قوموں کی عزت تم سے اور تم عزت سے محروم!

سید بابر علی  اتوار 18 مارچ 2018
پاکستانی عورت کے کرب ناک حالات صنفی امتیاز سے تشدد تکملک میں خواتین کے مسائل کی مجموعی صورت حال کا مختصر جائزہ۔ فوٹو: فائل

پاکستانی عورت کے کرب ناک حالات صنفی امتیاز سے تشدد تکملک میں خواتین کے مسائل کی مجموعی صورت حال کا مختصر جائزہ۔ فوٹو: فائل

خواتین معاشرے کی معاشی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن مردوں کے اس معاشرے میں خواتین کو ایک جنس کے طور پر ہی دیکھا جاتا ہے۔

گھریلو معاملات ہوں یا پیشہ ورانہ زندگی، کہیں انہیں جنس کی بنیاد پر امتیاز کا سامنا ہوتا ہے تو کہیں ان کی اچھی شکل و صورت وبال جان بن جاتی ہے، کئی اداروں میں خواتین کی ترقی کو ان کی خوب صورتی اور جسمانی خدوخال سے جوڑا جاتا ہے۔

خواتین سے بدسلوکی، تعلیم، صحت جیسے بنیادی حقوق سے محرومی صرف دیہی خواتین کا مسئلہ ہی نہیں ہے بل کہ اس کا شکار اعلٰی تعلیم یافتہ گھرانوں کی خواتین بھی ہوتی ہیں، تو کھیتوں میں کام کرنے والی پس ماندہ طبقے کی خواتین بھی، کہیں بنت حوا کو ملازمت کی فراہمی اور ترقی دینے کے لیے عزت کا سودا کرنے پر زبانی، جسمانی یا ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دوسری جانب نجی اور سرکاری درس گاہوں میں ’روحانی باپ‘ کہلائے جانے والے شیطان صفت استاد چند نمبروں، اچھے گریڈ کا لالچ دے کر طالبات کو ہراساں اور ان کی عصمت تار تار کرتے ہیں۔

اس جنس زدہ معاشرے میں بے شمار خواتین نہ ہی گھر میں محفوظ ہیں، نہ ہی باہر، گھر میں انہیں اپنے سگے رشتے داروں کی جسمانی و ذہنی بدسلوکی کا نشانہ بننا پڑتا ہے تو گھر سے باہر قدم نکالتے ہی یہ معاشرہ انہیں مال غنیمت سمجھ کر کبھی گندی نظروں سے، کبھی بیہودہ جملوں سے یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ معاشرہ مردوں کا ہے، اور ہماری مردانگی بس آوازیں کسنے، غلیظ نظروں سے جسم کے اندر جھانکنے، پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کی نشستوں پر حق جتانے تک محدود ہے۔ سب سے حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ دوسرے کی ماں، بہن ، بیٹی کو ہراساں کرنے والا یہی مرد غیرت کے نام پر آگ بگولہ ہوجا تا ہے، اپنے سگے خون کو ہی بہادینے میں پس و پیش نہیں کرتا۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ چل رہی ہیں، زندگی کے ہر شعبے میں ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد میں نہ صرف اضافہ ہو رہا ہے بل کہ معاشرے کی ترقی میں ان کے غیررسمی کردار کو تسلیم کیے جانے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ خواتین عام طور پر گھر میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں اور ان کا نوکری کرنے کا فیصلہ خواہش سے زیادہ ضرورت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ گھر اور ملازمت کی دوہری ذمے داریوں کا بوجھ سنبھالنے کے سا تھ ساتھ انہیں روزانہ کی بنیاد پر صنفی تعصب اور امتیاز کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں گذشتہ چند سالوں میں خواتین کے حقوق کے لیے کافی آواز اٹھائی جا رہی ہے، لیکن اس کے باوجود خواتین کے ساتھ ان کی معاشی زندگی میں بھی پرتشدد رویہ روا رکھا جا رہا ہے۔ ایک غیرسرکاری تنظیم کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستانی خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم و بیش 40 فی صد کم اجرت دی جاتی ہے جب کہ گارمنٹ فیکٹریوں، چھوٹے کارخانوں میں کام کرنے والی خواتین سے مردوں کے مقابلے میں زیادہ کام بھی لیا جا رہا ہے۔

ملازمت پیشہ خواتین میں سے بیشتر کو دفتری اوقات میں اپنے مرد افسران اور ساتھ کام کرنے والے مردوں کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، جب کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کے لیے مختص نشستوں پر اکثر وبیشتر مردحضرات کا قبضہ خواتین کے سفر کو مزید اذیت ناک بنا دیتا ہے۔ تاہم ان سب مسائل کے باوجود معاشرے کے مختلف شعبہ جات، اسپتال، اخبارات، نیوز چینلز، بینکوں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، لیکن حکومتی سطح پر خواتین کے لیے بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد اور انہیں مزید بہتر بنانے کی بہت گنجائش ہے۔

جہاں تک بات ہے عورتوں کے حقوق اور عورتوں کی حالتِ زار کی تو دونوں میں بہت نمایاں فرق دیکھنے میں آتا ہے۔ عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والوں کے ہاں عورتوں کی حالتِ زار کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں جہاں عورت کے ملازمت کرنے کے رجحان کی نفی کی جاتی ہے۔ ان حالات میں عورتوں کا گھر سے ملازمت کے لیے نکلنا اچھا تجربہ ثابت نہیں ہوتا۔ کنواری ہونے کی صورت میں سب سے پہلے اسے باپ، بھائی کی مخالفت اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں شوہر کے منفی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عورتیں اپنی نجی زندگی کا تقریباً تمام حصہ منقطع کر دیتی ہیں۔ سماجی زندگی کے احیا کا سوال کرنا بھی گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ عورتیں کس کس مجبوری کے تحت ملازمت کر رہی ہیں، مرد حضرات کے لیے اس کا اندازہ بھی کرنا مشکل ہے۔مردوں کی اکثریت خواتین کو محکوم سمجھتی ہے۔ عمومی طور پر ایک مرد کے نزدیک اس کی بہن، بیوی یا بیٹی کپڑے پہنے تو گھر کے مرد کی پسند کے، فیشن کرے تو اس کی پسند کے مطابق، یہاں تک کہ اس کی سکھی سہیلیاں بھی وہ ہی ہونی چاہییں جن کی اجازت ان کے باپ، بھائی یا شوہر دیں۔

ہم یہ بات یکسر بھول جاتے ہیں کہ عورت کو بھی اشرف المخلوقات کا رتبہ حاصل ہے، اللہ نے اسے بھی سمجھ بوجھ، جذبات اور احساسات عطا کیے ہیں۔ وہ بھی انسان ہے، اس کی اپنی بھی کوئی ہستی ہے اور اسے بھی مردوں کی طرح اپنی زندگی گزارنے کا بھرپور حق حاصل ہے ۔

دیہی اور قبائلی علاقوں میں تو خواتین کو جانوروں سے بدتر سمجھا جاتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل، خودسوزی یا خودکشی، تیزاب پھینکنے اور جلا دینے کے واقعات کی تعداد رپورٹ کی گئی تعداد سے کہیں زیادہ ہے، کیوں کہ زیادہ تر لوگ بدنامی کے خوف سے ان واقعات کی رپورٹ درج نہیں کرواتے۔ قبائلی علاقوں میں مذہب اور مردانگی کے نام پر قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور ان معاملات میں ملوث افراد کو محض اس لیے چھوٹ مل جاتی ہے کیوںکہ ان کی پشت پناہی قبائل اور جرگے کرتے ہیں جہاں عورت کو بالکل ہی کمتر اور حقیر سمجھا جاتا ہے۔ عورتوں پر ہونے والے تشدد اور بے حرمتی کے واقعات کسی ایک مخصوص خطے یا علاقے تک محدود نہیں۔ حکومت نے ملک میں خواتین کو ہر شعبے میں مساوی حقوق دلانے کے لیے اسمبلیوں میں 33 فی صد نمائندگی دی ہے اس کے باوجود ان کے استیصال کا جاری و ساری ہے۔

سندھ میں عورتوں کو کاروکاری کے نام پر اس لیے قتل کردیا جاتا ہے کہ کہیں ان کو جائیداد میں حصہ نہ دینا پڑ جائے اسی لیے یا تو ان کی شادیاں قرآن پاک سے کرادی جاتی ہیں یا غیرت کے نام پر قتل کرکے دنیا کے سامنے خود کو مظلوم ظاہر کر کے اس کا حصہ ہڑپ کرلیا جاتا ہے۔ گھروں میں ہونے والے اس تشدد کے باعث کئی خواتین ذہنی طور پر بیمار ہوجاتی ہیں لیکن ایسے واقعات کو دنیا کے سامنے نہیں آنے دیا جاتا، اس لیے ان کے بارے میں اب تک درست اعداد و شمار نہیں مل سکے ہیں۔

چند سال قبل جامعہ کراچی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر 5 میں سے 4 خواتین کو دوران ملازمت جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ ویسے تو ہمارے معاشرے میں ہر طبقے کی عورت ہی جسمانی یا ذہنی تشدد کا شکار ہے لیکن ان میں کم آمدنی اور کم تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کی شرح زیادہ ہے۔ آج عورت کی چیخ و پکار اور مظلومیت کی داستانیں عالمی سطح پر سنی جارہی ہیں۔ دنیا بھر میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تدارک کے لیے عالمی برادری نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ خواتین پرتشدد کے خاتمے کو ممکن بنا کر صنف نازک کے وجود کو بکھرنے سے بچایا جاسکتا ہے، لیکن ہم اب تک سوئے ہوئے ہیں۔

بعض مسائل ہمیں چبھتے ہیں، تکلیف دیتے ہیں، اذیت پہنچاتے ہیں اور حساس دماغوں کو جب یہ اذیت برداشت نہیں ہوتی تو اسے بانٹنے کے لیے قلم اٹھالیتے ہیں، ہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس درد سے واقف ہی نہیں اس کے باوجود وہ قلم سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی تحریریں دلوں پر اثرانداز نہیں ہوا کرتیں۔ عورت بحیثیت مجموعی انسانیت کا نصف اور معاشرے کا وہ ناگزیر عنصر ہے جس کی گود قوموں کی پرورش کرتی ہے اور نسلیں اس کی آغوش میں پھلتی، پھولتی اور پروان چڑھتی ہیں۔ حیات انسانی کا قیام و استحکام اور کائنات عالم کی رعنائی و زیبائی اسی کے وجود سے ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ۔ اگر عورت احساس کم تری، خوف اور ذلت کا شکار ہو تو جو نسلیں وہ جنم دے گی وہ بھی خودداری، جرأت اور عزت نفس سے محروم ہوں گی۔

ہر فرد کی ضروریات پورے معاشرے میں پھیلی ہوتی ہیں ان متنوع ضروریات کی تکمیل کی خاطر اسے تمام معاشرتی اداروں سے وابستہ ہونا پڑتا ہے۔ یہی حال عورت کا ہے کہ بنیادی طور پر عائلی زندگی کا مرکز و محور ہونے کے باوجود اسے دیگر معاشرتی و سماجی، اقتصادی و معاشی اور سیاسی و مذہبی شعبوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے حقوق نسواں کو دو حصوں عائلی اور اجتماعی میں تقسیم کیا گیا ہے۔ عائلی اور اجتماعی زندگی میں عورت چار حیثیتوں سے گزرتی ہے جس میں پہلے بیٹی، بہن اور پھر اسے بیوی اور ماں کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔

اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے پاکستان میں یہ صنف نازک اپنے بنیادی فرائض کی انجام دہی کے باوجود اپنے حقوق کے معاملے میں ہمیشہ نظرانداز ہوتی رہی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں عورت کی مظلومیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حقوق کی ادائی کے معاملے میں اسے دو حصوں شہری اور دیہاتی عورت میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ شہری اور دیہی عورت کی یہ تقسیم بھی غیرمنصفانہ اور غیرحقیقی۔ شہر کی تعلیم یافتہ عورت کے مقابلے میں دیہات میں بسنے والی عورت کو قانونی، معاشرتی اور معاشی سہولیات اور ضروریات میسر نہیں ہیں۔ اکثر دیہات اور قبائلی علاقوں میں بسنے والی عورت پر آج بھی دور جاہلیت کے رسم و رواج کا اطلاق کیا جاتا ہے۔

ونّی جیسی قبیح رسم کے علاوہ نکاح کے معاملے میں جوانی اور بڑھاپے کی کوئی تمیز روا نہیں رکھی جاتی۔ اجتماعی آبروریزی جیسے واقعات آئے دن اخبارات کی زینت بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ دیہاتی عورت کے مسائل میں سے معاشی مسئلہ سب سے اہم ہے، دیہات میں مردوں کے شانہ بشانہ کڑی اور تپتی دھوپ میں کام کرنے والی عورت کو آرام و آسائش اور اس کے بچوں کو تعلیم اور علاج معالجے کی سہولیات بالکل میسر نہیں۔

اکثر دیہاتی خاندان عورت کی تعلیم کے ہی مخالف ہیں اور رہی سہی کسر حکومت کی نام نہاد تعلیمی پالیسی اور عدم توجہ پورا کر دیتی ہے جس کی وجہ سے دیہات کی اکثر خواتین تعلیم و تربیت کے زیور سے محروم رہتی ہیں اور ان کی تقدیر جاگیردار اور وڈیرے کے رحم و کرم پر گروی رکھ دی جاتی ہے۔ دیہی خواتین سمیت معاشرے کے تمام مظلوم طبقات کے حقوق، کفالت اور سہولیات کی فراوانی حکومت کا اولین فرض ہے۔

حکومت وقت اگر پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے اور عوام کی خوشحالی اور غربت دور کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا چاہتی ہے تو ملک کے میں موجود جہالت و ناخواندگی، ظلم و ناانصافی اور بنیادی حقوق کی پامالی کا جلدازجلد خاتمہ کرنا ہوگا اور اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کر کے اسے امانت اور دیانت داری کے ساتھ نافذ العمل کرنا ہوگا۔

منہگائی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنا ہوگا، سستے اور فوری انصاف کو آسان بنانا ہوگا، عورتوں کے تمام قانونی حقوق مثلاً زمینوں اور جائیدادوں میں وراثت کا مکمل حق، مہر کی رقم کی مکمل ادائی، عورتوں پر جبر اور مار پیٹ جیسے جاہلانہ عمل کے خاتمے، بچیوں کی مرضی کے خلاف جبری شادیاں وغیرہ جیسے واقعات کی فوری روک تھام کو یقینی بنانا ہوگا، تاکہ خواتین کے استیصال کی تمام شکلوں کا خاتمہ اور اس راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے پاکستان کا اصل وقار بحال کرکے اسے ترقی کی راہ پر گام زن کر سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔