پارلیمنٹ کی بالادستی؛ لیکن کب؟

ارمغان قیصر  ہفتہ 17 مارچ 2018
ہمارے ملک میں آج کل پارلیمانی بالادستی پر بحث اور مسئلہ بہت عروج پر ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ہمارے ملک میں آج کل پارلیمانی بالادستی پر بحث اور مسئلہ بہت عروج پر ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ارسطاطالیس جسے دنیا ارسطو کے نام سے جانتی ہے، اس نے ملی جلی حکومت کا تصور پیش کیا۔ جان کیلون (John Calvin) نے اشرافیہ اور جمہوریت کا ملا جلا حکومتی تصور پیش کیا لیکن ایک فرانسیسی مفکر مانٹسکیو (Montesquie) نے اپنی کتاب The Spirit of the Laws میں اختیارات کی تقسیم کا نظریہ پیش کیا۔ وہ بنیادی طور پر جمہوریہ روم اور برطانیہ کے نظام سے متاثر تھا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا آئین مانٹسکیو کے نظریئے سے متاثر ہوکر بنایا گیا۔ وہاں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ میں اختیارات کی تقسیم ہے اور احتساب و توازن کا نظام قائم ہے۔ کینیڈا اور نیوزی لینڈ میں بھی خاصی حد تک اس نظام کو اپنایا گیا ہے۔ سوئٹزرلینڈ وہ واحد ملک ہے جہاں غیر صدارتی نظام ہونے کے باجود اس نظام کو اپنایا گیا۔ دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریتوں میں ایک تقسیم اختیارات کا نظام اور دوسرے پارلیمانی بالادستی کا نظام رائج ہیں۔

البرٹ وین ڈائسی (Albert Venn Dicey) نے پارلیمانی بالادستی کا نظریہ ٹھوس انداز میں پیش کیا۔ اس نظام میں مقننہ کی بالادستی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مقننہ کے علاوہ کوئی ادارہ یا شخص نہ تو قانون بناسکتا ہے اور نہ ہی کسی قانون کو ختم کرسکتا ہے۔

1215 میں برطانیہ میں ہونے والا معاہدہ میگناکارٹا پارلیمانی بالادستی کی طرف ٹھوس قدم اور سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ فن لینڈ، ناروے، ڈنمارک، سویڈن اور یورپ سمیت بہت سے ممالک میں پارلیمانی بالادستی کے تحت نظام بنائے گئے ہیں۔ ایشیا کے بھی کچھ ممالک میں اس نظام کو کامیابی سے چلایا جا رہا ہے۔

ہماری ستر سالہ تاریخ کے دوران یہ بحث چلتی رہی کہ کونسا نظام ہمارے لئے بہتر ہے؟ مختلف ادوار میں مختلف نظام لاگو رہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ٹھوس انداز میں یہ فیصلہ کریں کہ ہمارے لئے کونسا نظام بہتر ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ جن ممالک میں بھی پارلیمانی بالادستی کا نظام رائج ہے وہاں صدیوں کے ارتقائی عمل سے گزر کر قائم ہوا ہے۔ عوام اور مقننہ نے ان ریاستوں میں اپنی بالادستی کو اپنے کام اور ارادے سے منوایا ہے۔ زمینی حقائق ہمیشہ سمت کا تعین کرنے میں بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس ارتقائی عمل میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ نوزائیدہ جمہوریتوں اور معاشروں میں جب طبقاتی تقسیم زیادہ ہو تو یہ عمل مزید مشکل اور پیچیدہ ہوجاتا ہے۔

ہمارے ملک میں آج کل پارلیمانی بالادستی پر بحث اور مسئلہ بہت عروج پر ہے۔ شاید آنے والے انتخابات میں، انتخابی مہم کے دوران، ایک بڑی پارٹی کا یہی مرکزی نکتہ ہوگا، لیکن تبدیلی کا عمل ہمیشہ نچلی سطح سے شروع کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو وہ تبدیلی عارضی نوعیت کی ثابت ہوتی ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ طبقاتی تقسیم کو کم سے کم کیا جائے۔ خواندگی کی شرح میں حقیقی اضافہ کیا جائے۔ لوگوں میں آگاہی کےلیے ایک وسیع تر مہم کا آغاز کیا جائے جس میں ان کو حقوق و فرائض کے ادراک کے ساتھ ساتھ ووٹ کی اہمیت کا بھی اندازہ ہو۔

انفرادی شعور بہت ہوگا تو اجتماعی شعور بھی خودبخود بہترہوتا چلا جائے گا۔ میڈیا، سول سوسائٹی اور پڑھے لکھے طبقے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کو بھی اس بات پر ایک پلیٹ فارم اکٹھا ہونا کے ساتھ ایک وسیع تر لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے جو مختصر مدتی ہونے کے بجائے درمیانی مدت اور طویل مدتی ہو۔

ہمارا ملک اور عوام ایک سیکھنے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ حالیہ بحث یقیناً ایک نئی سمت کا تعین کرے گی لیکن اداروں کی خود مختاری اور ان کے درمیان ہم آہنگی بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس لئے نہ صرف اداروں کے درمیان ایک وسیع تر ڈائیلاگ ہونے کی ضرورت ہے بلکہ اس میں عوامی خواہشات اور ان کی شمولیت بھی لازمی امر ہے جس کی مطابقت میں حکمتِ عملی وضع کی جائے۔

ہمارا ملک اس وقت ارتقائی عمل کے تاریخی موڑ پر ہے اور مقننہ کی بالادستی کی بحث یقیناً گیم چینجر ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔