کندھ کوٹ NA-209 ،NA-210: پیپلز پارٹی اور فنکشنل لیگ میں دلچسپ مقابلوں کی توقع

راجا گوپی چند  جمعـء 5 اپريل 2013
این اے 209 پر شبیر علی خان بجارانی کے مقابلے میں فنکشنل لیگ کی جانب سے میر حسن خان کھوسو میدان میں ہیں۔    فوٹو: فائل

این اے 209 پر شبیر علی خان بجارانی کے مقابلے میں فنکشنل لیگ کی جانب سے میر حسن خان کھوسو میدان میں ہیں۔ فوٹو: فائل

عام انتخابات قریب آتے ہی ضلع کندھکوٹ میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئیں۔

2 قومی اور 3 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر سابق امیدواروں کا مقابلہ نئے امیدواروں سے بھی ہوگا، پاکستان پیپلزپارٹی نے این اے 210 پر سابق ایم این اے میر گل محمد خان جکھرانی، این اے 209 پر سابق ضلع ناظم میر شبیر علی خان بجارانی، میر عابد خان سندرانی، پی ایس 18 پر میر احسان خان مزاری کو پارٹی ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی پی پی نے اس الیکشن میں سابق ایم پی اے میر غالب خان ڈومکی اور سردار میر محبوب علی خان بجارانی کو سیاست سے ہی آؤٹ کر دیا ہے، ہو سکتا ہے کہ میر غالب خان ڈومکی پی ایس 18 سے آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں آئیں، سردار سلیم جان مزاری بھی خود این اے 210 سے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند تھے۔

انہیں بھی پی پی پی نے پارٹی ٹکٹ نہیں دیا، جنہیں پارٹی ٹکٹ نہیں ملا انہوں نے بھی آزاد امیدوار کے طور پر اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں، ضلع بھر کی تمام نشستوں پر دلچسپ مقابلہ متوقع ہے۔ این اے 210 پر گل محمد جکھرانی سے فنکشنل لیگ کی جانب سے پیر آف بھرچونڈی شریف میاں عبدالخالق بھرچونڈی سے ہوگا، اس حلقے میں جماعت اسلامی کی جانب سے حافظ نصراللہ چنہ، سنی تحریک کی جانب سے سردار اول جان مزاری، قومی عوامی تحریک کی جانب سے الٰہی بخش ملک سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں کی جانب سے بھی امیدوار میدان میں آئیں گے۔

این اے 209 پر شبیر علی خان بجارانی کے مقابلے میں فنکشنل لیگ کی جانب سے میر حسن خان کھوسو میدان میں ہیں، دونوں امیدواروں میں دنگل ہونے کا امکان ہے کیونکہ حلقہ این اے 209 ٹھل، کندھکوٹ پر مشتمل ہے اور اس میں قبائلی اثر زیادہ ہے، اس سے دونوں امیدواروں کو اپنی اپنی برادریوں اور اتحادیوں کے ووٹ کی ضرورت ہے، اس حلقے میں سابقہ دور حکومت میں بھی شہری علاقوں میں ترقیاتی کام نہ ہونے اور عوامی مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے شہری ووٹرز کی الیکشن اور امیدواروں میں دلچسپی ہی نظر نہیں آرہی ہے، اس کے علاوہ اس حلقے پر مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدوار بھی اپنی قسمت آزمائیں گے۔

پی ایس 16 تنگوانی کی نشست پر 2 مرتبہ سردار میر محبوب علی خان بجارانی کامیاب ہوئے تھے، اب اس حلقے پر میر محبوب علی خان بجارانی کو ٹکٹ نہیں دیا گیا، اس نشست پر سابق وفاقی وزیر میر ہزار خان بجارانی امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں، ان کا مقابلہ جے یو آئی (ف) کے میر جہانگیر خان بنگلانی، ن لیگ کے سردار علی اکبر بھنگوار سے ہوگا، اس حلقے پر میر ہزار خان مضبوط ترین امیدوار ہیں کیونکہ اس حلقے کے ووٹرز کی اکثریت ان کی سرداری میں آتی ہے، اس لیے عوام جو سرداری میں آتے ہیں وہ اپنے ہی سردار کو ووٹ دیں گے۔

اس کے علاوہ اس نشست پر مجلس وحدت مسلمین کے میر فائق علی خان جکھرانی، عوامی تحریک کے کلیم جکھرانی سمیت دیگر تنظیموں کے امیدوار بھی سامنے آئیں گے، پی ایس 17 پر دو مرتبہ الیکشن جیتنے والے چیف سردار میر عابد خان سندرانی کے مقابلے میں روایتی حریف راجا غوث بخش بجارانی جے یو آئی (ف) کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، اس حلقے پر بھی جماعت اسلامی، سندھ یونائیٹڈ پارٹی، فنکشنل لیگ، سنی تحریک، عوامی تحریک سمیت آزاد امیدوار بھی میدان میں آئیں گے۔ پی ایس 18 پر میر احسان الرحمن مزاری کے مقابلے میں میر غالب خان ڈومکی کا امکان ہے، میاں عبدالمالک عرف میاں مجن سائیں بھی امیدوار ہیں، تمام حلقوں میں الیکشن کے حوالے سے صورتحال انتہائی دلچسپ ہوگئی ہے۔

امیدواروں نے اپنے شیڈول بنانے کا کام بھی شروع کر دیا ہے، اس سلسلے میں شہریوں کا کہنا ہے کہ جو امیدوار الیکشن میں وعدے کرتے ہیں ان کو کھی پورا نہیں کیا جاتا ہے، ہمارا تمام سیاسی رہنماؤں اور امیدواروں سے مطالبہ ہے کہ وہ عوام کو صحت، بجلی، تعلیم سمیت بنیادی سہولیات فراہم کریں، شہر میں بلاتفریق ترقیاتی کام کرائے جائیں، بنیادی سہولیات فراہم کرنے والے امیدواروں کو شہری ووٹ دیں گے، اگر یہ کام سابقہ دور حکومت میں عوامی منتخب نمائندے کراتے تو آج انہیں ورک کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی اور الیکشن میں صرف اپنے کاموں کی وجہ سے مقبول اور کامیاب ہوتے، اس لیے اب بھی وقت ہے کہ الیکشن لڑنے اور جیتنے کے بعد عوامی خدمت کی جائے جو منتخب نمائندوں کا فرض بھی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔