تعلیم کا قتل

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 6 اپريل 2013
tauceeph@gmail.com

[email protected]

نیشن سیکنڈری اسکول میں گزشتہ ہفتے سالانہ فنکشن تھا۔ معصوم بچے اور بچیاں خوبصورت یونیفارم میں ملبوس اسٹیج پر پیش کیے جانے والے میجک شو کو دیکھنے میں مگن تھے کہ موت نازل ہوگئی ۔ اس شو کے اختتام پر مختلف جماعتوں میں امتیازی پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کو میڈل اور اسناد تقسیم ہونی تھیں۔ اسکول میں بچوں، ان کے والدین اور قریبی اسکولوں کے سربراہ موجود تھے۔ اسی دوران دو موٹر سائیکل سوار کراچی کے مضافاتی علاقے اتحاد ٹاؤن میں قائم اس اسکول کی عمارت میں داخل ہوئے۔ ان نامعلوم نوجوانوں نے اسکول کے پرنسپل عبدالرشید پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔

اس فائرنگ کی زد میں اساتذہ اور طلبا و طالبات بھی آئے، یوں 10 افراد فائرنگ میں زخمی ہوئے۔ زخمیوں کو کچھ دیر بعد آنے والی ایمبولینسوں اور نجی گاڑیوں میں 30 کلومیٹر دور سول اسپتال لے جایا گیا۔ سول اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے ڈاکٹروں نے اسکول کے پرنسپل عبدالرشید کی موت کی تصدیق کردی۔ دوسرے دن 12 سالہ طالبہ طاہرہ بھی زخموں کی تاب نہ لا کر جاں بحق ہوگئی۔ عبدالرشید تو اپنے دو کم عمر لڑکوں، چار لڑکیوں اور ایک  بیوہ کو بے سہارا چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے، اسکول پر حملہ کرنے والے نامعلوم نوجوان اطمینان سے اپنے ٹھکانوں میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے مگر دی نیشن اسکول میں زیر تعلیم دو سو کے قریب لڑکے اور لڑکیوں کا مستقبل مخدوش ہوگیا۔

عبدالرشید کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقے سوات سے تھا۔ وہ بنیادی طور پر خدائی خدمت گار تحریک کے سربراہ خان عبدالغفار خان سے متاثر تھے اور عوامی نیشنل پارٹی ضلع ویسٹ کے رہنما تھے۔ انھوں نے عبدالغفار خان کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے پختون آبادی میں ایک مخلوط اسکول قائم کیا تھا۔ اس علاقے میں مزدور آباد ہیں جن کے پاس بچوں کی تعلیم کے لیے رقم نہیں، عبدالرشید نے اپنے اسکول میں بیشتر طلبا کی فیس معاف کی ہوئی تھی۔ عبدالرشید کے جنازے میں سیکڑوں لوگوں نے شرکت کی۔ ان میں اکثریت ان غریب والدین کی تھی جن کے بچے دی نیشن اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ ان میں سے کئی افراد نے جنازے میں کہا کہ ان کے بچے اب کام کریں گے، انھیں اب اسکول جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ عبدالرشید کے اہل خانہ کو بھی اب اسکول چلانے سے دلچسپی نہیں۔ یوں پختونوں کی غریب بستی کے بچوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے مواقع مخدوش ہوگئے۔

عبدالرشید نے جب سے اسکول کو متحرک کیا تھا اس کو دھمکیوں کا سامنا تھا۔ عبدالرشید کا ایک جرم تو یہ تھا کہ اس نے مخلوط تعلیم کا اسکول قائم کیا تھا۔ کراچی سے شایع ہونے والے دائیں بازو کے ایک اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عبدالرشید کی دعوت پر سوات میں خواتین کی تعلیم کے لیے آواز بلند کرنے والی لڑکی ملالہ یوسف زئی نے گزشتہ سال دی نیشن اسکول کا دورہ کیا تھا ۔ ملالہ یوسف زئی کے مشن سے عبدالرشید خاصے متاثر تھے۔ اسی بنا پر وہ گزشتہ سال سے انتہاپسندوں کی دھمکیوں کی زد میں تھے۔ پینٹ، قمیض اور ٹائی کے جدید یونیفارم اور انگریزی تعلیم مذہبی انتہاپسندوں کو کسی صورت قبول نہیں۔ اتحاد ٹاؤن سمیت کراچی کے مضافاتی علاقوں میں مذہبی انتہاپسندوں نے غلبہ حاصل کرلیا ہے۔

کراچی کی یہ پٹی گھگھر پھاٹک سے شروع ہو کر بلوچستان کی سرحد تک جاتی ہے، مذہبی انتہا پسندوں کے نرغے میں ہے۔ کراچی کے ایک سابق ایڈمنسٹریٹر فہیم الزماں اور نازیہ سید علی کی ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 17 آبادیوں میں طالبان نے اپنا تسلط قائم کرلیا ہے، یوں کئی لاکھ کی آبادی مفلوج ہوگئی ہے۔ اس علاقے میں طالبان نے عدالتیں قائم کی ہوئی ہیں اور طالبان کی شریعت کی خلاف ورزی پر سزائیں دی جاتی ہیں۔ ان علاقوں میں کیبل ٹی وی کی نشریات ممنوع قرار دے دی گئی ہے۔ محکمہ صحت کو پولیو کے قطرے بچوں کو پلانے کی اجازت نہیں ملی۔ طالبان نے پولیو کے قطرے پلانے والی لیڈی ہیلتھ ورکر پر حملے کیے جن میں کئی خواتین جاں بحق ہوئی تھیں۔ اخباری رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ اور بموں کے حملوں کی منصوبہ بندی بھی ان ہی علاقوں میں ہوتی ہے اور ملزمان کراچی شہر میں اپنے ٹارگٹ پورے کرنے کے بعد ان علاقوں میں موجود اپنی کمین گاہوں میں چھپ جاتے ہیں۔

کراچی میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی ہے اور لاقانونیت نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ اس صورتحال میں پولیس اور انٹیلی جنس نیٹ ورک بھی مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس اور رینجرز حکام ان علاقوں میں کارروائیوں سے گریز کرتے ہیں۔ پولیس کے ذرایع کہتے ہیں کہ پولیس اور انٹیلی جنس نیٹ ورک مفلوج ہونے کی ایک وجہ مذہبی انتہاپسندوں کا جدید تربیت اور جدید آلات سے لیس ہونا بھی ہے۔ یہ انتہاپسند پولیس تھانوں پر حملے کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس موبائلوں اور چوکیوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جو خفیہ پولیس اہلکار ان کی کمین گاہوں سے واقفیت حاصل کرلیتے ہیں وہ نامعلوم افراد کے حملوں میں شہید ہوجاتے ہیں۔ اس طرح گزشتہ سال مرنے والے پولیس والوں کی بھی تعداد 100 سے تجاوز کرچکی ہے۔

انتہاپسندی اور طالبان کی سرگرمیوں کا تنقیدی جائزہ لینے والے بعض مبصرین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ عسکری قوتوں کی مخصوص مفادات کے حصول کی پالیسی کی بنا پر مذہبی انتہاپسندوں کو ان علاقوں میں اپنی کمین گاہیں قائم کرنے کا موقع ملا۔ بعض سینئر صحافی یہ بیان تک دیتے ہیں کہ 2002 میں ایک مخصوص پالیسی کی بنیاد پر ان علاقوں میں بلوچستان اور پختونخوا سے آنے والے انتہاپسندوں اور ان کے اہلِ خانہ کو اپنی کمین گاہیں بنانے کی اجازت دی گئی۔ ان انتہاپسندوں نے لینڈ مافیا کے ایک مخصوص حصے کی مدد سے سرکاری اور غیر سرکاری زمینوں پر قبضے کیے۔ جب انتہاپسندوں نے رہائشی اسکیموں اور محلوں کے میدانوں پر قبضے کیے تو انتظامیہ نے مخصوص مفادات کے تحت چشم پوشی کی پالیسی اختیار کیے رکھی۔

غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے لیے فرائض انجام دینے والے ایک سینئر رپورٹر نے چند سال قبل طالبان کے ایک رہنما کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ انتہا پسند کراچی کو اپنے پروپیگنڈے کی تشہیر کے لیے مطبوعات کی اشاعت، علاج معالجے اور تفریحی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جب ان انتہاپسندوں کی قیادت چاہے گی وہ کراچی کو اپنی دہشت گردی کی سرگرمیوں کا مرکز بنادیں گے۔ کچھ غیر ملکی اخبارات میں شایع ہونے والی یہ اسٹوری مکمل طور پر درست ثابت ہوئی۔ 2010 میں ان انتہاپسندوں نے 10 محرم کو ایم اے جناح روڈ پر عاشورہ کے جلوس کو نشانہ بنایا۔ یہ حملہ کراچی میں امن و امان کو غارت کرنے اور ریاست کی رٹ کی پامالی کے سلسلے کی پہلی کڑی ثابت ہوا۔

یہ سلسلہ اب کسی صورت رکنے کا نام نہیں لے رہا اور اب صورتحال اتنی خراب ہوگئی ہے کہ اساتذہ کو تعلیمی اداروں میں شہید کیا جارہا ہے۔ یوں محسو س ہوتا ہے کہ جس طرح ان انتہاپسندوں نے قبائلی علاقوں اور سوات میں اسکولوں کی عمارتوں کو تباہ کیا تھا اور اساتذہ کو قتل کرکے غریب عوام پر جدید تعلیم کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی تھی، اب اس پالیسی پر کراچی میں عملدرآمد کی کوششیں ہورہی ہیں۔

عبدالرشید کا قتل محض ایک ٹارگٹ کلنگ نہیں ہے بلکہ قاتلوں کا مقصد پختونوں کی نئی نسل کو جدید تعلیم سے روکنا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اردو زبان میں شایع ہونے والے اخبارات، الیکٹرانک میڈیا اور سیاسی جماعتوں نے عبدالرشید کے قتل کو فراموش کردیا۔ طالبان سے ہمدردی رکھنے والے پختونوں میں اپنی جڑیں بنانے والی جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن کی جماعت سے شکایت کے بجائے روشن خیال ایجنڈا رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی عبدالرشید کے قتل پر بے حسی پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔

ان جماعتوں کی قیادت نے عبدالرشید کے خون کو فراموش کردیا ہے۔ عبدالرشید صاحب نے تعلیم کے لیے جان دی، انتہا پسندوں نے عبدالرشید کو قتل ہی نہیں کیا بلکہ اتحاد ٹاؤن کے غریب طلبا و طالبات سے تعلیم کا حق بھی چھین لیا گیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ کراچی کو طالبان سمیت تمام فسطائی اور بے رحم طاقتوں کے جابرانہ غلبے سے بچانے کے لیے بنیادی اقدامات کیے جائیں۔کراچی قاتلوں کی زد میں ہے۔ ان بنیادی اقدامات میں امن و امان کی بحالی کے ساتھ ساتھ اتحاد ٹاؤن اور ملحقہ آبادیوں میں جدید تعلیم کے مخلوط اسکولوں اور کالجوں کا قیام بھی انتہائی ضروری ہے تاکہ نئی نسل جدید علم سے لیس ہو کر انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے متحرک ہوپائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔