ملکی معیشت کا تنزل

ایڈیٹوریل  ہفتہ 6 اپريل 2013
پاکستان کی حالیہ اقتصادی زبوں حالی کی وجوہ تو دیکھنے والوں کو نظر آتی ہیں مگر اس صورتحال کی اصلاح کے لیے مثبت حکومتی اقدامات کے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔  فوٹو: فائل

پاکستان کی حالیہ اقتصادی زبوں حالی کی وجوہ تو دیکھنے والوں کو نظر آتی ہیں مگر اس صورتحال کی اصلاح کے لیے مثبت حکومتی اقدامات کے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔ فوٹو: فائل

اقوام متحدہ کے ادارے یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) نے عالمی معیشت کے بارے میں جاری کردہ اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان دنیا کے کم ترقی پذیر ممالک میں ایک سو چھیالیسویں نمبر پر ہے جو بنگلہ دیش، انگولا اور میانمار (برما)  جیسے کم ترقی یافتہ ممالک سے بھی نیچے یا پیچھے  ہے۔

دوسری طرف چین‘ برازیل اور بھارت ابھرتی ہوئی معیشتوں کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہیں جس سے باور کیا جا رہا ہے کہ اس دہائی کے اختتام تک متذکرہ ممالک‘ جن میں سے دو کا تعلق ہمارے خطے سے ہے جب کہ تیسرا لاطینی امریکا کا ملک ہے‘ اپنی مجموعی ترقی میں کوئی بعید نہیں کہ امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی کی مجموعی ترقی سے بھی آگے نکل جائیں۔ یو این ڈی پی کے پاکستان کے لیے کنٹری ڈائریکٹر کا کہنا ہے ابھرتی ہوئی معیشتیں اگر تیز رفتاری سے ترقی کی منازل طے کرنا چاہتی ہیں تو انھیں دو طرفہ تجارت‘ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری اور جدید ٹیکنالوجی میں شراکت داری کا بھرپور طریقے سے استعمال کرنا ہو گا۔

کنٹری ڈائریکٹر نے مزید وضاحت کی کہ  1990ء سے 2012ء کے دوران دنیا کے چالیس سے زاید ممالک نے اندازے کے مطابق ترقی کی لیکن افسوس کہ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل نہیں۔ یہ تو بین الاقوامی تناظر میں پاکستان کی اقتصادی صورتحال کا ایک  جائزہ تھا اور اس سے قطع نظر اگر ملک کی داخلی صورتحال پر ایک سرسری نگاہ ڈالی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ معیشت کو معمول کے مطابق رواں دواں رکھنے کے جو بنیادی عوامل ہیں یعنی سب سے پہلے امن و امان کی صورتحال اور قانون کا یکساں نفاذ اور اس کے بعد توانائی کی طلب کے مطابق بلا تعطل فراہمی۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے وطن عزیز کی حالت خاصی دگرگوں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاروں کی آمد کے بجائے الٹا مقامی سرمایہ دار اپنے اثاثے دیگر ممالک میں منتقل کر رہے ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ بہت سے کارخانے دار بجلی اور گیس کی مسلسل قلت سے تنگ آ کر اپنی قیمتی مشینری تک اکھاڑ کر بیرون ملک لے جا رہے ہیں اور اس حوالے سے سب سے زیادہ ترجیح بنگلہ دیش کو دی جا رہی ہے جو  ایک زمانے میں پاکستان کا حصہ تھا اور مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔ تاہم متحدہ پاکستان میں جس وفاقی یونٹ کو سب سے پہلے نا انصافی کی شکایت ہوئی وہ مشرقی پاکستان ہی تھا جسے مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ ملکی معیشت پر بوجھ قرار دے کر خود ہی اس کی علیحدگی کی راہ ہموار کر رہی تھی لیکن علیحدہ ہونے کے بعد اس کی آزادانہ کارکردگی ہماری نسبت نمایاں طور پر بہتر رہی اور عالمی منڈی میں اسے ہم سے زیادہ اعتماد اور وقار حاصل ہوگیا۔

پاکستان کی حالیہ اقتصادی زبوں حالی کی وجوہ تو دیکھنے والوں کو نظر آتی ہیں مگر اس صورتحال کی اصلاح کے لیے مثبت حکومتی اقدامات کے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔ یہ خکومت کا کام ہے کہ وہ انویسٹمنٹ فرینڈلی یعنی سرمایہ کاری دوست پالیسیاں بنائے اور اپنے دفتری نظام میں سرخ فیتے کا خاتمہ کرے تاکہ سرمایہ کاروں کو دفتری پیچیدگیوں سے نجات ملے اور وہ آسانی سے اپنا کاروبار کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے بھی مربوط پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ پاکستان اس وقت دہشت گردی کا شکار ہے۔

یہ مسئلہ روٹین کے انتظامی اقدامات سے حل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے حکومت کو مضبوط ارادے کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔ پاکستان کے سامنے ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں خانہ جنگی کا شکار ملکوں میں اپنے حالات پر قابو پایا اور ملکی معیشت کو بہتر کیا۔ اس معاملے میں سری لنکا کی مثال سب کے سامنے ہے۔ اس ملک نے تامل ٹائیگرز کی جدوجہد پر پوری طرح قابو پایا۔ایسا اس لیے ہوا کہ سری لنکا کی حکومت دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے پوری طرح یکسو ہو گئی تھی۔

کسی سیاسی گروپ میں اس حوالے سے کوئی اختلاف نہیں تھا۔ پاکستان کے مقابلے میں سری لنکا کم وسائل والا ملک ہے۔ اگر وہ ایسا کر سکتا ہے تو پاکستان بھی ایسا کر سکتا ہے۔ ضرورت صرف عزم کی ہے۔ پاکستان کی حکومت اگر امن و امان قائم کر لیتی ہے اور سرمایہ کار دوست پالیسی نافذ کر دیتی ہے تو پاکستان اور کچھ نہیں تو معاشی ترقی کے عمل میں کم ازکم ترقی پذیر ممالک کے ہم پلہ تو ہو سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔