خالی خانہ اور کھمبا احتجاج

عبدالقادر حسن  ہفتہ 6 اپريل 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

سردار صاحب نے بیرون ملک کام کر کے بہت سارا روپیہ بنا لیا، جب واپس لوٹے تو انھوں نے پہلا کام یہ کیا کہ نیا مکان بنایا اور اس پر اپنا شوق جی بھر کر پورا کیا۔ انھوں نے نئے مکان میں نہانے کے تین تالاب بنوائے، اسی طرح گھر کے دوسرے کمروں پر بھی بہت خرچ کیا اور مکان کی نمائش کے لیے ایک شاندار دعوت کی۔ مہمانوں نے گھر کی بہت تعریف کی اور جب انھوں نے ایک جگہ نہانے کے تین تالاب دیکھے تو پوچھا کہ سردار صاحب تین تالابوں کی کیا ضرورت تھی۔

سردار صاحب نے مہمانوں کی محدود سمجھ پر ہنستے ہوئے کہا کہ ایک تالاب ہے گرم پانی کا تا کہ سردیوں میں بھی نہایا جا سکے۔ دوسرا ہے عام ٹھنڈے پانی کا۔ درست لیکن مہمانوں نے پوچھا کہ سردار صاحب یہ تیسرا تالاب کس لیے ہے تو سردار صاحب نے جواب دیا جو نہ نہانا چاہے اس کے لیے۔ معلوم ہوتا ہے سردار صاحب کی یہ دانش ہمارے الیکشن کمیشن تک بھی پہنچ گئی ہے اور اس نے ووٹ کی پرچی پر ایک خانہ ایسا بھی رکھا ہے جو خالی ہے اور جس ووٹر کا کسی کو ووٹ دینے کو جی نہ چاہے وہ اس خالی خانے پر اپنی مہر لگا دے۔ غالباً یہ اپنی نوعیت کی پہلی مثال ہے۔ یا تو ہم الیکشن کراتے ہی نہیں ہیں اور کراتے ہیں تو پھر ایسے لطیفے چھوڑتے ہیں کہ دنیا کو پاگل کر دیتے ہیں۔

اگر کسی کو کوئی امیدوار بھی پسند نہیں تو وہ الیکشن میں ووٹ ہی نہ دے اور گھر بیٹھا رہے۔ گھر سے پولنگ اسٹیشن جائے اتنی زحمت کے بعد ووٹ کی پرچی بنوائے اور قطار میں لگ جائے باری آنے پر اندر ووٹ دینے جائے اور بند کمرے میں بیٹھ کر پرچی کے خالی خانے پر مہر لگا دے۔ یوں وہ اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو بے وقوف بنائے۔ سوال ہے کہ کیا یہ بھی جمہوریت کا کوئی انتقام ہے جو اب قوم کے ساتھ بذریعہ الیکشن کیا جا رہا ہے۔ بہر کیف الیکشن کی تاریخ میں یہ یاد رہے گا کچھ باتیں تو سنہری روشنائی سے لکھی جاتی ہیں جنھیں ہم اقوال زریں کہتے ہیں لیکن یہ اقوال احمقانہ کس روشنائی سے لکھے جائیں گے اس کا پتہ بعد میں چلے گا۔

مدت سے عرض کی جاتی رہی ہے کہ ملک کو بچانے کا اب ایک ہی طریقہ ہے کہ اس میں سو فی صد جمہوریت ہو اور وہ سو فی صد گندے اور غلیظ لوگوں سے محفوظ ہو۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کئی امیدوار اپنی کسی قانونی اخلاقی اور کردار کی غلطی کی وجہ سے الیکشن سے باہر کیے جا رہے ہیں، ان کے امیدواری کے کاغذات مسترد ہو رہے ہیں اور ریٹرننگ افسر کی کچہری سے خالی ہاتھ لوٹ رہے ہیں۔ میں جتنا کچھ اہل پاکستان کو جانتا ہوں وہ اس پر خوش ہیں۔ انھوں نے اشرافیہ کے بہت دکھ برداشت کیے ہیں اور اس وقت میں اگر موم بتی کی روشنی میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو یہ اسی اشرافیہ کی مہربانی ہے جو بجلی پیدا کرنے کا مال کھا گئی ہے اور اب وہ اور اس کا خاندان دنیا کے مہنگے بازاروں سے کروڑوں کی شاپنگ کر رہا ہے۔

بات یہ ہے کہ اب جب احتساب کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے تو وہ کتنا بھی کمزور سہی ایک پہل ایک جسارت تو کی گئی ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ہمارے نوجوانوں سے یہ بوڑھے ہی کام کے نکلے، الیکشن کمشنر ہو یا وزیر اعظم سبھی اسی برس سے اوپر کے ہیں اور اللہ نے قوم کے لیے ان کی عمر کو با برکت کر دیا ہے۔ شاید قدرت کو ہم پر رحم آ گیا ہے کہ خدا و رسول کے نام پر بننے والے اس ملک کو وہ اس ملک کے بداعمال اور بدکردار حکمرانوں کے ذریعہ تباہ نہیں کرنا چاہتا۔ آنے والے وقتوں میں ایسے بت بھی گرنے والے ہیں جن کی دھمک بہت دور دور تک سنی جائے گی اور ہو سکتا ہے قوم کے کچھ لوگ جشن بھی منائیں۔ لیکن ابھی ہمارے خوابوں کو حقیقت بننے میں وقت درکار ہے بس خواہش اتنی ہے کہ یہ قوم اپنی نئی زندگی ایک بار دیکھ لے۔

ان دنوں غیر معمولی لوڈشیڈنگ کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جو کوئی حکومت سے یا گھر والوں سے ناراض ہوتا ہے وہ آئو دیکھتا ہے نہ تائو کسی کھمبے پر چڑھ جاتا ہے، اس امید کے ساتھ کہ اسے صحیح و سلامت اتار لیا جائے اور یہی ہو بھی رہا ہے، ان دنوں میاں صاحبان کے ماڈل ٹائون والے گھر کے سامنے کا کھمبا پہلے نمبر پر جا رہا ہے۔ لیکن میری خواہش ہے کہ یہ تماشا لگانے والے ایک رات تو اسی کھمبے پر گزاریں کہ احتجاج کا مزا چکھا جا سکے۔ ان دنوں بعض الیکشنی امیدواروں کی کسی ناکامی کے سلسلے میں بھی یہ احتجاج ہو رہا ہے اور میرا اندازہ ہے کہ متعلقہ سیاستدانوں کو ان کھنبے والوں کو حفاظت کا یقین دلانا ہو گا۔

ایک مدت ہوئی جب بھٹو صاحب کی حمایت میں خود سوزی کی جاتی تھی تو پارٹی کے لیڈر خود سوزی کرنے والے سے کہتے کہ یہ دیکھو کمبل تیار ہے جو فوراً تمہارے اوپر ڈال کر تمہیں جلنے سے بچا لیا جائے گا۔ کبھی ایسا ہوتا تھا اور کبھی نہیں ہوتا تھا بہر کیف ہماری سیاسی تاریخ میں ان کھمبوں کا ذکر آتا رہتا ہے، جب کوئی پاپولر لیڈر دعویٰ کرتا ہے کہ میں کسی کھمبے پر بھی اپنا ٹکٹ لٹکا دوں تو وہ بھی الیکشن جیت جائے گا،  ایسا ہوتا بھی رہا ہے اور کھمبوں جیسے لوگ بھی اسمبلیوں میں آتے رہے ہیں، اب ان کھمبوں کا ایک نیا سیاسی استعمال سامنے آیا ہے یعنی احتجاج۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔