’’پنش اے مسلم ڈے‘‘ اور انسانی حقوق کے علمبردار

عنایت کابلگرامی  اتوار 18 مارچ 2018
پنش اے مسلم ڈے کے لیٹرز کو دیکھ کر برطانیہ میں موجود مسلم کمیونٹی میں شدید خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ فوٹو:انٹرنیٹ

پنش اے مسلم ڈے کے لیٹرز کو دیکھ کر برطانیہ میں موجود مسلم کمیونٹی میں شدید خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ فوٹو:انٹرنیٹ

گزشتہ روز گوگل پر سرچنگ کے دوران ایک انگریزی رپورٹ پر نظر پڑی جس کو دیکھ کر میں کچھ دیر کے لیے ساکن ہوگیا۔ ہونا بھی تھا، کیوں کہ وہ خبر ہی ایسی تھی۔ انگلش میں کچھ یوں لکھا ہوا تھا، (panish a muslim day, 3rd april 2018) یعنی جس طرح ماؤں کا عالمی دن، ( مدرز ڈے) مزدوروں کا عالمی دن (لیبر ڈے) یا خواتین کا دن ( ویمن ڈے) منایا جاتا ہے، اسی طرح برطانیہ میں مسلمانوں کو سزا دینے کا دن ( پنش اے مسلم ڈے) تین اپریل کو منایا جائے گا۔

برطانیہ کے مختلف شہروں میں نامعلوم افراد نے کئی گھروں، دفاتر اور دکانوں میں ایک خط پھینکا جس میں عیسائیوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ تین اپریل کو مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام کا حصہ بنیں۔ خط میں ہر قسم کے نفرت انگیز جرائم کے ارتکاب، نسل پرستی اور تعصب و نفرت پر پوائنٹس دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ خط کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے:

3 اپریل کو مسلمانوں کو سزا دینے کا دن منانے کا اعلان۔

مسلمان کو گالی دینے پر 10 پوائنٹس، مسلمان خاتون پر ہاتھ اٹھانے یا نقاب نوچنے پر 25 پوائنٹس، چہرے پر تیزاب پھینکنے پر 50 پوائنٹس، کسی مسلمان کو مارنے یا شدید زخمی کرنے کے 100 یا 500 پوائنٹس، مسجد جلانے یا بم پھینکنے پر 1000 پوائنٹس۔ ان سے بڑھ کر تین اپریل والے دن خانہ کعبہ کو (نعوذباللہ) نقصان پہنچانے پر 2500 پوائنٹس دیے جائیں گے۔ کون حاصل کرسکتا ہے یہ پوائنٹس؟؟؟

آخر میں مزید معلومات اور رابطہ کرنے کرنے کے لیے ایڈریس اور بھیجنے والے ادارے کا نام بھی درج کیا گیا ہے۔ وہ ایڈرس یہ ہے۔ HM Courts & Tribunals Service, GOV.UK 102 patty france landan

پنش اے مسلم ڈے کے لیٹرز کو دیکھ کر برطانیہ میں موجود مسلم کمیونٹی میں شدید خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ برطانیہ میں مقیم بہت سے مسلمانوں نے مختلف پولیس اسٹیشنز میں رپورٹ بھی درج کرائی مگر وہاں کی پولیس کارروائی کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لے رہی۔ ایک طرف مسلمانوں میں خوف و ہراس بڑھتا جارہا ہے، تو دوسری طرف انسانی حقوق کے علمبردار، چاہے وہ مغربی ہوں یا مشرقی، سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

خدا نخواستہ اگر اس قسم کا کوئی پیغام کسی اسلامی ملک میں یا کسی مسلمان انتہا پسند گروپ کی جانب سے ہوتا تو کیا انسانی حقوق کے علمبردار یوں ہی خاموش رہتے؟ کیا مغربی ممالک کے لوگ یوں ہی اپنے لبوں کو سیے تماشہ دیکھ رہے ہوتے؟

خونِ مسلم کی ارزانی کا انعامی کوپن کوئی پہلی مرتبہ سامنے نہیں آیا، اس سے قبل بھی اس طرح ہوتا رہا ہے۔ برما میں مسلمان مردوں کو ایک درخت کے ساتھ باندھ کر نشانہ بازی کی مشقیں کی جاتی ہیں، کہ آنکھ پر گولی مارنے پر یہ انعام، ناک پر فلاں انعام (اللہ اکبر)، مگر اب کی بار یہ کھل کر سامنے آئے ہیں۔ ہم لوگ خبروں، نیٹ اور اخبارات میں روزانہ یہ دیکھتے ہیں کہ آج جرمنی میں مسجد کو شہید کیا گیا، آج فرانس میں ایک مسلمان لڑکی کو چاقوؤں کے وار سے شہید کردیا گیا، وجہ اسکارف اوڑھنا تھا۔ کبھی آسٹریا میں مسلمان خواتین پر حجاب کی پابندی، تو کبھی کسی ملک میں نماز و اذان پر پابندی، حتیٰ کہ مسلمانوں پر یورپین زمین تنگ کرنے کےلیے تمام حربے استعمال کیے جارہے ہیں، موجودہ مسلم پنش ڈے بھی اسی کا تسلسل لگ رہا ہے۔

مگر افسوس صد افسوس، کہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں موجود نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار ایسے واقعات پر خاموش تھے اور ہیں۔ اگر پاکستان یا کسی بھی اسلامی ملک میں اس قسم کا کوئی واقعہ ہوجائے یا کسی تنظیم کی جانب سے ایسا کوئی خط جاری ہوجائے، مثلاً حال ہی میں پاکستان کے علاقے مردان کی حجام برادری کی نمائندہ تنظیم نے داڑھی کی ڈیزائن پر پابندی عائد کی ہے، جس پر نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ مگر مسلم اے پنش ڈے والے معاملے میں ان کی خاموشی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ یہ انسانیت کے نہیں، صرف اور صرف مغربیت کے ہمنوا ہیں۔ اس کے ثبوت کے طور پر انگلش فٹبالر رونالڈو کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔

کچھ روز قبل یورپین فٹبال اسٹار کھلاڑی رونالڈو نے پیپسی کمپنی کے کروڑوں روپے کے اشتہار میں کام کرنے سے انکار کیا تھا، وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ میں ایسی کمپنی کی تشہیری مہم کا حصہ ہر گز نہیں بن سکتا جو کمپنی اسرائیلی فوج کو بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کے لیے امداد فراہم کرتی ہو۔ (فٹبالر نے کچھ مزید باتیں بھی کیں) لیکن اگر یہی بات پاکستان کا کوئی مولوی یا دینی رجحان رکھنے والا شخص کہے تو یہی موم بتی مافیا جو حقوق انسانیت کے علمبردار بنے ہوئے ہیں، اس مولوی یا مذہبی نظریہ رکھنے والے شخص کو تنگ اور انتہاپسند کہیں گے۔ مگر ان میں سے کسی نے بھی رونالڈو کے بیان پر ردِعمل ظاہر نہیں کیا ’’کیونکہ رونالڈو ایک یورپین و مغربی شخص ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت نصیب کرے۔ (آمین)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔