عام انسانوں کی بصیرت پر اعتماد کریں

نصرت جاوید  ہفتہ 6 اپريل 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

11مئی 2013ء کو ہونے والے عام انتخابات پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے مرحلے پر ہوں گے جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس اپنی ’’مظلومیت‘‘ کی کوئی داستان سنانے کی گنجائش موجود نہیں۔ تمام ترمشکلات اور جھوٹی سچی سازشوں، میڈیا کی جارحانہ تنقید اور ایک بہت ہی متحرک عدلیہ کے باوجود اسے اقتدار کے پورے پانچ سال ملے۔ ان پانچ سالوں کے حوالے سے اس کے پاس ایک بھی ایسی کہانی موجود نہیں جسے سیاستدان انتخابات جیتنے کے لیے Feel Good Factor کے طور پر بیچا کرتے ہیں۔

ایسی کوئی چیز موجود ہوتی تو اس کے ایک وزیر اعظم کو عمومی قواعد سے بالاتر ہو کر توہینِ عدالت کے جرم میں صرف ایک حکم کے ذریعے برطرف کرنا اتنا آسان نہ ہوتا۔ من موہن سنگھ کی حکومت نے 2004ء سے 2009ء کے درمیان کوئی ہوشربا کارنامے سرانجام نہ دیے تھے۔ اس کے باوجود ان کی جماعت ایک اور انتخاب جیت گئی۔ محض اس لیے کہ مخالف جماعتیں منتشر تھیں اور من موہن سنگھ کا بہتر متبادل دکھانے کے ناقابل۔ ہمارے ہاں ایسی صورت موجود نہیں ہے۔

شہباز شریف کے اندازِ حکومت کا میں کوئی اتنا زیادہ مداح نہیں۔ میرے خیال میں انھیں منتخب اداروں کے ذریعے نہیں بلکہ اپنی ذات سے وفاداری کی بنیاد پر اکٹھے کیے بیوروکریٹس کے ذریعے Deliver کرنے کا جنون ہے۔ مگر خیبر پختون خوا میں جب بھی گیا عام لوگوں نے پنجاب حکومت کا اپنی صوبائی حکومت سے بڑے غصے کے ساتھ موازنہ کیا۔ چند روز پہلے میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے ایک سرکردہ شخص سے ملا۔ وہ ذاتی طور پر آصف علی زرداری کی سیاسی چالوں کے بڑے مداح ہیں۔ مگر ایک غیر ملکی ادارے کے لیے نوجوانوں کی ایک ٹیم لے کر انھیں جیکب آباد اور شہداد کوٹ جانا پڑا۔

جس ادارے کے لیے وہ کام کر رہے تھے اس کے ذمے ایک سروے لگا تھا جس کے ذریعے دریافت یہ کرنا تھا کہ حکومت نے سندھ کے ان علاقوں میں سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے جو اقدامات اُٹھائے تھے ان کا حقیقی نتیجہ کیا نکلا۔ ان صاحب نے رات کے ایک کھانے میں بڑی تفصیل اور قدرے دُکھ سے اس بات کا انکشاف کیا کہ حکومت نے اس ضمن میں جو منصوبے بنائے تھے ان کے ثمرات عام لوگوں تک ہرگز نہ پہنچ پائے۔ بہت سی جگہوں پر مقامی وڈیروں اور قبائلی سرداروں نے اپنے ہاریوں تک وطن کارڈ نہ پہنچنے دیے۔ ان کے ذریعے رقوم خود یا اپنے کارندوں کے ذریعے نکلوا کر اپنی مرضی سے بانٹتے رہے۔ ان صاحب نے یہ اعتراف بھی کیا کہ اندرون سندھ سفر کے دوران مقامی لوگ اپنی سڑکوں کی بدحالی کا پنجاب اور خاص کر لاہور کی سڑکوں سے موازنہ کرتے رہے۔

کئی ایک نے لاہور کی میٹرو بس کا بھی بڑے رشک سے ذکر کیا۔ آصف زرداری کے اپنے تئیں مداح ان صاحب کا خیال تھا کہ اگر نواز شریف جیکب آباد، شہداد کوٹ اور جعفر آباد جیسے علاقوں کو زیادہ وقت دے کر وہاں سے نسبتاََ جوان اور متوسط طبقے کے امیدوار کھڑے کرنے کے بعد ان کی انتخابی مہم چلاتے تو پاکستان مسلم لیگ نون سندھ میں حیران کن نتائج دے سکتی تھی۔ عمران خان کی جماعت سے بھی انھیں کچھ اسی طرح کی شکایات تھیں۔ میں ان کی باتیں سن کر دل ہی دل میں سوچتا رہا کہ میں اسلام آباد میں بیٹھا کچھ ایسی باتیں لکھتا رہتا ہوں۔ مگر شرم کے مارے ان سے ذکر نہ کیا۔

بہرحال اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے میں بنیادی طور پر کہنا یہ چاہتا ہوں کہ 2013ء میں پہلی بار پاکستان کے بدنصیب عوام کو یہ سنہری موقع مل رہا ہے کہ وہ ہماری دو بڑی سیاسی جماعتوں کو ان کی پانچ سالہ کارکردگی کی بنا پر صرف اپنے ووٹ کے ذریعے سزا یا جزا سے نواز سکیں۔ اس سے بھی کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ نواز شریف یا عمران خان کو ہمارے دوسرے صوبوں میں رہنے والے صرف ان کے ’’پنجابی‘‘ ہونے کی وجہ سے مسترد نہیں کر رہے۔ ان کی زیادہ توجہ ان دونوں کی سیاست پر مرکوز ہے۔ دور رس حوالے سے یہ ایک بہت ہی اہم پیشرفت ہے جو پاکستان کو نسلی یا صوبائی تقسیم سے آگے لے جا کر ٹھوس سیاسی بنیادوں پر ایک متحد قوم بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

ان روشن امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں انتہائی ادب و احترام سے اپنے میڈیا میں گھسے ’’پارسائی فروشوں‘‘سے التجا کرنا چاہتا ہوں کہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے لیے ایسا ماحول نہ بنائیں جہاں تاثر کچھ اس طرح کا اُبھرے کہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے چیدہ چیدہ لوگوں کو پارسائی، انصاف اور بدعنوانوں کا قلع قمع کرنے کے نام پر نشانہ بنا کر انتخابی عمل سے باہر رکھا جا رہا ہے۔ ایسے لوگوں کو جن کے نام میں جان بوجھ کر نہیں لکھ ر ہا اگر انتخابی مہم سے باہر رکھا گیا تو 11 مئی کو کوئی قیادت نہیں آئے گی۔ 4 اپریل 1979ء کو جب بھٹو کو پھانسی دی گئی تو اس دن بھی کوئی خاص واقعہ  نہیں ہوا تھا۔ مگر اس پھانسی نے لوگوں کے دلوں میں جو غصہ اکٹھا کیا وہ 1983ء کی ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران اُبل کر سندھ میں خوفناک طور پر سامنے آیا۔

اس غصے کی وجہ سے 27دسمبر2007ء کے دن محترمہ بے نظیر بھٹو کی المناک موت کے بعد پورے سندھ میں ایک بار پھر بغاوت پھوٹ پڑی۔ اپنے دس کے قریب صحافی دوستوں کے ہمراہ میں کراچی سے لاڑکانہ آصف علی زرداری سے تعزیت کرنے گیا تھا۔ ہم لوگوں نے اپنے سفر کے دوران جو مناظر دیکھے اور لوگوں کی باتیں سنیں تو پریشان ہو کر رہ گئے۔ ایسے میں آصف علی زرداری کا ’’پاکستان کھپے‘‘ کہنا یقینا ایک بڑی جرأت مندانہ بات تھی۔ بعد ازاں ان کے زیر سرپرستی پیپلز پارٹی کی حکومت نے جو کچھ کیا اس کا حساب خدا کے لیے خلقِ خدا کو لینے دیجیے۔ عدالتوں اور الیکشن کمیشن کو اس کھیل سے باہر ہی رکھیں۔ صبر سے کام لیں اور عام انسانوں کی بصیرت پر اعتماد کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔