ہے۔ عبادت میں نشاط پیدا ہوتا ہے۔ بہت ساری دشواریاں آسان ہوجاتی ہیں۔ لمبی امیدیں اور امنگیں کم ہوجاتی ہے۔ تواضع اور انکساری پیدا ہوتی ہے جس سے انسان دوسروں پر ظلم کرنے اور گھمنڈ کرنے سے محفوظ رہتا ہے۔ اخروی زندگی یاد رہتی ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو مرنے سے قبل اس کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے، اور ہمیں دونوں جہاں کی کام یابی و کام رانی سے نوازے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔