- پولر آئس کا پگھلاؤ زمین کی گردش، وقت کی رفتار سست کرنے کا باعث بن رہا ہے، تحقیق
- سندھ میں کتوں کے کاٹنے کی شکایت کیلئے ہیلپ لائن 1093 بحال
- کراچی: ڈکیتی کا جن قابو کرنے کیلیے پولیس کا ایکشن، دو ڈاکو ہلاک اور پانچ زخمی
- کرپٹو کے ارب پتی ‘پوسٹربوائے’ کو صارفین سے 8 ارب ڈالر ہتھیانے پر 25 سال قید
- گٹر میں گرنے والے بچے کی والدہ کا واٹر بورڈ پر 6 کروڑ ہرجانے کا دعویٰ
- کرپٹو کرنسی فراڈ اسکینڈل میں سام بینک مین فرائڈ کو 25 سال قید
- کراچی، تاجر کو قتل کر کے فرار ہونے والی بیوی آشنا سمیت گرفتار
- ججز کے خط کی انکوائری، وفاقی کابینہ کا اجلاس ہفتے کو طلب
- امریکا میں آہنی پل گرنے کا واقعہ، سمندر سے دو لاشیں نکال لی گئیں
- خواجہ سراؤں نے اوباش لڑکوں کے گروہ کے رکن کو پکڑ کر درگت بنادی، ویڈیو وائرل
- پی ٹی آئی نے ججز کے خط پر انکوائری کمیشن کو مسترد کردیا
- عدالتی امور میں ایگزیکٹیو کی مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، فل کورٹ اعلامیہ
- وفاقی حکومت نے کابینہ کی ای سی ایل کمیٹی کی تشکیل نو کردی
- نوڈیرو ہاؤس عارضی طور پر صدرِ مملکت کی سرکاری رہائش گاہ قرار
- یوٹیوبر شیراز کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات
- حکومت کا بجلی کی پیداواری کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ
- بونیر میں مسافر گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق
- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
’’پنش اے مسلم ڈے‘‘ اور انسانی حقوق کے علمبردار
گزشتہ روز گوگل پر سرچنگ کے دوران ایک انگریزی رپورٹ پر نظر پڑی جس کو دیکھ کر میں کچھ دیر کے لیے ساکن ہوگیا۔ ہونا بھی تھا، کیوں کہ وہ خبر ہی ایسی تھی۔ انگلش میں کچھ یوں لکھا ہوا تھا، (panish a muslim day, 3rd april 2018) یعنی جس طرح ماؤں کا عالمی دن، ( مدرز ڈے) مزدوروں کا عالمی دن (لیبر ڈے) یا خواتین کا دن ( ویمن ڈے) منایا جاتا ہے، اسی طرح برطانیہ میں مسلمانوں کو سزا دینے کا دن ( پنش اے مسلم ڈے) تین اپریل کو منایا جائے گا۔
برطانیہ کے مختلف شہروں میں نامعلوم افراد نے کئی گھروں، دفاتر اور دکانوں میں ایک خط پھینکا جس میں عیسائیوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ تین اپریل کو مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام کا حصہ بنیں۔ خط میں ہر قسم کے نفرت انگیز جرائم کے ارتکاب، نسل پرستی اور تعصب و نفرت پر پوائنٹس دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ خط کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے:
3 اپریل کو مسلمانوں کو سزا دینے کا دن منانے کا اعلان۔
مسلمان کو گالی دینے پر 10 پوائنٹس، مسلمان خاتون پر ہاتھ اٹھانے یا نقاب نوچنے پر 25 پوائنٹس، چہرے پر تیزاب پھینکنے پر 50 پوائنٹس، کسی مسلمان کو مارنے یا شدید زخمی کرنے کے 100 یا 500 پوائنٹس، مسجد جلانے یا بم پھینکنے پر 1000 پوائنٹس۔ ان سے بڑھ کر تین اپریل والے دن خانہ کعبہ کو (نعوذباللہ) نقصان پہنچانے پر 2500 پوائنٹس دیے جائیں گے۔ کون حاصل کرسکتا ہے یہ پوائنٹس؟؟؟
آخر میں مزید معلومات اور رابطہ کرنے کرنے کے لیے ایڈریس اور بھیجنے والے ادارے کا نام بھی درج کیا گیا ہے۔ وہ ایڈرس یہ ہے۔ HM Courts & Tribunals Service, GOV.UK 102 patty france landan
پنش اے مسلم ڈے کے لیٹرز کو دیکھ کر برطانیہ میں موجود مسلم کمیونٹی میں شدید خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ برطانیہ میں مقیم بہت سے مسلمانوں نے مختلف پولیس اسٹیشنز میں رپورٹ بھی درج کرائی مگر وہاں کی پولیس کارروائی کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لے رہی۔ ایک طرف مسلمانوں میں خوف و ہراس بڑھتا جارہا ہے، تو دوسری طرف انسانی حقوق کے علمبردار، چاہے وہ مغربی ہوں یا مشرقی، سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
خدا نخواستہ اگر اس قسم کا کوئی پیغام کسی اسلامی ملک میں یا کسی مسلمان انتہا پسند گروپ کی جانب سے ہوتا تو کیا انسانی حقوق کے علمبردار یوں ہی خاموش رہتے؟ کیا مغربی ممالک کے لوگ یوں ہی اپنے لبوں کو سیے تماشہ دیکھ رہے ہوتے؟
خونِ مسلم کی ارزانی کا انعامی کوپن کوئی پہلی مرتبہ سامنے نہیں آیا، اس سے قبل بھی اس طرح ہوتا رہا ہے۔ برما میں مسلمان مردوں کو ایک درخت کے ساتھ باندھ کر نشانہ بازی کی مشقیں کی جاتی ہیں، کہ آنکھ پر گولی مارنے پر یہ انعام، ناک پر فلاں انعام (اللہ اکبر)، مگر اب کی بار یہ کھل کر سامنے آئے ہیں۔ ہم لوگ خبروں، نیٹ اور اخبارات میں روزانہ یہ دیکھتے ہیں کہ آج جرمنی میں مسجد کو شہید کیا گیا، آج فرانس میں ایک مسلمان لڑکی کو چاقوؤں کے وار سے شہید کردیا گیا، وجہ اسکارف اوڑھنا تھا۔ کبھی آسٹریا میں مسلمان خواتین پر حجاب کی پابندی، تو کبھی کسی ملک میں نماز و اذان پر پابندی، حتیٰ کہ مسلمانوں پر یورپین زمین تنگ کرنے کےلیے تمام حربے استعمال کیے جارہے ہیں، موجودہ مسلم پنش ڈے بھی اسی کا تسلسل لگ رہا ہے۔
مگر افسوس صد افسوس، کہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں موجود نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار ایسے واقعات پر خاموش تھے اور ہیں۔ اگر پاکستان یا کسی بھی اسلامی ملک میں اس قسم کا کوئی واقعہ ہوجائے یا کسی تنظیم کی جانب سے ایسا کوئی خط جاری ہوجائے، مثلاً حال ہی میں پاکستان کے علاقے مردان کی حجام برادری کی نمائندہ تنظیم نے داڑھی کی ڈیزائن پر پابندی عائد کی ہے، جس پر نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ مگر مسلم اے پنش ڈے والے معاملے میں ان کی خاموشی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ یہ انسانیت کے نہیں، صرف اور صرف مغربیت کے ہمنوا ہیں۔ اس کے ثبوت کے طور پر انگلش فٹبالر رونالڈو کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔
کچھ روز قبل یورپین فٹبال اسٹار کھلاڑی رونالڈو نے پیپسی کمپنی کے کروڑوں روپے کے اشتہار میں کام کرنے سے انکار کیا تھا، وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ میں ایسی کمپنی کی تشہیری مہم کا حصہ ہر گز نہیں بن سکتا جو کمپنی اسرائیلی فوج کو بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کے لیے امداد فراہم کرتی ہو۔ (فٹبالر نے کچھ مزید باتیں بھی کیں) لیکن اگر یہی بات پاکستان کا کوئی مولوی یا دینی رجحان رکھنے والا شخص کہے تو یہی موم بتی مافیا جو حقوق انسانیت کے علمبردار بنے ہوئے ہیں، اس مولوی یا مذہبی نظریہ رکھنے والے شخص کو تنگ اور انتہاپسند کہیں گے۔ مگر ان میں سے کسی نے بھی رونالڈو کے بیان پر ردِعمل ظاہر نہیں کیا ’’کیونکہ رونالڈو ایک یورپین و مغربی شخص ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت نصیب کرے۔ (آمین)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔